سیاست کی پرکاریاں

مذہبی جماعتوں نے اسلام کے نام پر اور کچہریوں کے باہر انصاف کے نام پر قانون والوں نے دکانداری شروع کر رکھی ہے۔

مونا سنگھ گھوڑے پر بیٹھ کر جا رہا تھا کہ آگے سے نونا سنگھ کے ساتھ اس کا ٹاکرا ہو گیا۔ نونا سنگھ بولا '' اوئے مونا سنگھ توں کدے او تے بٹھیا ایں؟ مونا سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے گردن اکڑا کر کہا '' اوئے کھوتے دیا پُترا، تینوں نظر نہیں آؤندا ، میں گھوڑے تے بیٹھا آں'' نونا سنگھ کو ذرا شرمندگی نہ ہوئی اُسی طرح تُرکی بہ تُرکی بولا '' تاں کیہہ ہو یا ، پوچھن اچ کی حرج اے''

بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، ہمارے معاشرے میں چونکہ ان پڑھ لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن ہم دنیا کے ان پانچ ممالک میں سے ایک ہیں جو میڈیا اور خاص طور پر سیاست کے معاملے میں سب سے زیادہ بحث مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس لیے جس طرح نیم حکیم خطرہ جان ہوتا ہے بالکل اس طرح کم پڑھا لکھا یا ان پڑھ آدمی میڈیا سے متاثر ہو کر جب سیاست پر بحث کرے گا تو وہ نا صرف معاشرے کے لیے وبال جان ہو گا بلکہ اس کا رویہ بھی نونا سنگھ سے مختلف نہیں ہو گا۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو ہمارا معاشرہ '' نونا سنگھوں'' سے بھرا پڑا ہے۔

ابھی مجھے واٹس ایپ پر ایک دوست نے مریم نواز کے حوالے سے ٹی وی کلپ بھیجا جس میں انھوں نے نواز شریف کو گرو گرمیت کے ساتھ تشبیہ دینے والے ٹویٹر کو لائک کر دیا۔ اس پر ایک ٹی وی اینکر نے اس بات کو بنیاد بنا کر مرچ مصالحہ لگا کر اسٹوری تیار کی۔ اب اس میں مریم صاحبہ کی جلدی میں ہوئی غلطی ہوسکتی ہے یا ان کے ٹویٹر کو آپریٹ کرنے والا سوشل میڈیا کا ملازم اتنا پڑھا لکھا نہیں ہو گا۔ ویسے تو بات کی حقیقت کا کسی کو معلوم نہیں ہوتا لیکن بظاہر یہ بات کسی حد تک خفگی کا باعث بنتی ہے لیکن یہاں کسی کو خفگی مٹانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ ان پڑھ معاشروں میں ایسا ''چلتا'' ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد ساری غلطیاں اور ساری بے وقوفیاں جائز سمجھی جاتی ہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک کے عوام ''ایس ٹی ڈی'' کے شکار ہیں۔

یہ ''ایس ٹی ڈی'' کیا ہے؟ میں اپنے سوال کا خود ہی جواب دے دیتا ہوں۔ ایک معروف غیر ملکی دانشور '' لاؤڈ ریبل'' نے ''ایس ٹی ڈی'' کی تشریح اس طرح کی ہے "Sexually Thansmitted Democracy" اسے آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے'' حکمرانوں کی اولادوں پر مبنی جمہوریت'' جیسے کہ ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، بلاول بھٹو ، آصف بھٹو زرداری' اسی طرح نواز شریف ، شہباز شریف ، کلثوم نواز ، مریم نواز ، حمزہ شہباز وغیرہ ، دو بڑے سیاسی خانوادوں کی طرح اے این پی کے باچا خان ان کی اولادیں، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود اور ان کے صاحبزادے ، مولانا فضل الرحمن ، اچکزئی ، گیلانی ، چوہدری برادران ، مسلم لیگ فنکشنل کے پیر پگاڑا ، لاہور کی شجاع الرحمن فیملی فیصل آباد سے شیر علی ، اسلام آباد سے جنرل عمر کا خاندان، جنرل ضیاء ، جنرل ایوب، جنرل اختر عبدالرحمن کا خاندان اور پھر ان خاندانوں، برادریوں، قبیلوں ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، وڈیروں ، لٹیروں کے دوست، عزیز ، رشتہ دار اور مصاحب ایک ایسی ' اشرافیہ'' تیار ہو چکی ہے ۔

جس نے آکٹوپس کی طرح پورے ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ لاؤد ریبل اس اشرافیہ کو '' ایس ٹی ڈی'' کہتے ہیں اور ہمارے ملک کے ایک مشہور سیاستدان جناب شیخ رشید ''ایس ٹی ڈی'' کو "Gang of five and thirty kids"یعنی پانچ سیاستدان اور ان کے 30 بچوں کا گینگ قرار دیتے ہیں۔ شیخ رشید چاہتے ہیں کہ وہ 5 سیاستدانوں اور ان کے 30 بچے سیاست سے آؤٹ ہو جائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان 5 سیاستدانوں کے ساتھ جڑے سیکڑوں سیاسی خانوادے ، آرمی اور سول بیورو کریسی کے درجنوں مافیا گروپ اپنے اپنے مفاد کے لیے اس ملک کو ''مامے مودے کی بھانجی'' سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔ اور بھولے بھالے عوام چڑھتے سورج اور دن کی روشنی میں بھی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔

سچ آنکھوں کے سامنے ہے لیکن اسے پرکھنے کی تمیز ہی نہیں ہے۔ میڈیا اتنی گرد اڑاتا ہے کہ کرپشن کے کیچڑ میں لتھڑے سیاستدان، جرنیل اور کرپٹ ترین بیورو کریسی کو خدانخواستہ غلطی سے گردن سے پکڑ لیا جائے تو وہ ''نونا سنگھ '' بن جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ''مجھے کیوں نکالا''

میڈیا کیا کرتا ہے؟ اس کی میں ایک مثال اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ کئی گھنٹوں سے ایک پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ ''کیا عجیب اتفاق ہے کہ چھ ممالک جرمنی، کینیڈا ، امریکا، فرانس ، انڈیا ، برطانیہ کے جو سفیر عراق کی تباہی کے وقت بغداد میں تعینات تھے، وہی لیبیا کی تباہی کے وقف طرابلس میں اور شام کی تباہی کے وقت دمشق میں تعینات تھے، ان پانچ ممالک کے وہی سفیر آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعینات ہیں۔ اس پیغام کے بعد ایک لمبا چوڑا بھاشن ہے اور حب الوطنی کا واسطہ دے کر مجبور کیا جاتا ہے کہ آپ اس پیغام کو کم از کم 10 لوگوں کو ضرور بھیجیں۔


پیارے قارئین! یہ بالکل جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ لیبیا میں تعینات امریکی سفیر جان کرسٹو فر2012ء میں ہلاک ہو گیا تھا اور موجودہ سفیر مسٹر ڈیوڈ کبھی بغداد اور لیبیا میں تعینات نہیں رہا ۔ اسی طرح فرانسیسی سفیر مارٹن ڈورانس نے بھی کبھی بغداد ، لیبیا اور شام میں خدمات انجام نہیں دیں۔ اس طرح باقی سفراء کے بارے میں انٹر نیٹ پر تمام معلومات موجود ہیں۔

تحقیق سے پتہ چل جاتا ہے بالکل اسی طرح عید کے دنوں میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برما کے بارے میں بہت سی ویڈیو اور خبریں منظر عام پر آئیں لیکن بہت کم لوگوں کو یہ پتہ ہے کہ ان میں سے وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز جعلی ہیں ان کا برما کے متاثرین روہنگیا کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ان ویڈیو کا اچانک وائرل ہونا اور پھر عید کے موقع پر مذہبی تنظیموں کا کھالیں اور چندہ اکٹھا کرنے کا ایک انوکھا انداز بھی سامنے آیا ہے۔ جس میں بعض کالعدم اور کچھ نیم سیاسی مذہبی جماعتوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر عوام کی ہمدردیاں بھی لیں۔ ڈھیر سارا چندہ اور کھالیں بھی اکٹھی کیں۔ آج کل ان کے خلاف آپریشن چل رہا ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کا پورا نظام ہی کرپٹ ہو چکا ہے۔ مذہبی جماعتوں نے اسلام کے نام پر اور کچہریوں کے باہر انصاف کے نام پر قانون والوں نے دکانداری شروع کر رکھی ہے۔ منڈیاں کھلی ہوئی ہیں ۔ عزت سے ایمان تک ہر چیز کا بھاؤ لگ رہا ہے۔ بقول شخصے ''پاکستان وچ ہر چیز دا مُل اے کاکا'' آدمی کس کی بات کرے اور کس کی نہ کرے؟

آیئے چلتے ہیں کچھ اہم خبروں کی طرف ! اب خبر یہ ہے کہ ایک بڑی کاروباری شخصیت کے ذریعے ''شریفوں'' کی ڈیل چل رہی ہے۔ سنا ہے کہ زرداری صاحب کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ جب تک گرین سگنل نہیں آئے گا ، لندن سے میاں صاحب واپس نہیں آئیں گے۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ والیم ٹین کی دستاویزات کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی تیاریاں بھی چل رہی ہیں۔ یہ خبر بھی ہے کہ کلثوم نواز اگلے چند دنوں میں عدالت سے نا اہل ہونے جا رہی ہیں اور این اے 120میں 27 ہزار مشکوک ووٹ بھی الیکشن سے قبل ختم کر دیے جائیں گے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ این اے 120 میں گھوسٹ پولنگ اسٹیشنوں کا منصوبہ بھی پکڑا گیاہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن میں چند ''مہربانوں'' نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اور بائیو میٹرک کے ذریعے ووٹنگ کے فول پروف انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن شفاف ہونے کی صورت میں ن لیگ کی شکست نوشتہ دیوار ہو گی۔

ن لیگ الیکشن ہارے یا جیتے لیکن عوام اب بھی جو باتیں کر رہے ہیں ان پر محسن نقوی کا ایک شعر قارئین کی نذر ہے۔

یہ اور بات ہے کہ وہ نبھا نہ سکا محسن

مگر جو کیے تھے اسی نے وہ وعدے غضب کے تھے

وما علینا الالبلاغ المبین۔
Load Next Story