ٹرمپ کے بیان پرکھلبلی
امریکا نے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی پر صرف بیان جاری کیا ہے، ابھی تک کچھ کیا نہیں۔ اسی طرح امریکا پاکستان پر ڈرون حملے کرتا رہا اور پاکستان مذمتی بیانات تو دیتا رہا مگرکچھ کیا نہیں ۔ آرمی چیف قمرجاوید باجوہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ''ہمیں امداد نہیں چاہیے مگر امریکا ہماری قربانیوں کااعتراف کرے۔'' اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانیاں کس بات کی؟ افغانستان میں امریکی سامراج مخالف بائیں بازوکی حکومت قائم ہوئی تو ہم نے اس کا خیرمقدم کرنے، تعاون کرنے اوراس سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے بجائے امریکا کے اشارے پر مسلح مداخلت کی اور سامراج نواز حکومت عوام پر مسلط کرنے میں مددگار بنے۔ جس کے نتیجے میں پا کستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن متعارف ہوئی۔
امریکا نے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ جس پر پہلے تو سب خاموش رہے لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کا اخبارات میں بیان شایع ہوا کہ ''ہم حقا نی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کریں گے۔'' امریکا سے ہمارے'ہٹو بچو' والے تعلقات ایک عرصے سے چلے آرہے ہیں۔ جسے انگریزی میں (Love and hate)کی پالیسی کہتے ہیں، یعنی محبت اور نفرت۔ پہلے تو بینظیر بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے دور میں سامراجی ہماری سرزمین پر نام نہاد مجاہدین کو مسلح تربیت دیتے رہے اورجب یہ فلم ان کے اپنے گلے پڑگئی توجنرل پرویز مشرف کے دور میں افغانستان پر حملہ کر کے سامراجی پٹھو صدرکو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا، یہ دونوں عوامل غلط ثابت ہوئے۔
اب تیسری بار امریکا پاکستان کو خبردارکر رہا ہے۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست کل کہنے لگے کہ اس کا ایک توڑ ہے، میں نے پوچھا کہ وہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ''آپ ڈالر چھاپنے لگیں' میں نے کہا کہ یہ تو غیر قانونی کام ہوگا'' تو انھوں نے جواب میں کہا ''کیا امریکا پاکستان پر ڈرون حملے قانونی طور پرکررہا تھا؟ '' میں نے کہا کہ ''اگر آپ چھاپ بھی لیں تو بازار میں نہیں چلے گا ۔'' اس پر انھوں نے جواب میں کہا کہ ''آپ سوڈان، صومالیہ، عراق، شام اور یمن میں برآمدکریں ۔'' جس پر میرا جواب تھا کہ ''یہ تو بین الاقوامی جرم ہوگا۔'' جس پر انھوں نے جواب میں پھر کہا کہ ''امریکا کے 68 جنگی بحری بیڑے جو دنیا بھرکے سمندروں میں لنگر انداز ہیں اور وہ ہر ملک پر چڑھ دوڑتا ہے،کیا یہ جرم نہیں؟ '' میں اس بات پر ہنستا رہا مگر وہ بولے جا رہے تھے۔ خیر یہ تو رہی ہنسی مذاق کی بات۔
اب بات ہو نی چاہیے سنجیدگی کی۔ ساری سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، سینیٹ اور دیگر ادارے امریکی جارحا نہ بیان کی مذمت کرتے رہے مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ مطالبہ کرے کہ آئی ایم ایف، ورلڈبینک، کنسورشیم، اے ڈی پی، پی ایل 480 کے معاہدات کو منسوخ کر کے بحق سرکار تمام سرمائے کو ضبط کر لیا جائے اورایسے معاہدوں سے دست بردار ہوا جائے۔شاید اس لیے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ کہیں انھیں اقتدار میں آکر ایسا نہ کرنا پڑے۔ جن ملکوں نے ان معاہدات سے کنارہ کشی کی ہے وہ سرما یہ دارانہ چمک دمک اور اونچی عمارتوں اور بڑی گاڑیوں سے محروم تو ہوگئے ہیں لیکن قرض دار نہیں۔ وینیزویلا، بولیویا، کیوبا،کمبوڈیا، زمبابوے، سوشلسٹ کوریا اور منگولیہ وغیرہ۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاس اتنے وسائل ہیں اور نہ معدنیات۔ جب کہ پاکستان کے پاس تو سب کچھ ہے۔ سونا، چاندی، ہیرا، تیل،گیس،کوئلہ، جست، تانبا، سلفر، نمک،کرومائیٹ اور دیگر معدنیات سے ہماری زمین بھری پڑی ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا پھل ہے جو پاکستان میں پیدا نہیں ہوتا۔ خشک میوے سے ہمارے باغات لدے پڑے ہیں۔ اجناس میں گندم، دھان، تیل کے بیج، جو، مکئی، باجرہ وغیرہ کی بھرمار ہے۔ کراچی سے گوادر تک طویل سمندری ساحل ہے جہاں روزانہ لا کھوں ٹن مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں ۔گوشت، سبزیاں، چاول،کپاس، پھل، میوے ہم برآمد کرتے ہیں پھر بھی مقروض ہیں۔
گزشتہ برس ہمیں سب سے زیادہ تجارتی خسارہ چین سے ہوا ہے۔ لاکھوں ٹن جھینگے ہم امریکا کو برآمد کرتے ہیں۔ پھر بھی بھوکے ہیں۔ اس کی دو ہی بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک دفاعی بجٹ اور دوسرا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے۔ اگر ہم دفا عی بجٹ پچاس فیصد کم کر دیں اور سامراجی سرمایہ بحق سرکار ضبط کرلیں تو ہم نہ صرف خوشحال ہوں گے بلکہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس لیے موقع اچھا ہے کہ اس امریکی دھمکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں فورا سامراجی معاہدات سے علٰیحدگی اختیارکرلینا چاہیے۔ ہماری ساٹھ فیصد زمین بنجر پڑی ہیں جسے قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے ۔ ہمارے پاس زمین کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ کروڑوں درخت، پودے اور باغات لگائے جا سکتے ہیں۔ پانی کے اتنے ذخائر تعمیر کیے جاسکتے ہیں کہ پورے ملک کو ایک باغ بنایا جا سکتا ہے۔ جانوروں، پرندوں اورچرندوں سے ملک کو بھر دیا جا سکتا ہے اور ان سے ہماری غذائی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ صرف دریاؤں اور سمندروں کے ساحلوں کو اگر ہم درختوں سے بھر دیں تو سبزیوں اور پھلوں سے ملک کو نہ صرف بھرا جا سکتا ہے بلکہ تمام لوگوں کو مفت سبزیاں اور پھل فراہم کیا جا سکتا ہے۔
ژاں ژاک روسو نے درست کہا تھا کہ '' ابتدائی انسان نہایت نیک، بھولا بھالا اورمعصوم تھا۔ غرور، ہوس، نفرت اور عداوت، لڑائی فساد غرضیکہ معاشرے کی تمام برائیوں سے پاک وہ بڑی سادہ زندگی بسرکرتا تھا ۔ پیاس لگتی تو چشمے سے پانی پی لیتا، بھوک لگتی تو درختوں سے پھل کھا لیتا، نیند آتی تو کسی درخت کے سائے میں پاؤں پھیلا کر سوجاتا۔ نہ غم امروز، نہ فکر فردا، نہ کوئی کسی کا آقا اور نہ کوئی کسی کا محکوم لیکن فراغت اور مساوات کا یہ دور ذاتی ملکیت کے ہاتھوں برباد ہو گیا بالکل ایسا ہی سماج قائم ہونے کی ضرورت ہے جہاں کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔
امریکا نے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ جس پر پہلے تو سب خاموش رہے لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کا اخبارات میں بیان شایع ہوا کہ ''ہم حقا نی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کریں گے۔'' امریکا سے ہمارے'ہٹو بچو' والے تعلقات ایک عرصے سے چلے آرہے ہیں۔ جسے انگریزی میں (Love and hate)کی پالیسی کہتے ہیں، یعنی محبت اور نفرت۔ پہلے تو بینظیر بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے دور میں سامراجی ہماری سرزمین پر نام نہاد مجاہدین کو مسلح تربیت دیتے رہے اورجب یہ فلم ان کے اپنے گلے پڑگئی توجنرل پرویز مشرف کے دور میں افغانستان پر حملہ کر کے سامراجی پٹھو صدرکو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا، یہ دونوں عوامل غلط ثابت ہوئے۔
اب تیسری بار امریکا پاکستان کو خبردارکر رہا ہے۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست کل کہنے لگے کہ اس کا ایک توڑ ہے، میں نے پوچھا کہ وہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ''آپ ڈالر چھاپنے لگیں' میں نے کہا کہ یہ تو غیر قانونی کام ہوگا'' تو انھوں نے جواب میں کہا ''کیا امریکا پاکستان پر ڈرون حملے قانونی طور پرکررہا تھا؟ '' میں نے کہا کہ ''اگر آپ چھاپ بھی لیں تو بازار میں نہیں چلے گا ۔'' اس پر انھوں نے جواب میں کہا کہ ''آپ سوڈان، صومالیہ، عراق، شام اور یمن میں برآمدکریں ۔'' جس پر میرا جواب تھا کہ ''یہ تو بین الاقوامی جرم ہوگا۔'' جس پر انھوں نے جواب میں پھر کہا کہ ''امریکا کے 68 جنگی بحری بیڑے جو دنیا بھرکے سمندروں میں لنگر انداز ہیں اور وہ ہر ملک پر چڑھ دوڑتا ہے،کیا یہ جرم نہیں؟ '' میں اس بات پر ہنستا رہا مگر وہ بولے جا رہے تھے۔ خیر یہ تو رہی ہنسی مذاق کی بات۔
اب بات ہو نی چاہیے سنجیدگی کی۔ ساری سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، سینیٹ اور دیگر ادارے امریکی جارحا نہ بیان کی مذمت کرتے رہے مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ مطالبہ کرے کہ آئی ایم ایف، ورلڈبینک، کنسورشیم، اے ڈی پی، پی ایل 480 کے معاہدات کو منسوخ کر کے بحق سرکار تمام سرمائے کو ضبط کر لیا جائے اورایسے معاہدوں سے دست بردار ہوا جائے۔شاید اس لیے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ کہیں انھیں اقتدار میں آکر ایسا نہ کرنا پڑے۔ جن ملکوں نے ان معاہدات سے کنارہ کشی کی ہے وہ سرما یہ دارانہ چمک دمک اور اونچی عمارتوں اور بڑی گاڑیوں سے محروم تو ہوگئے ہیں لیکن قرض دار نہیں۔ وینیزویلا، بولیویا، کیوبا،کمبوڈیا، زمبابوے، سوشلسٹ کوریا اور منگولیہ وغیرہ۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاس اتنے وسائل ہیں اور نہ معدنیات۔ جب کہ پاکستان کے پاس تو سب کچھ ہے۔ سونا، چاندی، ہیرا، تیل،گیس،کوئلہ، جست، تانبا، سلفر، نمک،کرومائیٹ اور دیگر معدنیات سے ہماری زمین بھری پڑی ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا پھل ہے جو پاکستان میں پیدا نہیں ہوتا۔ خشک میوے سے ہمارے باغات لدے پڑے ہیں۔ اجناس میں گندم، دھان، تیل کے بیج، جو، مکئی، باجرہ وغیرہ کی بھرمار ہے۔ کراچی سے گوادر تک طویل سمندری ساحل ہے جہاں روزانہ لا کھوں ٹن مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں ۔گوشت، سبزیاں، چاول،کپاس، پھل، میوے ہم برآمد کرتے ہیں پھر بھی مقروض ہیں۔
گزشتہ برس ہمیں سب سے زیادہ تجارتی خسارہ چین سے ہوا ہے۔ لاکھوں ٹن جھینگے ہم امریکا کو برآمد کرتے ہیں۔ پھر بھی بھوکے ہیں۔ اس کی دو ہی بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک دفاعی بجٹ اور دوسرا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے۔ اگر ہم دفا عی بجٹ پچاس فیصد کم کر دیں اور سامراجی سرمایہ بحق سرکار ضبط کرلیں تو ہم نہ صرف خوشحال ہوں گے بلکہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس لیے موقع اچھا ہے کہ اس امریکی دھمکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں فورا سامراجی معاہدات سے علٰیحدگی اختیارکرلینا چاہیے۔ ہماری ساٹھ فیصد زمین بنجر پڑی ہیں جسے قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے ۔ ہمارے پاس زمین کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ کروڑوں درخت، پودے اور باغات لگائے جا سکتے ہیں۔ پانی کے اتنے ذخائر تعمیر کیے جاسکتے ہیں کہ پورے ملک کو ایک باغ بنایا جا سکتا ہے۔ جانوروں، پرندوں اورچرندوں سے ملک کو بھر دیا جا سکتا ہے اور ان سے ہماری غذائی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ صرف دریاؤں اور سمندروں کے ساحلوں کو اگر ہم درختوں سے بھر دیں تو سبزیوں اور پھلوں سے ملک کو نہ صرف بھرا جا سکتا ہے بلکہ تمام لوگوں کو مفت سبزیاں اور پھل فراہم کیا جا سکتا ہے۔
ژاں ژاک روسو نے درست کہا تھا کہ '' ابتدائی انسان نہایت نیک، بھولا بھالا اورمعصوم تھا۔ غرور، ہوس، نفرت اور عداوت، لڑائی فساد غرضیکہ معاشرے کی تمام برائیوں سے پاک وہ بڑی سادہ زندگی بسرکرتا تھا ۔ پیاس لگتی تو چشمے سے پانی پی لیتا، بھوک لگتی تو درختوں سے پھل کھا لیتا، نیند آتی تو کسی درخت کے سائے میں پاؤں پھیلا کر سوجاتا۔ نہ غم امروز، نہ فکر فردا، نہ کوئی کسی کا آقا اور نہ کوئی کسی کا محکوم لیکن فراغت اور مساوات کا یہ دور ذاتی ملکیت کے ہاتھوں برباد ہو گیا بالکل ایسا ہی سماج قائم ہونے کی ضرورت ہے جہاں کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔