مسلم دنیا مسائل کا شکار کیوں
ممکن ہے کہ یہ اقتباس پڑھ کر آپ کہیں کہ اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے جس کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
ISLAMABAD:
میرا ایک کالم بعنوان ''مغرب کی بالادستی سے نجات'' روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا تھا جس کا ایک اقتباس میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ درج کر رہا ہوں۔
''چند ماہ پہلے ایک دینی سیاسی تنظیم کی جانب سے ملک گیر سالانہ اجتماع عام کا انعقاد کیا گیا جس میں دلی جذبے کے ساتھ میں نے اس تین روزہ اجتماع میں شرکت کی۔ دوسرے دن ایک مذاکرہ تھا جس میں مختلف مقررین نے تقاریر کیں ان میں ایک معروف کالم نگار بھی تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں فرمایا ''مغرب صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہے جس کے لیے اس نے مختلف حربے استعمال کیے ہیں مسلمانوں پر سیاسی بالادستی کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ قیام عمل میں لایا گیا۔ مسلمانوں کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے قیام عمل میں لائے گئے مسلمانوں کی سوچ اور فکر کو کنٹرول کرنے کے لیے میڈیا تخلیق کیا گیا۔ سماجی نظام پر ضرب لگانے کے لیے این جی اوز بنائی گئی ہیں۔ اس طرح مسلمان صدیوں سے مغرب کی سازش کا شکار ہو رہے ہیں۔''
میں سطحی سی ذہانت رکھنے والا شخص ہوں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں محترم کالم نگار کی یہ باتیں سن کر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا جب مغرب صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں پر عمل پیرا تھا اور ہے اس دوران ہم مسلمان کیا کر رہے تھے۔ مختلف عنوانات پر تقاریر کا یہ پروگرام ختم ہوا۔ میرے ذہن کے ایک گوشے میں یہ سوال بدستور گردش کرتا رہا۔
چائے کا وقفہ تھا اس دوران میں نے دیکھا کہ اس تنظیم سے وابستہ چند کارکنان اسلامی تاریخ کے صدیوں پہلے موجود چند فرقے جن کا وجود صدیوں پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ اب ان کا کوئی وجود نہیں ہے وہ اس پر سیر حاصل گفتگو کر رہے تھے اور اپنے اپنے موقف کے حق میں ماضی میں لکھی گئی کتب سے حوالے پیش کر رہے تھے۔ ان کے اس طرز عمل کو دیکھ کر مجھے اپنے اس سوال کا جواب مل گیا تھا کہ جب مغرب ہمارے خلاف سازش میں مصروف تھا اس وقت ہم کیا کر رہے تھے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا افلاطون ہونا ضروری نہیں ہے۔
ممکن ہے کہ یہ اقتباس پڑھ کر آپ کہیں کہ اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے جس کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف مکاتب فکر سے رکھنے والے ان گنت ارسطو اور بقراطوں کے درمیان ہزاروں کی تعداد میں ہونے والے بحث و مباحثہ پر نظر ڈالیے اس میں تمام ایسی ہی باتیں نظر آئیں گی جن کا موجودہ امت مسلمہ کے عوامی مسائل اور ان کے حل سے دور کا بھی تعلق نہ ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ میری ذاتی رائے میں ہمارے یہاں سوشل میڈیا کو ہائیڈ پارک سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے عام زندگی میں جس انسان کو کسی کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہوتی وہ سوشل میڈیا پر اس کو آسانی سے گالیاں دے سکتا ہے۔ بقول ایک دانشور کے جس معاشرے میں جہالت عام ہوتی ہے وہاں ٹیکنالوجی کا استعمال جہالت کو بھی کمپیوٹرائز کردیتا ہے، اچھے سمجھدار لوگوں سے جب اس حوالے سے بات کی جاتی ہے تو وہ ان تمام خرابیوں اور خامیوں کو مغرب کی سازش ہی قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟
ماہر نفسیات کے نزدیک جب کسی انسان یا گروہ کے پاس اپنے حالات کو بدلنے کی طاقت اور صلاحیت نہ ہو تو ایسا انسان اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے سازشی تھیوری کا سہارا لیتا ہے۔ یہ رجحان ان لوگوں میں زیادہ پروان چڑھتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اندر کوئی بڑی خامیاں موجود نہیں ہیں بلکہ سارا کچھ دوسروں کا کیا دھرا ہے۔اس تصور کا نتیجہ غلط تجزیہ اور انتشار کی صورت میں نکلتا ہے جس سے انسان مزید مسائل میں گھر جاتا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ دنیا کے اس سیاسی اور معاشی جنگل میں کوشش کے باوجود انسان دوستی اور اصول پرستی کا رواج ابھی تک مستحکم نہ ہوسکا۔ جوکچھ رائج ہے وہ طاقت کو حق تسلیم کرنے اور کروانے کی روایت ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکا کے افکار اور اعمال کا محور و مرکز کوئی اصول یا نظریہ نہیں نہ یہ کسی کے دوست ہیں اور نہ دشمن بلکہ ان کے پیش نظر ان کے خالصتاً اپنے قومی مفادات ہوتے ہیں جن پر یہ پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں۔اس کی روشنی میں ہی کبھی دوستی کبھی بیگانگی کبھی رقابت اور کبھی دشمنی دکھاتے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سازش بھی کرتے ہیں ان کا مقابلہ جذبات سے نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔
کہتے ہیں کوئی شخص تمہاری پیٹھ پر اس وقت تک سواری نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ جھکی ہوئی نہ ہو۔ سازش کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی سازش کی کامیابی کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں ایک سازش کرنے والے کی منصوبہ بندی دوسرا سازش کا شکار ہونے والوں کی اس توڑ میں ناکامی۔
ہمیں اس تناظر میں اپنی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک مفکرکے نزدیک مسلمان موجودہ دورکے تقاضوں اور وقت کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ موجودہ دور میں علم ہی عروج کا ذریعہ ہے۔ موجودہ دور میں انھی قوموں کو عزت دی جاتی ہے جو علم و تحقیق کے میدان میں حصہ لیتی ہیں جو قومیں علم و تحقیق کے میدان میں خود حصہ نہ بنیں اور دوسروں کے علم اور ایجادات پر انحصار کرنے لگیں۔
ایسی قومیں دنیا میں اپنا احترام کھو دیتی ہیں بدقسمتی سے مسلمان ایک ناقابل فہم نادانی کی حد تک سائنس کے اس علمی دور میں طاقت کے اصول اور اقتدار پر قبضے کو ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض دینی سیاسی تحریکوں کے پاس اقتدار حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پرامن منتقل کرنے کا کوئی واضح سیاسی نظام ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلم دنیا ایک بے معنی لڑائی کے مزاج میں مبتلا ہے یہ طرز فکر ہی مسلم دنیا میں سیاسی عدم استحکام اور مسلمانوں کے مسائل کی بنیاد ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمیں ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ کسی بھی معاشرے میں فکر و عمل کا سرچشمہ ایک اقلیتی گروہ ہوتا ہے جسے تخلیقی گروہ کہا جاتا ہے۔ اکثریتی معاشرے کی حیثیت ہمیشہ مقلد کی رہی ہے۔ جب کسی معاشرے کو نئے مسائل پیش آتے ہیں تو یہ تخلیقی گروہ نئے مسائل کی روشنی میں غور و فکر کے ذریعے ان مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
سیاسی قوتیں اس لائحہ عمل کی روشنی میں اپنی جدو جہد کے ذریعے اسے عملی شکل عطا کرتی ہیں اس طرح معاشرہ عروج کی منازل طے کرتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور دانشوروں کو اس فکر کی روشنی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔