جنگی مشقوں کے لیے دشمن ملک تخلیق کرلیا گیا
نقشہ، دارالحکومت اور پرچم کے علاوہ وکی پیڈیا پر صفحہ بھی موجود
فوجی مشقیں سبھی ممالک میں ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد افواج کی جنگی مہارت کی آزمائش اور عسکری صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔
بیلاروس میں بھی ماہ گزشتہ کے اواخر میں مسلح افواج نے جنگی مشقوں میں حصہ لیا۔ ان مشقوں کو Zapad 2017 کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مشقیں اس لحاظ سے منفرد تھیں کہ ان کے لیے ایک دشمن ملک باقاعدہ تخلیق کیا گیا تھا۔اس فرضی ملک کے پرچم سمیت وزارت خارجہ بھی تھی۔ اس کی فرضی تاریخ بھی مرتب کی گئی تھی اور یہ سب معلومات اس کا وکی پیڈیا پیج بناکر اس پر ڈال دی گئی تھیں۔ فرضی دشمن ملک کو ویشنوریا (Veyshnoria) کا نام دیا گیا تھا۔ جنگی مشقوں کے لیے باقاعدہ پس منظر بنایا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ویشنوریا نے بیلاروس اور روس کے درمیان تنازع پیدا کردیا تھا اور اب بیلاروس پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا۔ 29 اگست کو ہونے والی جنرل اسٹاف کے اجلاس میں خطے کا نقشہ پیش کیا گیا تھا۔
نقشے میں ویشنوریا بیلاروس کے شمال مغرب میں دکھایا گیا تھا۔ تصوراتی دشمن ملک کی وجہ سے یہ فوجی مشقیں بیلاروس کے عوام کے ساتھ ساتھ سرحد پار بھی توجہ حاصل کررہی ہیں اور عسکری ماہرین اس حوالے سے نت نئے پہلو تلاش کررہے ہیں۔
کچھ مبصرین کا کہناہے کہ بیلاروس اور ویشنوریا کی درمیانی سرحد 1920ء تا 1939ء کے درمیان روس اور پولینڈ کی سرحد سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ اس تناظر میں سیاسی تاریخ کے ماہر پاول یوسوف کہتے ہیں کہ ویشنوریا ایک امن پسند جمہوری ملک ہے جس نے کبھی اپنے ہمسایوں پر جارحیت نہیں کی۔ عین ممکن ہے کہ ماسکو نے بیلاروس پر مکمل تسلط قائم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تصادم کو ہوا دی ہو اور ویشنوریا کو ناٹو اور یورپ کا حصہ بننے سے روک دیا ہو۔ ان کا اشارہ در اصل یوکرین کی جانب تھا جو مغرب سے روابط استوار کرنا چاہتا تھا۔
فرضی دشمن ملک کے حوالے سے بیلاروس اور روس کے عوام سوشل میڈیا پر دل چسپی کا اظہار کررہے ہیں۔ ٹوئٹر پر مختلف پیش گوئیاں شروع کیے گئے ہیں جن میں دونوں جانب کے عوام اظہار خیال کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ روس اور بیلاروس کے باہمی تعلقات کچھ زیادہ خوش گوار نہیں۔ اسی لیے دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے کے لیے مثبت جذبات نہیں رکھتے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم روسی شہریوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ بیلاروس کا تصوراتی دشمن در اصل روس ہے اور وہ (بیلاروس) حقیقت میں تو ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اس لیے محض دل کی تسلی کے لیے تصوراتی دنیا میں انھیں نشانہ بناکر خوش ہورہا ہے۔
بیلاروس میں بھی ماہ گزشتہ کے اواخر میں مسلح افواج نے جنگی مشقوں میں حصہ لیا۔ ان مشقوں کو Zapad 2017 کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مشقیں اس لحاظ سے منفرد تھیں کہ ان کے لیے ایک دشمن ملک باقاعدہ تخلیق کیا گیا تھا۔اس فرضی ملک کے پرچم سمیت وزارت خارجہ بھی تھی۔ اس کی فرضی تاریخ بھی مرتب کی گئی تھی اور یہ سب معلومات اس کا وکی پیڈیا پیج بناکر اس پر ڈال دی گئی تھیں۔ فرضی دشمن ملک کو ویشنوریا (Veyshnoria) کا نام دیا گیا تھا۔ جنگی مشقوں کے لیے باقاعدہ پس منظر بنایا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ویشنوریا نے بیلاروس اور روس کے درمیان تنازع پیدا کردیا تھا اور اب بیلاروس پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا۔ 29 اگست کو ہونے والی جنرل اسٹاف کے اجلاس میں خطے کا نقشہ پیش کیا گیا تھا۔
نقشے میں ویشنوریا بیلاروس کے شمال مغرب میں دکھایا گیا تھا۔ تصوراتی دشمن ملک کی وجہ سے یہ فوجی مشقیں بیلاروس کے عوام کے ساتھ ساتھ سرحد پار بھی توجہ حاصل کررہی ہیں اور عسکری ماہرین اس حوالے سے نت نئے پہلو تلاش کررہے ہیں۔
کچھ مبصرین کا کہناہے کہ بیلاروس اور ویشنوریا کی درمیانی سرحد 1920ء تا 1939ء کے درمیان روس اور پولینڈ کی سرحد سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ اس تناظر میں سیاسی تاریخ کے ماہر پاول یوسوف کہتے ہیں کہ ویشنوریا ایک امن پسند جمہوری ملک ہے جس نے کبھی اپنے ہمسایوں پر جارحیت نہیں کی۔ عین ممکن ہے کہ ماسکو نے بیلاروس پر مکمل تسلط قائم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تصادم کو ہوا دی ہو اور ویشنوریا کو ناٹو اور یورپ کا حصہ بننے سے روک دیا ہو۔ ان کا اشارہ در اصل یوکرین کی جانب تھا جو مغرب سے روابط استوار کرنا چاہتا تھا۔
فرضی دشمن ملک کے حوالے سے بیلاروس اور روس کے عوام سوشل میڈیا پر دل چسپی کا اظہار کررہے ہیں۔ ٹوئٹر پر مختلف پیش گوئیاں شروع کیے گئے ہیں جن میں دونوں جانب کے عوام اظہار خیال کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ روس اور بیلاروس کے باہمی تعلقات کچھ زیادہ خوش گوار نہیں۔ اسی لیے دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے کے لیے مثبت جذبات نہیں رکھتے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم روسی شہریوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ بیلاروس کا تصوراتی دشمن در اصل روس ہے اور وہ (بیلاروس) حقیقت میں تو ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اس لیے محض دل کی تسلی کے لیے تصوراتی دنیا میں انھیں نشانہ بناکر خوش ہورہا ہے۔