پاکستان کے کھاتے میں

قوموں کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے ضرور آتے ہیں جب وہ جذباتی ہوجاتے ہیں


ڈاکٹر یونس حسنی September 08, 2017

امریکی صدر جب اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے، اس وقت بھی انھوں نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان سے وہ امریکی تعلقات پر نظر ثانی کو ضروری خیال کرتے ہیں اور یہ کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اقدامات سے وہ مطمئن نہیں ہیں ۔ ان کی پالیسیوں کے اظہارکے بعد امریکی قوم نے انھیں ووٹ دے کر منتخب کیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکی من حیث القوم ان کی فکر سے متفق ہیں۔

صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہے۔ انھوں نے یورپی ممالک کو بھی مشورہ دیا کہ وہ چند ممالک کے شہریوں پر اپنے ملکوں میں آنے پر پابندی عائد کریں۔ اس فہرست میں تمام مسلم ممالک ہی شامل تھے۔ وہ مسلمانوں کو من حیث القوم دہشت گرد قرار دینا چاہتے تھے۔

برسر اقتدار آنے کے بعد وہ طرح طرح سے پاکستان کو جتاتے رہے کہ امریکا پاکستان سے اپنے تعلق پر نظرثانی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی بساط سیاست پر ہندوستانی مہرے کو اہمیت دینا شروع کیا ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جب امریکا کے دورے پر گئے تو صدر محترم نے ان کا نہ صرف والہانہ استقبال کیا بلکہ متعدد ایسی باتیں کیں جو انھیں ''غلط فہمی'' میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھیں ۔انھوں نے ہندوستان کو امریکا کا شریک کار اور ہمسفر قرار دیا، بھارت کو افغانستان میں اہم رول ادا کرنے والا قرار دیا حالانکہ افغانستان کے امن سے بھارت کا سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ مسئلہ افغانستان کے حل میں بھارت نے کوئی قربانیاں نہیں دیں مگر صدر محترم ان کے کردار کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ صدر ٹرمپ نے سرے سے پاکستان کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا کہ جس کے ذکر کے بغیر مسئلہ افغانستان کو نہ سمجھا جاسکتا ہے نہ حل کیا جاسکتا ہے۔

افغانستان کی جنگ میں پاکستانی قربانیوں کے ذکرکے بجائے وہ بھی بھارتی زبان بولتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر فکرمندی کا اظہار فرماتے رہے ۔ امریکی صدر کی اس سرپرستی سے سرشار ہوکر جناب مودی اپنے حواس کھو بیٹھے وہ بار بار امریکی صدر سے اس طرح بغل گیر ہوتے رہے جس طرح بغل گیر ہونا کچھ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ٹرمپ تو ہچکچا رہے تھے مگر مودی صاحب بے تکلفی پر اترے ہوئے تھے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے سیاستدانوں خصوصاً وزارت خارجہ کا ماتھا ٹھنک جاتا اور اس سلسلے میں وہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے سخت ردعمل کا اظہار کرتے۔ اس سننے اور پی جانے کی پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن بعد امریکی صدر نے اختیار و اقتدار کے نشے میں چور ہوکر پاکستان کے متعلق امریکی پالیسیوں کا اعلان کیا۔

یہ پالیسی یہ ہے کہ پاکستان کا دفاع اب درست کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ شرافت کی زبان نہیں سمجھتا ہم اربوں ڈالر ان کو امداد دیتے ہیں تاکہ وہ دہشت گردوں کا خاتمہ کریں مگر وہ جواباً دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نرسری بنے ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ہندوستان پہلے ہی '' کسی کی نظرکی شے پاکر'' ہماری سرحدوں پر فوجیں لگائے ہوئے ہے اور آئے دن لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادی پر بم باری کر رہا ہے اور آئے دن ہمارے عام شہری ان کے توپ خانوں کی بم باری کا نشانہ بنتے ہیں۔ اب امریکی صدر کا یہ بیان ہندوستان کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی سے کچھ زیادہ ہے۔

یہ موقع تھا کہ امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دیا جاتا مگر ہمارے ارباب حل وعقد کا رویہ وہی روایتی رہا۔ سیلاب کی آمد کے خوف سے ڈیموں کے بند مضبوط کیے جاتے ہیں، جگہ جگہ پیوندکاری کی جاتی ہے اور پھرکہا جاتا ہے کہ سیلاب پر قابو پالیا گیا۔ ہماری سیاسی لیڈرشپ ''پنبہ کجا کجا نہم'' کی مصروفیت میں مبتلا ہوگئی۔ البتہ سینیٹ کے چیئرمین نے جرأت کا مظاہرہ کیا اور سینیٹ میں ہی اپنی ذاتی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہہ دیا کہ ہم جوکچھ قربانیاں افغانستان کے لیے دے سکتے تھے دے چکے۔ امریکا ان کا اعتراف کرنے کے بجائے ہمیں دھمکا رہا ہے اور دہشت گردوں کے پاکستانی سرزمین پر ٹھکانوں کو خود برباد کرنے کی دھمکی دے رہا ہے تو اگر وہ امریکی افواج کا قبرستان ہمارے ملک کو بنانا چاہتا ہے تو ضرور یہ حماقت کرے۔

بعض حلقوں نے سینیٹ کے چیئرمین کی اس ذاتی رائے کو جذباتی قرار دیا ہے ہمارے حکمران بھی سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک معقول جواب دے کر خاموش ہو رہے۔

قوموں کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے ضرور آتے ہیں جب وہ جذباتی ہوجاتے ہیں آخر ہماری قوم کی زندگی میں جذباتی ہونے کا وقت کب آئے گا، کیونکہ مصلحت کیشی آج تک کسی قوم کو بلندی پر لے جانے کا باعث نہیں بنی ہے۔

ہماری اپنی کمزوریوں اور قوم کی نحیف و نزار محبت سے قطع نظر امریکی بھی کوئی تیر نہیں مار سکے۔ امریکا اپنی عسکری تاریخ میں کبھی فتح یاب نہیں ہوا۔ وہ جو تیر مار لیتے ہیں وہ ان کی تکنیکی اور سائنسی برتری کے طفیل ہے ورنہ فوجی اعتبار سے امریکی نہ کوئی بہادر قوم ہے نہ سخت کوشی کے عادی وہ محض اپنی سائنسی برتری کے باعث بلندیوں سے بم برسا سکتے ہیں۔ ہمارے چپہ چپہ اور فرد سے واقف ہوسکتے ہیں مگرکوئی بہادری کا کارنامہ انجام دینا ان کے بس کی بات نہیں۔

سالوں پہلے وہ ویت نام میں شرمناک شکست سے آشنا ہوئے۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کی تلاش میں فوجیں اتاریں، حلیف ملکوں کی مدد، ایک دوسرے کی کمر پکڑے رہے۔ میں مرد نہیں تم مرد ہو کہتے رہے صرف صدام حسین کو پھانسی دے کر اور جنگی جرائم سے داغ دار ہوکر واپس ہوئے اور صرف سوری کہہ کر معاملہ ختم کردیا۔ کیونکہ عراق میں وہ کچھ نکلا ہی نہیں جس کے دعوے تھے۔ البتہ جنگی جرائم اپنے ذمے ضرور لے لیے جن کا حساب باقی ہے۔

افغانستان میں ایک شخص کی تلاش میں فضائی حملے کرتے رہے مگر زمین پر اترنے کی ہمت نہیں کرسکے۔ فضائی اڈوں پر ایک لاکھ اتحادی فوجی تھے اب چند ہزار رہ گئے ہیں۔ کیا یہ تمام شکستیں پاکستان کے کھاتے میں جائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں