سوشل میڈیا کی اہمیت
آج کے نوجوان ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کل کے بہترین پاکستان کی تعمیر کرینگے ۔
ہردور کے اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں ماضی میں لوگ انٹرٹینمنٹ اور حالات سے آگاہ ہونے کے لیے ریڈیو کا سہارا لیا کرتے تھے پھر دور بدلا اور ٹی وی میڈیا متعارف ہوا جس نے ان دونوں لوازمات کے متعلق اپنے دیکھنے والوں کو لطف اندوز اورآگاہ کیا اب چونکہ یہ میڈیا مزید ترقی سے ہمکنار ہوتا جا رہا ہے اور آزاد بھی ہوچکا ہے تو عوام کی نگاہ میں مزید اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ۔ پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قسم کا میڈیا ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کمربستہ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں وطن عزیز میں میڈیا نے اپنے پنجے بڑی دل جمعی کے ساتھ گاڑے ہوئے ہیں۔
میڈیا میںآئے دن نئے نئے اخبارات اور رسائل کے ساتھ ساتھ مختلف نیوز چینلز نے بھی ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی ٹھان رکھی ہے اگرچہ پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات کے پیش نظر میڈیا تو دن بدن اونچی اُڑان اُڑ رہا ہے مگر جب بات آتی ہے سوشل میڈیا کی جانب توعجب دنیا کی غضب کہانیاں سامنے آتی ہیں Facebookاور Twitterجیسی سوشل ویب سائٹس نے انٹرنیٹ کی دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے یہ سائٹس اگرتفریح کا بہترین ذریعہ ہیں تو بہت سی معلومات حاصل کرنے کی رسائی کا مرکز بھی،ان پر اگر دلچسپی کی چاشنی ملتی ہے تو حبس زدہ ماحول کی عکاسی بھی ہوتی ہے کبھی FBاور Twitterلڑکیوں کی Display Picture کے حوالے سے موضوع بحث بنتے ہیں کبھی مذہبی حوالوںسے پابندیوں کی زد میں آتے ہیں مگر ایک بات تو طے ہے موضوع بحث بننے کی نوعیت جو بھی ہو اِن سائٹس کی مقبولیت میںلمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے، نوجوان نسل کے ذہن و دل پر یہ جنون کی حد تک حاوی ہوگئی ہیں۔ اس کریز کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے چاہے پورے دن تھکن سے بُرا حال ہو مگر جب تک سوشل ویب سائٹس کو Use نہیں کر لیتے نیند ہے کہ آنکھوں میں نہیں آتی۔
یہ آج کل کی نسل کی بڑی گہری ذمے داری بن گئی ہے کہ جب تک Status اپ لوڈ نہیں کرلیتے سکون سے نہیں بیٹھتے لہذا آج کا نوجوان اپنے اس فرض سے ذرا کوتاہی نہیں برتا ۔موجودہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر بعض والدین اپنے ٹین ایج بچوں کو بہ خوشی انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیںکہ اس طرح ہمارا بچہ کم از کم ہماری آنکھوں کے سامنے تو رہے گا سوشل ویب سائٹس نہ صرف دوستوں سے بات چیت کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں بلکہ جس طرح میں نے اوپر تحریر کیا ان سائٹس کے ذریعے سے ہمیں ڈھیروں معلومات مل جاتی ہیں ڈراموں، فلموں، گانوں سے لے کر Current affairs تک کی معلومات سے چند لمحوں میںUser آسانی سے Update ہوجاتا ہے کیونکہ تقریباً ہر اداکار، گلوکار، Entertainment channels سے لے کر ہر اخبار، صحافی اورپولیٹیکل اینکرز کا Account ان سائٹس پر موجود ہے، دیگر پروفیشنلز کی طرح صحافی اورپولیٹیکل اینکرز بھی اپنی Profiles یا Pages پر اپنے پروگرامز کے متعلق اپنے Fans سے Feed back حاصل کرتے رہتے ہیں یاکسی بھی اہم Issue کے حوالے سے Status یا پول سروے کرکے اُن کی رائے معلوم کرلیا کرتے ہیں گو کہ اِن حضرات کو بعض اوقات اپنے چند فینز کی بدولت ذہنی دبائو کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے کیونکہ اگر کوئی اینکر یا صحافی اپنے کسی فین کی پسندیدہ شخصیت کے حوالے سے ذرا سی بھی غلط بات (جو کہ صحیح ہوتی ہے) یا حقائق کو سامنے لانے کی غرض سے کہہ دے پھر اِن ہی سوشل ویب سائٹس پر ان حضرات کی وہ مدارات ہوتی ہیں کہ مجھ ناچیز کے پاس الفاظ نہیں۔ ان صاحبان کی Profiles اور Pages پر Users ایسے ایسے Comments کرتے ہیں جو جب کبھی ناچیز کی نگاہ سے گزرتے ہیں تو عجب لگتے ہیں یقینا اسی لیے میں نے اکثر صحافی اورپولیٹیکل اینکرز کو Shows میں یہ کہتے سنا ہے کہ ''بھائی اپنی محبتوں کے اظہار کو ذرا Decent بنالیجیے کیونکہ جس قسم کی محبت کا اظہار آپ ہمارے Accounts پر آکرکرتے ہیں ہم گھنٹوں نہ صرف اپنے گھر والوں سے بلکہ خود سے بھی نظر ملاتے ہوئے شرماتے ہیں مگر جناب سوشل ویب سائٹس Users بھی الہڑ عمر کی دوشیزہ کی طرح 'میں نہ مانوں ' کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں چونکہ پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اینکرز اور صحافی حضرات اگر اس قسم کی صورتحال کا مقابلہ کرتے ہیں تو یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ان ہی سائٹس کی بدولت ان صاحبان کو واقعتا عزت و محبت بھی ملتی ہے بدقسمتی سے میرے وطن میں صرف بُرائیوں کو بیان کرنے کا رواج ہے لہذا یہ تمام حضرات بھی اس رواج کی تقلید کرتے ہی نظر آتے ہیں ان سائٹس کی اور Users کی برائیاں اُن سے شکوے و شکایات کرنے کے لیے ان پروفیشنلز کے پاس الفاظ کا سمندر جب کہ ...!
اس خاموشی کی زبان سمجھنا مشکل تو نہیں بس ذرا سمجھنے کے لیے اہل دل ہونا لازمی ہے !عرض کرنا چاہونگی کہ ان سوشل سائٹس پر نوجوان صرف تفریح ہی نہیں کرتے بلکہ کچھ مثبت کام بھی سرانجام دیتے ہیں، حالیہ 20برس کے نوجوان شاہ زیب خان کے بھیانک قتل کی طرف ان Users نے ہی توجہ مرکوز کروائی ۔ اچانک قتل کے فوری بعد مقتول کے نام سے Page بنا اور اُس پر Youth نے انصاف کے حصول کے لیے جو پُرسکون آواز بلند کی وہ قابل تعریف ہے ان ہی نوجوانوں نے چیف جسٹس اور صحافیوں کی توجہ اس جانب مرکوز کروائی اس میں کوئی شک نہیں کہ اینکرز اور صحافیوں نے ان نوجوانوں کے ساتھ مل کرچیف جسٹس کے سامنے اصل حقائق کو رکھا اور انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اپنا اہم کردار ادا کیا اورکر رہے ہیں جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
میں بنا کسی عار کے ساتھ یہ کہنا چاہونگی آج آزاد میڈیا کی بدولت ہی وطن عزیز کے جوانوں میں اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کی صلاحیت پیداہوئی ہے آج سے 10 یا 15سال قبل کسی فرد میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ملک کے سیاسی وڈیروں کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کرلے مگر آج آزاد میڈیا کی وساطت سے میرے وطن کے معمار اس غریب ملک کے سرمایہ دار سیاست دانوں و حکمرانوں سے اپنے حق کے حصول کے لیے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک کی بقا کا سوال ہو یا شاہ زیب کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کا معاملہ ، کامران فیصل کی نہ سمجھ میں آنے والی خود کشی ہو یا ایک مخصوص فرقہ کی ٹارگٹ کلنگ، توہین عدالت کیس ہو یا ایک کے بعد دوسرے وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں پیشی، کرپشن،مہنگائی، بجلی، گیس، CNG کی بندش ان تمام ایشوز کو ریگولر اور سوشل میڈیا احسن طریقے سے فوکس کر رہا ہے اور عوام کے سامنے لا رہا ہے مگر میں اس کے ساتھ اپنے نوجوان دوستوں سے عرض کرنا چاہونگی کہ جناب اس میں کوئی شک نہیں کہ آپکا یہ عمل قابل تعریف ہے مگرمعذرت کے ساتھ اتنی گزارش ہے کہ کیا ہی اچھا ہوجائے کہ آپ حضرات ان سائٹس پر Comments یا Twit کرتے ہوئے الفاظ کا چنائو بہترین بنا لیں۔ اپنی تحریر کو اختتامی مرحلے میں ڈالتے ہوئے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں اپنے وطن کے آنے والے کل سے بہت مطمئن ہوں کیونکہ جس طرح شاہ زیب قتل کیس میںقوم کے سپوت سامنے آئے ہیں یہ مستقبل کے پاکستان کی بہترین علامت ہے اس صورتحال کے پیش نظرمیں بڑی ذمے داری سے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ ملک میں مثبت تبدیلی کی لہر Facebook اور Twitter کیGeneration ہی لائیگی کیونکہ اب میڈیا بھی سوشل میڈیا کے بنا اُدھورا ہے اگر کسی کو اس بات پر اعتراض ہے تو وہ خود سوشل میڈیا پر میڈیا پرسنز کے Pages اور Profiles دیکھ سکتا ہے جہاں صحافی اور اینکرزYouth کی رائے لیتے نظر آتے ہیں۔ انشاء اللہ آج کے نوجوان ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کل کے بہترین پاکستان کی تعمیر کرینگے ۔
میڈیا میںآئے دن نئے نئے اخبارات اور رسائل کے ساتھ ساتھ مختلف نیوز چینلز نے بھی ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی ٹھان رکھی ہے اگرچہ پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات کے پیش نظر میڈیا تو دن بدن اونچی اُڑان اُڑ رہا ہے مگر جب بات آتی ہے سوشل میڈیا کی جانب توعجب دنیا کی غضب کہانیاں سامنے آتی ہیں Facebookاور Twitterجیسی سوشل ویب سائٹس نے انٹرنیٹ کی دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے یہ سائٹس اگرتفریح کا بہترین ذریعہ ہیں تو بہت سی معلومات حاصل کرنے کی رسائی کا مرکز بھی،ان پر اگر دلچسپی کی چاشنی ملتی ہے تو حبس زدہ ماحول کی عکاسی بھی ہوتی ہے کبھی FBاور Twitterلڑکیوں کی Display Picture کے حوالے سے موضوع بحث بنتے ہیں کبھی مذہبی حوالوںسے پابندیوں کی زد میں آتے ہیں مگر ایک بات تو طے ہے موضوع بحث بننے کی نوعیت جو بھی ہو اِن سائٹس کی مقبولیت میںلمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے، نوجوان نسل کے ذہن و دل پر یہ جنون کی حد تک حاوی ہوگئی ہیں۔ اس کریز کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے چاہے پورے دن تھکن سے بُرا حال ہو مگر جب تک سوشل ویب سائٹس کو Use نہیں کر لیتے نیند ہے کہ آنکھوں میں نہیں آتی۔
یہ آج کل کی نسل کی بڑی گہری ذمے داری بن گئی ہے کہ جب تک Status اپ لوڈ نہیں کرلیتے سکون سے نہیں بیٹھتے لہذا آج کا نوجوان اپنے اس فرض سے ذرا کوتاہی نہیں برتا ۔موجودہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر بعض والدین اپنے ٹین ایج بچوں کو بہ خوشی انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیںکہ اس طرح ہمارا بچہ کم از کم ہماری آنکھوں کے سامنے تو رہے گا سوشل ویب سائٹس نہ صرف دوستوں سے بات چیت کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں بلکہ جس طرح میں نے اوپر تحریر کیا ان سائٹس کے ذریعے سے ہمیں ڈھیروں معلومات مل جاتی ہیں ڈراموں، فلموں، گانوں سے لے کر Current affairs تک کی معلومات سے چند لمحوں میںUser آسانی سے Update ہوجاتا ہے کیونکہ تقریباً ہر اداکار، گلوکار، Entertainment channels سے لے کر ہر اخبار، صحافی اورپولیٹیکل اینکرز کا Account ان سائٹس پر موجود ہے، دیگر پروفیشنلز کی طرح صحافی اورپولیٹیکل اینکرز بھی اپنی Profiles یا Pages پر اپنے پروگرامز کے متعلق اپنے Fans سے Feed back حاصل کرتے رہتے ہیں یاکسی بھی اہم Issue کے حوالے سے Status یا پول سروے کرکے اُن کی رائے معلوم کرلیا کرتے ہیں گو کہ اِن حضرات کو بعض اوقات اپنے چند فینز کی بدولت ذہنی دبائو کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے کیونکہ اگر کوئی اینکر یا صحافی اپنے کسی فین کی پسندیدہ شخصیت کے حوالے سے ذرا سی بھی غلط بات (جو کہ صحیح ہوتی ہے) یا حقائق کو سامنے لانے کی غرض سے کہہ دے پھر اِن ہی سوشل ویب سائٹس پر ان حضرات کی وہ مدارات ہوتی ہیں کہ مجھ ناچیز کے پاس الفاظ نہیں۔ ان صاحبان کی Profiles اور Pages پر Users ایسے ایسے Comments کرتے ہیں جو جب کبھی ناچیز کی نگاہ سے گزرتے ہیں تو عجب لگتے ہیں یقینا اسی لیے میں نے اکثر صحافی اورپولیٹیکل اینکرز کو Shows میں یہ کہتے سنا ہے کہ ''بھائی اپنی محبتوں کے اظہار کو ذرا Decent بنالیجیے کیونکہ جس قسم کی محبت کا اظہار آپ ہمارے Accounts پر آکرکرتے ہیں ہم گھنٹوں نہ صرف اپنے گھر والوں سے بلکہ خود سے بھی نظر ملاتے ہوئے شرماتے ہیں مگر جناب سوشل ویب سائٹس Users بھی الہڑ عمر کی دوشیزہ کی طرح 'میں نہ مانوں ' کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں چونکہ پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اینکرز اور صحافی حضرات اگر اس قسم کی صورتحال کا مقابلہ کرتے ہیں تو یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ ان ہی سائٹس کی بدولت ان صاحبان کو واقعتا عزت و محبت بھی ملتی ہے بدقسمتی سے میرے وطن میں صرف بُرائیوں کو بیان کرنے کا رواج ہے لہذا یہ تمام حضرات بھی اس رواج کی تقلید کرتے ہی نظر آتے ہیں ان سائٹس کی اور Users کی برائیاں اُن سے شکوے و شکایات کرنے کے لیے ان پروفیشنلز کے پاس الفاظ کا سمندر جب کہ ...!
اس خاموشی کی زبان سمجھنا مشکل تو نہیں بس ذرا سمجھنے کے لیے اہل دل ہونا لازمی ہے !عرض کرنا چاہونگی کہ ان سوشل سائٹس پر نوجوان صرف تفریح ہی نہیں کرتے بلکہ کچھ مثبت کام بھی سرانجام دیتے ہیں، حالیہ 20برس کے نوجوان شاہ زیب خان کے بھیانک قتل کی طرف ان Users نے ہی توجہ مرکوز کروائی ۔ اچانک قتل کے فوری بعد مقتول کے نام سے Page بنا اور اُس پر Youth نے انصاف کے حصول کے لیے جو پُرسکون آواز بلند کی وہ قابل تعریف ہے ان ہی نوجوانوں نے چیف جسٹس اور صحافیوں کی توجہ اس جانب مرکوز کروائی اس میں کوئی شک نہیں کہ اینکرز اور صحافیوں نے ان نوجوانوں کے ساتھ مل کرچیف جسٹس کے سامنے اصل حقائق کو رکھا اور انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اپنا اہم کردار ادا کیا اورکر رہے ہیں جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
میں بنا کسی عار کے ساتھ یہ کہنا چاہونگی آج آزاد میڈیا کی بدولت ہی وطن عزیز کے جوانوں میں اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کی صلاحیت پیداہوئی ہے آج سے 10 یا 15سال قبل کسی فرد میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ملک کے سیاسی وڈیروں کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کرلے مگر آج آزاد میڈیا کی وساطت سے میرے وطن کے معمار اس غریب ملک کے سرمایہ دار سیاست دانوں و حکمرانوں سے اپنے حق کے حصول کے لیے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک کی بقا کا سوال ہو یا شاہ زیب کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کا معاملہ ، کامران فیصل کی نہ سمجھ میں آنے والی خود کشی ہو یا ایک مخصوص فرقہ کی ٹارگٹ کلنگ، توہین عدالت کیس ہو یا ایک کے بعد دوسرے وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں پیشی، کرپشن،مہنگائی، بجلی، گیس، CNG کی بندش ان تمام ایشوز کو ریگولر اور سوشل میڈیا احسن طریقے سے فوکس کر رہا ہے اور عوام کے سامنے لا رہا ہے مگر میں اس کے ساتھ اپنے نوجوان دوستوں سے عرض کرنا چاہونگی کہ جناب اس میں کوئی شک نہیں کہ آپکا یہ عمل قابل تعریف ہے مگرمعذرت کے ساتھ اتنی گزارش ہے کہ کیا ہی اچھا ہوجائے کہ آپ حضرات ان سائٹس پر Comments یا Twit کرتے ہوئے الفاظ کا چنائو بہترین بنا لیں۔ اپنی تحریر کو اختتامی مرحلے میں ڈالتے ہوئے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں اپنے وطن کے آنے والے کل سے بہت مطمئن ہوں کیونکہ جس طرح شاہ زیب قتل کیس میںقوم کے سپوت سامنے آئے ہیں یہ مستقبل کے پاکستان کی بہترین علامت ہے اس صورتحال کے پیش نظرمیں بڑی ذمے داری سے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ ملک میں مثبت تبدیلی کی لہر Facebook اور Twitter کیGeneration ہی لائیگی کیونکہ اب میڈیا بھی سوشل میڈیا کے بنا اُدھورا ہے اگر کسی کو اس بات پر اعتراض ہے تو وہ خود سوشل میڈیا پر میڈیا پرسنز کے Pages اور Profiles دیکھ سکتا ہے جہاں صحافی اور اینکرزYouth کی رائے لیتے نظر آتے ہیں۔ انشاء اللہ آج کے نوجوان ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کل کے بہترین پاکستان کی تعمیر کرینگے ۔