’’ کسی پر کالاجادو نہیں کیا ‘‘
زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کا وضاحتی بیان
زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کا شمار دورحاضر کے معمرترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وہ اکثر و بیشتر عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنتے رہتے ہیں۔
ان کا شمار مغرب کے ناپسندیدہ حکمرانوں میں بھی ہوتا ہے۔ 93 سال کی عمر میں بھی اقتدار سے چمٹے رہنے اور مغربی طاقتوں کے منشا کے مطابق پالیسیاں نہ اپنانے کی وجہ سے وہ اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ زمبابوے میں سفید فام بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ تاہم حکومتی ایوانوں میں اکثریت سیاہ فاموں کی ہے۔ غالباً اسی لیے امریکا اور اس کے اتحادی موگابے اور ان کی حکومت کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔
زمبابوے میں آئندہ صدارتی انتخابات اگلے برس منعقد ہوں گے۔ 1980ء سے لے کر گذشتہ انتخابات تک موگابے کی سیاسی جماعت Zanu-PF ہی فتح حاصل کرتی رہی ہے۔ ہر بار انتخابات میں حکمران جماعت پر دھاندلی کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے علاوہ حزب مخالف کی جماعتیں بھی ملک میں موگابے کی حکمرانی کا خاتمہ چاہتی ہیں مگر پیرانہ سالی کے باوجود وہ مسند اقتدار پر اسی طرح براجمان ہیں۔ موگابے کی صحت کئی بار خراب ہوچکی ہے اور ان دنوں بھی وہ بیمار ہیں اس کے باوجود زمام اقتدار کسی اور کے حوالے کرنے کا خیال ان کے ذہن میں دور دور تک نہیں۔ نائب صدر ایمرسن ریم نانگوگواکو ان کا جانشین قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم خود رابرٹ موگابے نے اپنی کوئی جانشین نام زد نہیں کیا۔
ایمرسن موجودہ صدر کی جگہ لے پاتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیوں کہ وہ خود بھی 74 سال کے ہیں اور صحت بھی ڈانوڈول رہتی ہے۔ حال ہی میں ایمرسن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اور صحت بھی ڈانواڈول رہتی ہے۔ حال ہی میں ایمرسن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ انھیں قے آنے لگی اور پھر اسہال شروع ہوگئے ۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں علاج کے لیے پڑوسی ملک جنوبی افریقا لے جایا گیا۔ ایمرسن کی طبیعت ایک ریلی کے دوران خراب ہوئی تھی جس سے زمبابوے کے صدر خطاب کررہے تھے۔
جنوبی افریقا میں ڈاکٹروں نے کہاکہ ایمرسن کو زہر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کا معدہ اور جگر جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔ موگابے کی پارٹی کے کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ریلی کے دوران صدر کی جانب سے نائب صدر کو آئس کریم بھجوائی گئی تھی۔ زہر ممکنہ طور پر اسی میں تھا۔ کئی عہدے داروں کے یہ بیانات بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنے کہ مضبوط ترین متوقع جانشین سمجھے جانے کی وجہ سے صدر نے ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی۔
رابرٹ موگابے کے حریف سیاست دانوں نے اس حوالے سے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا کہ نائب صدر پر کالا جادو کیا گیا اور ایسا کرنے والے خود رابرٹ موگابے تھے۔ واضح رہے کہ دوسرے افریقی ممالک کی طرح زمبابوے میں بھی جادو ٹونا عام ہے۔ عوام اپنے مختلف کاموں کے سلسلے میں جادو گروں سے رابطہ کرتے ہیں جنھیں وہاں وچ ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کے جواب میں رابرٹ موگابے نے کہا ''کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں جادوگر ہوں اور ایمرسن کو میں نے کالا جادو کرکے قتل کرنے کی کوشش کی۔ ذرا یہ تو بتائیں کہ پہلے میں نے کتنوں کو جادو کے زور سے مارا؟ میں کوئی وچ ڈاکٹر نہیں ہوں اور نہ ہی ایمرسن کی بیماری سے میرا کوئی تعلق ہے۔''
ان کا شمار مغرب کے ناپسندیدہ حکمرانوں میں بھی ہوتا ہے۔ 93 سال کی عمر میں بھی اقتدار سے چمٹے رہنے اور مغربی طاقتوں کے منشا کے مطابق پالیسیاں نہ اپنانے کی وجہ سے وہ اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ زمبابوے میں سفید فام بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ تاہم حکومتی ایوانوں میں اکثریت سیاہ فاموں کی ہے۔ غالباً اسی لیے امریکا اور اس کے اتحادی موگابے اور ان کی حکومت کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔
زمبابوے میں آئندہ صدارتی انتخابات اگلے برس منعقد ہوں گے۔ 1980ء سے لے کر گذشتہ انتخابات تک موگابے کی سیاسی جماعت Zanu-PF ہی فتح حاصل کرتی رہی ہے۔ ہر بار انتخابات میں حکمران جماعت پر دھاندلی کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے علاوہ حزب مخالف کی جماعتیں بھی ملک میں موگابے کی حکمرانی کا خاتمہ چاہتی ہیں مگر پیرانہ سالی کے باوجود وہ مسند اقتدار پر اسی طرح براجمان ہیں۔ موگابے کی صحت کئی بار خراب ہوچکی ہے اور ان دنوں بھی وہ بیمار ہیں اس کے باوجود زمام اقتدار کسی اور کے حوالے کرنے کا خیال ان کے ذہن میں دور دور تک نہیں۔ نائب صدر ایمرسن ریم نانگوگواکو ان کا جانشین قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم خود رابرٹ موگابے نے اپنی کوئی جانشین نام زد نہیں کیا۔
ایمرسن موجودہ صدر کی جگہ لے پاتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیوں کہ وہ خود بھی 74 سال کے ہیں اور صحت بھی ڈانوڈول رہتی ہے۔ حال ہی میں ایمرسن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اور صحت بھی ڈانواڈول رہتی ہے۔ حال ہی میں ایمرسن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ انھیں قے آنے لگی اور پھر اسہال شروع ہوگئے ۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں علاج کے لیے پڑوسی ملک جنوبی افریقا لے جایا گیا۔ ایمرسن کی طبیعت ایک ریلی کے دوران خراب ہوئی تھی جس سے زمبابوے کے صدر خطاب کررہے تھے۔
جنوبی افریقا میں ڈاکٹروں نے کہاکہ ایمرسن کو زہر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کا معدہ اور جگر جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔ موگابے کی پارٹی کے کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ریلی کے دوران صدر کی جانب سے نائب صدر کو آئس کریم بھجوائی گئی تھی۔ زہر ممکنہ طور پر اسی میں تھا۔ کئی عہدے داروں کے یہ بیانات بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنے کہ مضبوط ترین متوقع جانشین سمجھے جانے کی وجہ سے صدر نے ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی۔
رابرٹ موگابے کے حریف سیاست دانوں نے اس حوالے سے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا کہ نائب صدر پر کالا جادو کیا گیا اور ایسا کرنے والے خود رابرٹ موگابے تھے۔ واضح رہے کہ دوسرے افریقی ممالک کی طرح زمبابوے میں بھی جادو ٹونا عام ہے۔ عوام اپنے مختلف کاموں کے سلسلے میں جادو گروں سے رابطہ کرتے ہیں جنھیں وہاں وچ ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کے جواب میں رابرٹ موگابے نے کہا ''کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں جادوگر ہوں اور ایمرسن کو میں نے کالا جادو کرکے قتل کرنے کی کوشش کی۔ ذرا یہ تو بتائیں کہ پہلے میں نے کتنوں کو جادو کے زور سے مارا؟ میں کوئی وچ ڈاکٹر نہیں ہوں اور نہ ہی ایمرسن کی بیماری سے میرا کوئی تعلق ہے۔''