کچھ تم بھی ذمہ دار ہو
ہم دنیا کو بدلنے سنوارنے کے دعوے دار ہیں مگر خود کو بدلنے سے بیزار ہیں۔
''نااہلی، مجرمانہ غفلت، بے حسی، کرپشن اور ہوسِ زر سے اِن کا خمیر گندھا ہوا ہے۔'' سیاستدان اور اُن سے منسلک اشرافیہ کے بارے میں یہ ایک مقبول بیانہ ہے۔ تنقید کی ساری توپوں کا رُخ ان ہی کی جانب ہوتا ہے۔
ملک برباد کردیا، کھا گئے، ان سب کو بیچ چوراہے پر پھانسی دے دینی چاہیے، ایسی آوازیں بھی کانوں میں پڑتی رہتی ہیں۔ مگر یہ پورا سچ ہر گز نہیں۔ ہم ادھوری صداقتوں کے بیانیوں پر پرورش کئے گئے ہیں۔ ہمیں اپنے مطلب کا سچ ہی بتایا جاتا ہے اور ہم بھی صرف اپنا اپنا سچ سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔
لیکن پوری سچائی یہ ہے کہ اس زوال کے کچھ نہ کچھ ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ اس قلتِ عزت و سکوں میں، اس ارزانئ جان و مال میں حصہ ہمارا بھی تو ہے۔ دین کو تو چھوڑیئے کہ وہ بہت سے ''روشن خیالوں'' کے نزدیک ''مانع ترقی'' ہے؛ اور صرف اس دنیا ہی کی بات کرلیجیے جو ہمیں بہت محبوب ہے اور جسے ہم نے بڑی ''محنت'' سے بگاڑا ہے۔ دنیاوی کامیابی اور مادی عزتوں کے فی زمانہ جو پیمانے ہیں، ہم ان سے کس قدر بہرہ مند ہیں؟
علم، تحقیق، تہذیبِ نفس، اصول پرستی، نظم و ضبط، باہمی اتحاد، صداقت، امانت، دیانت... اور بہت کچھ جو دنیاوی ترقی کی اساس ہیں، کیا ہم میں کماحقہ موجود ہیں؟ ہم، بقول علامہ اقبالؒ، ''ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں'' کی بہترین عملی مثال بن چکے ہیں۔
کوئی آئے گا اور ہمارے سب مسئلے چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں گے۔ ایسا ہونے کا امکان شاید کروڑوں میں ایک ہو۔ مگر ہم اسی پر شاداں ہیں۔ ہم دنیا کو بدلنے سنوارنے کے دعوے دار ہیں مگر خود کو بدلنے سے بیزار ہیں۔
چینی حکمت و دانش کا امام و مفکر کنفیوشس کیا کہتا ہے، ذرا دیکھیے: ''جب کوئی دنیا کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے ملک کی اصلاح کرے، جب ملک کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے شہر کی اصلاح کرے، جب شہر کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے علاقے کی اصلاح کرے، جب علاقے کی اصلاح کا ارادہ کرے تو پہلے اپنے گھر کی اور اگر گھر کی اصلاح کا ارادہ کرے تو پہلے اپنی ذات کی اصلاح کرے۔'' یعنی سب سے پہلے فرد کی اصلاح ضروری ہے۔ مگر ہم اس کے لئے تیار ہی نہیں۔ اس مسئلے یعنی اس بگاڑ کا حل فرد کی ذاتی اصلاح سے شروع ہوکر پورے معاشرے تک جانے میں مضمر ہے۔
کہیے! کیا آپ اپنی اصلاح کے لئے تیار ہیں؟
میرا تو فی الحال اس بھاری پتھر کو اٹھانے کا ارادہ نہیں۔ ہاں! دیکھیں گے پھر بعد میں کبھی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ملک برباد کردیا، کھا گئے، ان سب کو بیچ چوراہے پر پھانسی دے دینی چاہیے، ایسی آوازیں بھی کانوں میں پڑتی رہتی ہیں۔ مگر یہ پورا سچ ہر گز نہیں۔ ہم ادھوری صداقتوں کے بیانیوں پر پرورش کئے گئے ہیں۔ ہمیں اپنے مطلب کا سچ ہی بتایا جاتا ہے اور ہم بھی صرف اپنا اپنا سچ سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔
لیکن پوری سچائی یہ ہے کہ اس زوال کے کچھ نہ کچھ ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ اس قلتِ عزت و سکوں میں، اس ارزانئ جان و مال میں حصہ ہمارا بھی تو ہے۔ دین کو تو چھوڑیئے کہ وہ بہت سے ''روشن خیالوں'' کے نزدیک ''مانع ترقی'' ہے؛ اور صرف اس دنیا ہی کی بات کرلیجیے جو ہمیں بہت محبوب ہے اور جسے ہم نے بڑی ''محنت'' سے بگاڑا ہے۔ دنیاوی کامیابی اور مادی عزتوں کے فی زمانہ جو پیمانے ہیں، ہم ان سے کس قدر بہرہ مند ہیں؟
علم، تحقیق، تہذیبِ نفس، اصول پرستی، نظم و ضبط، باہمی اتحاد، صداقت، امانت، دیانت... اور بہت کچھ جو دنیاوی ترقی کی اساس ہیں، کیا ہم میں کماحقہ موجود ہیں؟ ہم، بقول علامہ اقبالؒ، ''ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں'' کی بہترین عملی مثال بن چکے ہیں۔
کوئی آئے گا اور ہمارے سب مسئلے چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں گے۔ ایسا ہونے کا امکان شاید کروڑوں میں ایک ہو۔ مگر ہم اسی پر شاداں ہیں۔ ہم دنیا کو بدلنے سنوارنے کے دعوے دار ہیں مگر خود کو بدلنے سے بیزار ہیں۔
چینی حکمت و دانش کا امام و مفکر کنفیوشس کیا کہتا ہے، ذرا دیکھیے: ''جب کوئی دنیا کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے ملک کی اصلاح کرے، جب ملک کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے شہر کی اصلاح کرے، جب شہر کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے علاقے کی اصلاح کرے، جب علاقے کی اصلاح کا ارادہ کرے تو پہلے اپنے گھر کی اور اگر گھر کی اصلاح کا ارادہ کرے تو پہلے اپنی ذات کی اصلاح کرے۔'' یعنی سب سے پہلے فرد کی اصلاح ضروری ہے۔ مگر ہم اس کے لئے تیار ہی نہیں۔ اس مسئلے یعنی اس بگاڑ کا حل فرد کی ذاتی اصلاح سے شروع ہوکر پورے معاشرے تک جانے میں مضمر ہے۔
کہیے! کیا آپ اپنی اصلاح کے لئے تیار ہیں؟
میرا تو فی الحال اس بھاری پتھر کو اٹھانے کا ارادہ نہیں۔ ہاں! دیکھیں گے پھر بعد میں کبھی۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔