عوام سیاست اور کرپشن
بدقسمتی سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی تو ملزم اعلیٰ عہدوں کا حقدار بن ہی جاتا ہے
گزشتہ سال پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ملک میں عروج پر پہنچی ہوئی کرپشن کے خلاف آواز بلند کی تھی ۔ جس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کا نام پانامہ لیکس میں نہیں ہے مگر ان کے مخالفین کا الزام تھا کہ نواز شریف کے طویل اقتدار میں یہ کرپشن ہوئی ۔ بعد میں پانامہ کا معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور سپریم کورٹ سے جو سزا ملی اس کی وجہ کرپشن نہیں بلکہ ان کا صادق و امین نہ ہونا تھا اور نواز شریف خاندان کی کرپشن کا فیصلہ نیب ریفرنس میں ہونا ہے۔
1988 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت بننے کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے مبینہ الزامات سامنے آئے اور انھیں مسٹر ٹین پرسنٹ کہا گیا۔ بے نظیر حکومت میں آصف زرداری پر الزامات لگائے گئے ۔ پھر محترمہ کی حکومت برطرف ہوئی پھر نواز شریف وزیر اعظم بنے مگر آصف زرداری پر مبینہ الزام کی کوئی انکوائری ہی نہیں ہوئی تھی پھر نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو حکومت برطرف کرنے والے صدر غلام اسحاق خان نے آصف علی زرداری کو وفاقی وزیر بنا دیا تھا جس کے بعد محترمہ دوبارہ اقتدار میں آئیں تو مخالفین پھر آصف زرداری پر الزام تراشی کرنے لگے اور انھیں ہنڈریڈ پرسنٹ کہا جانے لگا اور پھر 1996 میں محترمہ کے منہ بولے بھائی صدر فاروق لغاری نے پی پی حکومت برطرف کی تو بھی آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگے وہ گرفتار بھی ہوئے جس کے بعد نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنائے گئے مگر ملک میں کرپشن کم نہیں ہوئی جس کے بعد بھاری مینڈیٹ کے باوجود وہ جنرل پرویز کے ہاتھوں برطرف ہوئے۔
جنرل پرویز سے قبل جنرل ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی زیر عتاب رہی اور مسلم لیگیوں کو چھوٹ ملی کیونکہ جنرل ضیا سے قبل ملک پر پی پی نے پانچ سال حکومت کی تھی مگر پی پی حکومت پر کرپشن کے الزامات کم تھے مگر 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان گیارہ سالوں میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار کی دو دو باریاں لے چکی تھیں اور محترمہ بے نظیر اور نواز شریف وزیر اعظم رہ چکے تھے اور دونوں نے اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے اور دونوں نے ایک دوسرے کو آرام سے حکومت کرنے نہیں دی تھی جس کا فائدہ جنرل پرویز مشرف کو ہوا۔
بے نظیر بھٹو پہلے ہی ملک سے باہر تھیں انھوں نے نواز شریف کو بھی جلا وطن کیا۔ جنرل پرویز مشرف دونوں ہی سابق حکمران جماعتوں کے خلاف تھے انھوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا احتساب شروع کرایا اور کرپشن میں ملوث دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے جنرل مشرف کی حمایت کرکے بچاؤ حاصل کرلیا اور جو باقی رہ گئے ان کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔
2002 کے انتخابات سرکاری طور پر مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت پی پی اور (ن) لیگ کے ارکان توڑ کر بنائی گئی اور ان 5 سال میں کرپشن میں کمی نہیں چھوڑی گئی ، احتساب ادارہ خاموش رہا اور کرپٹ سیاستدانوں اور افسروں کے ساتھ اپنے قانون کے تحت بارگیننگ کرتا رہا۔ جس نے کروڑوں کی کرپشن کی وہ لاکھوں روپے دے کر جان چھڑاتے رہے اور باقی اپنی کرپشن چھپانے کے لیے مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوکر ڈرائی کلین ہوتے رہے۔
کرپشن کے خلاف آج ہیرو بننے والے شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی اور دوسروں نے بھی جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دے کر 5 سال اقتدار کے مزے لوٹے اور انھیں حکومت میں کوئی کرپشن نظر نہیں آئی۔ اس وقت جنرل پرویز بھی اپنی ملکیت بڑھاتے رہے اور ان کے زیر سایہ رہنے والوں نے بھی ملکیتیں بڑھائیں اور اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل نہ ہوتا تو 2008 میں بھی مسلم لیگ(ق) نے ہی جیتنا تھا مگر (ق) لیگ کی غیر مقبولیت سے جنرل پرویز مشرف نے این آر او کرکے تمام کرپٹ لوگوں کو کلین چٹ دی کیونکہ وہ (ق) لیگ سے مطمئن نہیں تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اپنے حامیوں کی کرپشن معاف کردی اور عوام حیران ہوکر دیکھتے رہے کہ سیاست میں سیاسی مفاد کے لیے کرپٹ سیاستدانوں نے کس طرح این آر او سے فائدہ اٹھایا اور ہر ایک کے خلاف کرپشن کے الزامات ختم کرکے انھیں صادق و امین بننے کا موقعہ دیا گیا۔ محترمہ کی شہادت کا نقصان جنرل پرویز مشرف اور (ق) لیگ کو اور سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کو ملا اور پی پی کی حکومت پھر قائم ہوگئی اور آصف زرداری غیر متوقع طور پر صدر مملکت منتخب ہوگئے جس کا طلب یہ تھا کہ ان پر ماضی میں لگائے جانے والے تمام الزامات غلط تھے اور انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
آصف علی زرداری کو صدر بنوانے میں مسلم لیگ (ن) شامل نہیں تھی اور جن لوگوں نے صدارت کے لیے آصف علی زرداری کو ووٹ دیا وہ سب صادق و امین تھے اور انھوں نے صدر منتخب کرکے آصف علی زرداری کو صادق و امین قرار دے دیا تھا۔ مبینہ طور پر کرپشن میں سب سے زیادہ بدنام کیا جانے والا آصف علی زرداری سب سے بڑے صادق و امین قرار پائے اور صدر بن گئے ، جنھوں نے اپنے خلاف کرپشن و دیگر الزامات میں صدارتی استثنیٰ حاصل کیا اور ان کے خلاف کوئی کیس ثابت نہ ہوسکا اور وہ بری ہوتے گئے ۔
ان کے خلاف اثاثہ جات کے آخری کیس میں بھی کوئی ثبوت پیش نہ کیا جا سکا اور وہ 26 اگست کو اپنا آخری کیس بھی جیت گئے۔ جس پر عمران خان نے مک مکا کا الزام لگایا اور عوام حیران کہ جس شخص پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگے جو جیل میں بھی رہا اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر بھی پانچ سال پورے کرگیا اس پر کرپشن کے الزامات کیوں لگائے گئے تھے۔
ڈاکٹر عاصم پر 438 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات میں کچھ برآمد نہ ہو سکا اور وہ طبی بنیاد پر رہائی پا کر صحت مند ہوگئے اور سیاست کر کے خود کو صادق و امین بنانے میں مصروف ہیں اور لگتا ہے کہ ان کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ملے گا اور ایک سال انھیں قید میں رکھ کر وفاقی ادارے ڈاکٹر عاصم کی کرپشن ثابت نہ کرسکے تو امید ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو ڈاکٹر عاصم گورنر تو ضرور ہی بنا دیے جائیں گے۔
بدقسمتی سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی تو ملزم اعلیٰ عہدوں کا حقدار بن ہی جاتا ہے اس لیے حکومتوں کو ایسے صادق و امین ملزموں سے معافی مانگنی چاہیے اور ذمے دار اداروں کے افسران کو بھی سزا کی بجائے ترقی دینی چاہیے۔ عوام حیران و پریشان سیاست میں کرپشن کے یہ کامیاب ڈرامے دیکھ ہی رہے ہیں اور اب تک کسی بڑے آدمی کو کرپشن میں سزا نہ ہونے کی فلاپ فلمیں بھی دیکھ رہے ہیں جو کرپشن کی شاندار نمایش میں کھڑکی توڑ ہفتے پورے کرکے پلاٹینم جوبلی بھی منا رہی ہیں مگر کرپشن فلموں کی کامیابی پر ان کے ہدایت کار مستعفی ہوتے ہیں نہ کوئی ایکشن سامنے آتا ہے۔ کرپشن کے الزامات کی سیاست ختم ہونے میں نہیں آرہی جو عوام کا نصیب بنی ہوئی ہے۔
1988 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت بننے کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے مبینہ الزامات سامنے آئے اور انھیں مسٹر ٹین پرسنٹ کہا گیا۔ بے نظیر حکومت میں آصف زرداری پر الزامات لگائے گئے ۔ پھر محترمہ کی حکومت برطرف ہوئی پھر نواز شریف وزیر اعظم بنے مگر آصف زرداری پر مبینہ الزام کی کوئی انکوائری ہی نہیں ہوئی تھی پھر نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو حکومت برطرف کرنے والے صدر غلام اسحاق خان نے آصف علی زرداری کو وفاقی وزیر بنا دیا تھا جس کے بعد محترمہ دوبارہ اقتدار میں آئیں تو مخالفین پھر آصف زرداری پر الزام تراشی کرنے لگے اور انھیں ہنڈریڈ پرسنٹ کہا جانے لگا اور پھر 1996 میں محترمہ کے منہ بولے بھائی صدر فاروق لغاری نے پی پی حکومت برطرف کی تو بھی آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگے وہ گرفتار بھی ہوئے جس کے بعد نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنائے گئے مگر ملک میں کرپشن کم نہیں ہوئی جس کے بعد بھاری مینڈیٹ کے باوجود وہ جنرل پرویز کے ہاتھوں برطرف ہوئے۔
جنرل پرویز سے قبل جنرل ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی زیر عتاب رہی اور مسلم لیگیوں کو چھوٹ ملی کیونکہ جنرل ضیا سے قبل ملک پر پی پی نے پانچ سال حکومت کی تھی مگر پی پی حکومت پر کرپشن کے الزامات کم تھے مگر 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان گیارہ سالوں میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار کی دو دو باریاں لے چکی تھیں اور محترمہ بے نظیر اور نواز شریف وزیر اعظم رہ چکے تھے اور دونوں نے اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے اور دونوں نے ایک دوسرے کو آرام سے حکومت کرنے نہیں دی تھی جس کا فائدہ جنرل پرویز مشرف کو ہوا۔
بے نظیر بھٹو پہلے ہی ملک سے باہر تھیں انھوں نے نواز شریف کو بھی جلا وطن کیا۔ جنرل پرویز مشرف دونوں ہی سابق حکمران جماعتوں کے خلاف تھے انھوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا احتساب شروع کرایا اور کرپشن میں ملوث دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے جنرل مشرف کی حمایت کرکے بچاؤ حاصل کرلیا اور جو باقی رہ گئے ان کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔
2002 کے انتخابات سرکاری طور پر مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت پی پی اور (ن) لیگ کے ارکان توڑ کر بنائی گئی اور ان 5 سال میں کرپشن میں کمی نہیں چھوڑی گئی ، احتساب ادارہ خاموش رہا اور کرپٹ سیاستدانوں اور افسروں کے ساتھ اپنے قانون کے تحت بارگیننگ کرتا رہا۔ جس نے کروڑوں کی کرپشن کی وہ لاکھوں روپے دے کر جان چھڑاتے رہے اور باقی اپنی کرپشن چھپانے کے لیے مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوکر ڈرائی کلین ہوتے رہے۔
کرپشن کے خلاف آج ہیرو بننے والے شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی اور دوسروں نے بھی جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دے کر 5 سال اقتدار کے مزے لوٹے اور انھیں حکومت میں کوئی کرپشن نظر نہیں آئی۔ اس وقت جنرل پرویز بھی اپنی ملکیت بڑھاتے رہے اور ان کے زیر سایہ رہنے والوں نے بھی ملکیتیں بڑھائیں اور اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل نہ ہوتا تو 2008 میں بھی مسلم لیگ(ق) نے ہی جیتنا تھا مگر (ق) لیگ کی غیر مقبولیت سے جنرل پرویز مشرف نے این آر او کرکے تمام کرپٹ لوگوں کو کلین چٹ دی کیونکہ وہ (ق) لیگ سے مطمئن نہیں تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اپنے حامیوں کی کرپشن معاف کردی اور عوام حیران ہوکر دیکھتے رہے کہ سیاست میں سیاسی مفاد کے لیے کرپٹ سیاستدانوں نے کس طرح این آر او سے فائدہ اٹھایا اور ہر ایک کے خلاف کرپشن کے الزامات ختم کرکے انھیں صادق و امین بننے کا موقعہ دیا گیا۔ محترمہ کی شہادت کا نقصان جنرل پرویز مشرف اور (ق) لیگ کو اور سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کو ملا اور پی پی کی حکومت پھر قائم ہوگئی اور آصف زرداری غیر متوقع طور پر صدر مملکت منتخب ہوگئے جس کا طلب یہ تھا کہ ان پر ماضی میں لگائے جانے والے تمام الزامات غلط تھے اور انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
آصف علی زرداری کو صدر بنوانے میں مسلم لیگ (ن) شامل نہیں تھی اور جن لوگوں نے صدارت کے لیے آصف علی زرداری کو ووٹ دیا وہ سب صادق و امین تھے اور انھوں نے صدر منتخب کرکے آصف علی زرداری کو صادق و امین قرار دے دیا تھا۔ مبینہ طور پر کرپشن میں سب سے زیادہ بدنام کیا جانے والا آصف علی زرداری سب سے بڑے صادق و امین قرار پائے اور صدر بن گئے ، جنھوں نے اپنے خلاف کرپشن و دیگر الزامات میں صدارتی استثنیٰ حاصل کیا اور ان کے خلاف کوئی کیس ثابت نہ ہوسکا اور وہ بری ہوتے گئے ۔
ان کے خلاف اثاثہ جات کے آخری کیس میں بھی کوئی ثبوت پیش نہ کیا جا سکا اور وہ 26 اگست کو اپنا آخری کیس بھی جیت گئے۔ جس پر عمران خان نے مک مکا کا الزام لگایا اور عوام حیران کہ جس شخص پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگے جو جیل میں بھی رہا اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر بھی پانچ سال پورے کرگیا اس پر کرپشن کے الزامات کیوں لگائے گئے تھے۔
ڈاکٹر عاصم پر 438 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات میں کچھ برآمد نہ ہو سکا اور وہ طبی بنیاد پر رہائی پا کر صحت مند ہوگئے اور سیاست کر کے خود کو صادق و امین بنانے میں مصروف ہیں اور لگتا ہے کہ ان کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ملے گا اور ایک سال انھیں قید میں رکھ کر وفاقی ادارے ڈاکٹر عاصم کی کرپشن ثابت نہ کرسکے تو امید ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو ڈاکٹر عاصم گورنر تو ضرور ہی بنا دیے جائیں گے۔
بدقسمتی سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی تو ملزم اعلیٰ عہدوں کا حقدار بن ہی جاتا ہے اس لیے حکومتوں کو ایسے صادق و امین ملزموں سے معافی مانگنی چاہیے اور ذمے دار اداروں کے افسران کو بھی سزا کی بجائے ترقی دینی چاہیے۔ عوام حیران و پریشان سیاست میں کرپشن کے یہ کامیاب ڈرامے دیکھ ہی رہے ہیں اور اب تک کسی بڑے آدمی کو کرپشن میں سزا نہ ہونے کی فلاپ فلمیں بھی دیکھ رہے ہیں جو کرپشن کی شاندار نمایش میں کھڑکی توڑ ہفتے پورے کرکے پلاٹینم جوبلی بھی منا رہی ہیں مگر کرپشن فلموں کی کامیابی پر ان کے ہدایت کار مستعفی ہوتے ہیں نہ کوئی ایکشن سامنے آتا ہے۔ کرپشن کے الزامات کی سیاست ختم ہونے میں نہیں آرہی جو عوام کا نصیب بنی ہوئی ہے۔