برکس اعلامیہ اور پاکستان

یہ بات پاکستان کی سمجھ میں خاصا وقت ہوگیا آچکی ہے کہ اب وہ محض ایک عالمی طاقت پر انحصار نہیں کرسکتا۔

anisbaqar@hotmail.com

امریکا ایک ایسا دوست ملک ہے جو برابری کی بنیاد پر دوستی کا قائل نہیں۔ کیونکہ اس کی بنیاد میں سامراجی خو بو شامل ہے جو بظاہر مذہبی اقدار کو لیے ہوئے ہے، مگر مساوی حقوق کا آئینہ دار نہیں۔ آپ کو اگر یاد ہو تو روس جو سوویت یونین تھا وہ کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسترو کو ایک عظیم رہنما سمجھتا تھا۔ کیونکہ دنیا کے کئی ملکوں میں اس نے انقلاب کی نوید دی، جب کہ امریکا کا انداز سامراجی رہا ہے اور وہ چھوٹے ملکوں پر اپنی عملداری قائم کرنے کا عادی ہے۔

جب افغانستان میں نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں انقلاب ثور یعنی سرخ انقلاب برپا ہوا تو امریکا زبردست پریشانی سے دوچار ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے اس پر کسی ملک نے زمینی حملہ کردیا۔ دنیا بھر کے اتحادیوں کو امریکا نے اپنا ہم خیال بنانے میں زبردست کوششیں شروع کردیں اور افغان انقلاب کو ناکام بنانے کی حکمت عملی تیار کرنی شروع کردی۔ افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں مذہبی انتہا پسند گروہوں کو یکجا کرنا شروع کردیا چونکہ افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب میں غریب اور متوسط طبقات کے علاوہ خواتین کو بھی ان کے حقوق کا دلانا شامل رہا۔

افغانستان جیسے پسماندہ معاشرے میں خواتین کے حقوق، چھوٹی قومیتوں کے حقوق کے علاوہ سویلین اور عسکری محکموں میں بھی خواتین کی بھرتی شروع ہوگئی تھی، لہٰذا ایسے موقعے پر یہ ضروری ہوگیا تھا کہ اس آزاد خیال دنیا کے مدمقابل اسلام سے قبل کے معاشرے کے دور کی یاد دلائی جائے جب کہ امریکی دنیا میں عورتوں کی آزادی پر زور دیا جاتا ہے جب کہ دور جاہلیت کو شریعت اور اسلام کا نام لے کر جنگ کا آغازکیا گیا اور پاکستان کی سرزمین کو آلہ کار بنایا گیا۔

پاکستان من وعن امریکی مفادات کا تحفظ نہ کرسکا۔ اس لیے وہ اپنے مقاصد کے حصول کے باوجود پاکستان پر تنقیدکرتا رہا۔ جو آج تک جاری ہے اور اس سے ملک کو مالی اور ثقافتی نقصانات کا بے تحاشا سامنا رہا اور امریکا تن تنہا عالمی پاور کہلایا۔ ایک ایسا وقت آگیا کہ وہ عالمی سیاسی فیصلے کرنے لگا اور جب سوویت یونین ساکھ کھوبیٹھا تو ہر طرف امریکا ہی امریکا تھا۔ خواہ وہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ ان کے اہداف ایک ہی تھے۔ وہ مذہبی اسلامی پارٹیوں کی حمایت کرتے تھے جو آج تک جاری ہے مگر مذہبی پارٹیاں وہ جن کا جھکاؤ امریکا کی طرف ہو یا ان حکومتوں کی طرف جو امریکا کی حاشیہ بردار ہوں۔ مصر کے محمد مرسی بھی مذہبی مفادات کے علم بردار تھے مگر وہ اسرائیل اور انڈیا کے حمایتی نہ تھے لہٰذا ان کو خانہ جنگی کی فضا پیدا کرکے فوجی سربراہ کو مصر کا حکمران بنا دیا گیا۔

یہ بات پاکستان کی سمجھ میں خاصا وقت ہوگیا آچکی ہے کہ اب وہ محض ایک عالمی طاقت پر انحصار نہیں کرسکتا۔ یہ معاملہ صدر ایوب خان اپنے آخری دور میں سمجھ چکے تھے اور اسی پالیسی کو مزید فروغ دے کر ذوالفقار علی بھٹو آگے بڑھائے گئے۔ اور انھوں نے اسلامی سوشلزم کا نکتہ بھی اس میں لگا دیا تھا۔ کرنل قذافی اور انھی کے نظریات کو بھٹو نے آگے بڑھایا مگر امریکا کے زبردست حامی جنرل ضیا الحق نے افغان جنگ کو بنیاد پرستی کا رنگ دے کر پنجاب میں عقائد اور نظریات کے ایسے بیج بوئے جس سے فرقہ پرستی کی بو آنے لگی اور ہر قسم کی مذہبی تنظیمیں فروغ پانے لگیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے مذہبی تنظیموں سے رابطے بڑھا کر ان کو فروغ دیا جس کے اثرات ایسے ہوئے کہ ملک میں تحریک طالبان اس قدر مضبوط ہوئی کہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ ملک پر ہی قابض نہ ہوجائے اور ایک وقت ایسا آگیا کہ طالبان ایک متوازی قوت کے انداز میں حکومت سے مذاکرات کرنے پر تیار ہوگئے گویا پاکستان جو قائد اعظم کی بنائی ہوئی اسٹیٹ ہے اس کا کوئی اور وارث پیدا ہوگیا۔ اس موقعے پر فوج نے ''ضرب عضب'' کا آغاز کیا اور تحریک طالبان اور اس کے ہم نوا اپنی رٹ کھو بیٹھے۔


حکومت پاکستان اس بات میں صد فیصد حق بجانب ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی کوئی منظم قوت موجود نہیں مگر برکس اعلامیے نے جس چیز کو اپنے صفحات پر نمایاں کیا ہے وہ ان تنظیموں کو اچھالا ہے جن کے لیڈران پاکستان میں موجود ہیں۔ یہ درحقیقت پاکستان کے خارجہ دفاترکی کمزوری ہے کیونکہ پاکستان میں ایک اعتبار سے دفتر خارجہ پر توجہ نہیں دی گئی۔

یہ خامی اس وقت سے زیادہ نمایاں ہوئی جب پاکستان کے وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر ٹرمپ کا استقبال کرنے گئے اور ٹرمپ اور سعودی گھن گرج وہاں محسوس کی گئی اور ایک عجیب اتفاق وہاں یہ ہوا کہ ایران کے خلاف بننے والا یہ محاذ قطر کی وجہ سے بے مصرف ہوگیا۔ ٹرمپ کی شام میں شکست نے دوبارہ روس کو دوسری سپر پاور بنادیا اب عالمی معاملات باہمی اتفاق رائے سے ہی طے ہوتے ہیں۔ کیونکہ طاقت کا یہ توازن جنگ سے گریز کرتا رہتا ہے اور یہ پراکسی وار کی شکل کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے اب سعودی عرب اور ترکی ایک دوسرے کے مدمقابل آچکے ہیں جب کہ اب ایران اور عراق کی بے مثل مفاہمت نے ایران کو ایک بار پھر سعودی مفاہمت کے قریب تر کردیا ہے۔

مگر روس چین سعودی عرب سے بہت دور ہیں جب کہ پاکستان سی پیک کا جزو ہونے کے باوجود بھی روس چین سے قریب تر نہیں ہے بلکہ بعض معاملات میں پاکستان روس مخالف قوتوں سے قریب تر رہا ہے مانا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ہاتھوں قرضے میں جکڑا ہوا ہے مگر وہ برکس سے غیر متعلق نہیں رہ سکتا بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت بھی پاکستان بریکس سے قریب تر ہوسکتا ہے مگر سعودی عرب کے قریب ہونا سماجی سیاسی مذہبی طور پر قریب تر ہونے کا مطلب ہرگز نہیں کہ دوسری طاقتوں سے نظریاتی طور پر مخالف ہوا جائے مسلم امہ میں بظاہر فروعی اختلافات ضرور ہیں مگر بنیادی طور پر وہ ایک ہیں مگر مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کا احترام لازم ہے۔

آپ کو شاید یہ یاد ہوگا کہ طالبان نے مہاتما بدھ کا قدیم ترین اور سب سے بڑا مجسمہ بم سے اڑا دیا تھا۔ اس سے بدھ مت کے ماننے والے برما میں انتہا پسند بدھ مت کے لوگوں میں شدید نفرت نے گھر کرلیا اس لیے کہ ضروری ہے کہ ہر عمل سے قبل ردعمل کے موضوعات پر غور ضروری ہے لیکن بدھ مت کے پیروکار یہ بھول گئے کہ مہاتما کا درس انسانیت ہے اور لوگ انسانیت کو بھول بیٹھے۔ ہمارے ملک کے سیاستداں یہ بھول گئے کہ ہمارے سیاسی منصب اور مسلک کیا ہیں؟ دن بھر اپنے ہی ملک کے عقائد اور نظریات کا پرچار اور یہ نہ سوچنا کہ ہم ایسی گفتگو نہ کریں جس سے دوسرے مذاہب کے لوگ دل شکستہ یا ہم سے بدظن ہوجائیں۔ ہمارے میڈیا یا ٹیکسٹ بک کے اشاعت کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ کلاس روم میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہمارے ملک میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے ہیں۔

اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے پہلے خطاب میں لوگوں پر یہ زور دیا تھا کہ وہ پاکستانی ہیں نہ ہندو نہ مسلم، نہ سکھ نہ عیسائی مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ لوگوں نے قائد کے فرمان کو بھلا دیا اور وہ نہ صرف ادیان میں بلکہ فرقوں میں بٹ گئے اور پاکستان میں وہ وقت بھی آیا کہ مساجد میں خصوصاً بم بلاسٹ کیے جانے لگے اور پھر پاک فوج کو اس تشدد کو ختم کرنا پڑا۔ ہر شخص کا نظریہ اور عقیدہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے اور وہ روز حشر یا قبر میں جواب دہ ہے نہ یہ کہ انسان انسان سے جواب مانگے۔ جب کہ وہ خود انسانی حقوق پورے نہیں کر پاتا۔ چین بھارت جنگ 1962ء میں ہوئی اس کی تلخی طویل عرصے تک برقرار رہی جب کہ پاک چین کے مابین کوئی بڑی تلخی موجود نہ تھی پھر بھی برکس کانفرنس میں چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ نے ہاتھوں کی زنجیر بناکر دوستی کا اعادہ کیا اور شنگھائی میں مستقبل کی کانفرنس کے ایجنڈے پر گفتگو کا آغاز ابھی سے کیا گیا۔

بھارتی اخبارات نے اس کانفرنس کی زبردست تشہیر کی اس کی پوری ذمے داری وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے۔ گوکہ پاکستان افغانستان کے کہنے پر ہی زیادہ تر عمل کرتا رہا ہے لیکن پاکستان کی مذہبی جماعتیں کشمیر کے معاملے میں بھارت سے سخت گیر موقف رکھتی ہیں اور بھارت اسی پروپیگنڈے کو ہوا دے رہا ہے۔ اس مسئلے پر موجودہ اجلاس سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ رفتہ رفتہ پاکستان کے کشمیر مسئلے پر امریکا اور چین کا موقف قریب تر ہوتا جا رہا ہے جب کہ گزشتہ برس کے اجلاس میں ایسا موقف نظر نہ آیا تھا لہٰذا برکس کی موجودہ روش خارجہ حکمت عملی کے ناقص سیاسی تدبر کی عکاس ہے۔
Load Next Story