بند دروازہ

اب آپ اِس حمام میں ہیں جہاں سب ہی برہنہ ہیں۔

وہ اپنے ہاتھ سے اپنی پتلون کی جیب کی طرف اشارہ کرے گا، آپ اِس میں ایک بڑا نوٹ ڈالیں گے۔ پھر دوسرا اور شاید تیسرا بھی۔ فوٹو:فائل

حاجی انور صاحب نے میرا سوال سننے کے بعد میری طرف یوں دیکھا جیسے مجھ سے بہت بڑی حماقت سرزد ہوگئی ہے۔ بھئی میرا سوال یہ تو صرف یہ تھا کہ آخر پاکستان میں، جہاں اب تک بیشتر گھروں میں نہ تو سوئی گیس ہے اور نہ ہی بجلی، اِس کے باوجود ایک طبقہ ایسا ہے جس کے اثاثہ جات اور طاقت میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی ہی جارہی ہے۔ بھلے بیرون ممالک اِن کے کاروبار ہیں مگر یہاں رہ کر وہ کس طرح ان مسائل کا سامنا کرتے ہیں جن میں بائیس کروڑ عوام بھی زندگی گھسیٹ رہی ہے۔

حاجی صاحب نے کہا: اوئے بھولو نیک نیتی اور محنت ایک سطح تک ساتھ دیتی اور رہتی ہے مگر اِس کے بعد سب کچھ حماموں میں ہوتا اور ملتا ہے، اور یہ حمام ہی وہ نظام بن چکے ہیں جنہیں جاری رکھنا ہر حکمران، سیاست دان اور صنعت کار کی مجبوری ہے۔ ارتقاء کا عمل قدرتی ہے؛ آج کا پرچون فروش اگر محنت کرے گا تو ہول سیلر بنے گا، مگر جیسے ہی وہ پروڈکشن کی طرف جائے گا تو بہت سے ادارے سینہ تان کر آن کھڑے ہوں گے۔

وہ اپنی فائلز اٹھا کر جس بھی محکمہ کی طرف جائے گا تو سب سے پہلے سامنا دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے چاق و چوبند آدمی سے ہوگا۔ اِس آدمی کی آنکھیں بظاہر دکھائی نہیں دیتیں مگر جب اِس کے کانوں میں کسی بااثر بندے کی آواز سنائی دے یا آپ اُس کے سرد ہاتھ کو نوٹوں سے حرارت دے دیں تو اُس کا ہاتھ خود کار نظام کے تحت ہینڈل گھمائے گا اور یوں وہ دروازہ آپ کے لئے کھل جائے گا۔ اب آپ جس کمرے میں داخل ہوں گے، وہاں ایک میز اور کرسی کی پشت والی دیوار پر بانی ِپاکستان کی تصویر دکھائی دے گی جب کہ وہاں کہیں نیچے خوبصورت رنگوں میں ایک جملہ لکھا ہوگا:

Say No To Corruption

کرسی پر جو وجود دکھائی دے گا، وہ آپ کا مسئلہ سنے گا اور ایک دم سے بے جان ہوکر کرسی پر جھول جائے گا جیسے اِس کے جسم سے ساری آکسیجن آپ نے کھینچ لی ہے۔ آپ کسی بااثر شخصیت کا تعارفی رقعہ اِس کی آنکھوں کے سامنے لہرائیں گے اگر کاغذ پر لکھا ہوا عہدہ اعلیٰ ہوگا تو آنکھوں کی پتلیوں میں ہلکی سی زندگی کی جنبش ہوگی مگر جسم ساکت ہی رہے گا۔ وہ اپنے ہاتھ سے اپنی پتلون کی جیب کی طرف اشارہ کرے گا، آپ اِس میں ایک بڑا نوٹ ڈالیں گے۔ پھر دوسرا اور شاید تیسرا بھی، جیسے جیسے نوٹ بڑھتے جائیں گے اُس کے وجود میں توانائی آتی جائے گی۔


وہ ایک دیوار کے پاس جانے کا اشارہ کرے گا، جیسے ہی آپ وہاں پہنچیں گے پیچھے سے آواز آئے گی کُھل جا سم سم۔ ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ وہاں پر ایک کُھلا ہوا دروازہ نمودار ہوگا اور آپ اپنی فائلز اٹھائے اندر داخل ہوں گے۔ یہ کمرہ پچھلے کمرے کی نسبت قدرے کُھلا اور روشن ہوگا، جب کہ مرکزی کرسی کے پیچھے وہی تصویر اور وہی جملہ... اِس کمرے میں بہت سے بند دروازے ہوں گے۔

یہاں بھی ایک وجود مرکزی کرسی سنبھالے بیٹھا بےترتیب سی سانسیں لے رہا ہوگا۔ آپ وہی عمل دہرائیں گے تاکہ اِس وجود میں جان آئے اور وہ آپ کا مسئلہ سننے کے قابل ہو۔ حل تو ابھی بہت بعد کی بات ہے۔ وہ آپ کو بہت سے دروازوں میں ایک دروازے کی طرف جانے کا اشارہ کرے گا۔

جیسے ہی آپ اُس پر لگے ہینڈل کو گھمائیں گے وہ دروازہ کُھل جائے گا۔ آپ جس کمرے میں داخل ہوں گے وہ دوسرے والے سے زیادہ روشن اور فل ایئرکنڈیشنڈ ہوگا۔ یہاں بھی دیوار پر وہی تصویر اور وہی جملہ... گھومنے والی کرسی پر جو وجود بیٹھا ہوگا اس کے تن پر لباس نام کی کوئی شے نہیں ہوگی اُس کے سامنے بہت سی فائلز کچھ ترتیب سے ہوں گی اور کچھ بے ترتیب۔

وہ سر اٹھا کر دیکھے گا اور ہاتھ سے فائل لے کر سب سے نیچے رکھ دے گا اب اُس کی نظریں آپ کے تن پر بچ جانے والے چیتھڑوں پر ہوں گی۔ آپ انہیں اتار کر میز کے نیچے پڑی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے اور صاحب بہادر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جائے گی اور وہ فائل کو نیچے سے نکال کر قدرے اوپر رکھ دے گا۔ صاحب بہادر کے چہرے پر خوشی اور کام کرنے کی لگن دکھائی دے گی وہ بیچ میں سے فائل نکال کر دستخط کر کے ترقی اور کامیابیوں کے سارے دروازے کھول دے گا کیونکہ اب آپ اِس حمام میں ہیں جہاں سب ہی برہنہ ہیں۔

اتنا کہنے کے بعد حاجی انور صاحب فائلز اٹھا کر کسی حمام کی طرف روانہ ہوگئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story