روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی 250 سالہ تاریخ
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں جاری ریاستی مظالم کو واضح الفاظ میں روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ قرار دیا گیا ہے
گزشتہ روز برما میں مقیم برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک نامہ نگار جوناتھن ہیڈ کی ایک تحریر آن لائن شائع ہوئی جس میں اُنہوں نے روہنگیا کی سوختگی اور مسلمانوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔ لیکن ستم یہ ہے کہ اِسے پڑھ کر بھی چند دوستوں کا خیال ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ سب درست ہی ہو، پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے۔ ان کی مثبت سوچ اور بند آنکھوں پر جتنا جی جلے، کم ہے۔ اس کا سبب یقیناً روہنگیا اور برما کی تاریخ سے لاعلمی کے سوا کیا ہوسکتا ہے اور اسی کے پیش نظر ہم نے ضرورت محسوس کی کہ روہنگیا مسلمانوں اور برما کی تاریخ مختصراً بیان کی جائے تاکہ موجودہ صورتحال میں روہنگیا مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے ظلم و زیادتی کی تصویر کو وہ درست طور پر سمجھ سکیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ زیرِ نظر تحریر میں سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس، بالخصوص وکی پیڈیا پر موجود مواد سے مدد لی گئی ہے۔
یہ بات اب تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ برما میں بدھ مت کے پیروکاروں کا موقف ہے کہ مسلمان وہاں پر ''غیر ملکی'' ہیں اور انہیں برما سے بالکل ویسے ہی ملک بدر یا ختم کردینا چاہیے جیسے اسپین سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو نکال باہر کیا تھا۔
اسی سوچ کی بناء پر وہاں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان، برما سے ہجرت کرکے بنگلا دیش پہنچ چکے ہیں جبکہ باقی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ اِس پورے تنازعہ کا تاریخی پس منظر ملاحظہ فرمائیے:
برما کا ایک صوبہ ''اراکان'' ہے جہاں خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں مسلمان تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچا۔ مسلمان اِس ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہاں ایک بڑی آبادی نے اسلام قبول کرلیا۔ بتدریج مسلمانوں کی یہ تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ 1430ء میں سلیمان شاہ نے وہاں اسلامی حکومت قائم کرلی۔
ارکان پر تقریباً 350 سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی جس کے دوران وہاں مساجد بنائی گئیں، قرآنی حلقے قائم کئے گئے، مدارس و جامعات کا قیام عمل میں لایا گیا؛ جبکہ اِس کے سکّوں پر 'لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ' کندہ ہوتا تھا۔
برما اسی ملک کا پڑوسی تھا جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں کی یہ حکومت بدھ پرستوں کو شدید ناگوار گزری اور انہوں نے 1784ء میں اراکان پر حملہ کرکے اس ملک کو تاخت و تاراج کردیا؛ اسے برما میں ضم کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ملک کو نیا نام ''میانمار'' دے دیا جو آج تک سرکاری طور پر مقبول چلا آرہا ہے۔ البتہ عوامی حلقوں میں آج بھی یہ برما کے نام ہی سے مشہور ہے۔ غالباً یہ تاریخ میں وہ پہلا موقعہ تھا جب بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے مابین اختلاف اپنی پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا تھا۔
1824ء میں برطانوی سامراج نے برصغیر کے ساتھ ساتھ برما پر بھی قبضہ کرلیا۔ تاہم 100 سال سے زائد کا عرصہ انگریزوں کی غلامی میں گزارنے کے بعد میانمار نے1938ء میں انگریزوں سے خودمختاری حاصل کرلی کیونکہ تب تاجِ برطانیہ کی عالمی گرفت کمزور پڑ رہی تھی اور دوسری جنگِ عظیم شروع ہونے کے آثار بننا شروع ہوگئے تھے۔
میانمار کے آزاد ہوتے ہی وہاں کے بدھ پیروکاروں نے سب سے پہلے وہاں سے مسلمانوں کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کو بڑی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور کردیا۔ نتیجتاً اِس زمانے میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان برما چھوڑنے پر مجبورہوئے جن میں سے لوگوں کی بڑی تعداد موجودہ بنگلا دیش منتقل ہوگئی جبکہ ہزاروں کی تعداد میں برمی مسلمان وہاں سے ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے۔ اِس تاریخی حقیقت کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی آج مکہ کے باشندگان میں سے 25 فیصد وہ برمی مسلمان ہیں جو بیسویں صدی کے اوائل میں اراکان سے ہجرت کرکے وہاں پہنچے تھے۔
1938ء سے لے کر 1950ء تک کا زمانہ برمی مسلمانوں کےلیے شدید ترین آزمائش کا دوسرا دور کہا جاسکتا ہے کیونکہ اِس دوران گاہے بہ گاہے وہاں کے مسلمانوں کو دیگر ممالک کی طرف نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، جو مسلمان کی بناء پر ہجرت نہ کرسکے۔ اُن کی بستیوں کے محاصرے شروع کردیئے گئے اور اسلام کی تبلیغ پر سرکاری پابندی عائد کردی گئی۔
لیکن بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ مسلمانوں کے اوقاف (دینی مدارس سے ملحق زرعی زمینوں) کو مسلمانوں سے چھین کر چراگاہوں میں تبدیل کردیا گیا۔ دوسری جانب میانمار کی فوج نے انتہائی بے رحمی سے نہ صرف مسجدوں کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ مساجد اور مدرسوں کی تعمیر پر پابندی بھی لگادی اور لاؤڈ اسپیکر سے اذان کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔
مسلمانوں کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیلنے کےلیے اُن کے بچوں کو سرکاری درسگاہوں میں داخلہ دینا بند کردیا گیا جبکہ سرکاری و غیر سرکاری، دونوں طرح کی ملازمتوں کےلیے مسلمانوں کو صرف اُن کے عقیدے کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا۔
پاکستانی اسکالر طفیل ہاشمی اِس تنازعے کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''روہنجیا (روہنگیا) مسلمانوں اور میانمار کی اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں روہنجیا نے تحریک چلائی تھی کہ اراکان صوبے کو مجوّزہ پاکستان کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان، اب بنگلا دیش) کا حصّہ بنایا جائے۔ اُس تحریک نے مختلف موقعوں پر تشدّد کا رنگ بھی اختیار کیا تھا۔''
1982ء میں میانمار کی حکومت نے ایک نیا قانون منظور کیا جس کی رُو سے وہاں رہنے والے ہر نسلی گروہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ 1828ء میں برطانوی تسلط سے پہلے یہاں مقیم تھا۔ اور اگر کوئی نسلی گروہ میانمار میں اپنی طویل موجودگی ثابت نہیں کرسکتا تو اسے وہاں کی شہریت سے محروم کردیا جاتا۔ روہنگیا آبادی کے ساتھ متعصبانہ سلوک روا رکھتے ہوئے میانمار کی حکومت نے اُن کے پیش کردہ ثبوت جھٹلا دیئے اور یوں انہیں حقِ شہریت سے بھی محروم کردیا گیا۔
اِس قانون کے بعد سے میانمار کی حکومت روہنگیا آبادی کو این آر سی (National Registration Card) دینے سے انکاری ہے اور اِس کے بجائے انہیں ٹی آر سی (Temporary Registration Card) لینے پر مسلسل مجبور کررہی ہے۔ این آر سی کی جگہ ٹی آر سی کا مطلب یہ ہے کہ روہنگیا آبادی کو میانمار کا مکمل شہری تسلیم نہیں کیا جاتا جبکہ اُس کے نتیجے میں وہ میانمار میں جائیداد کی ملکیت اور ووٹ کے حق سے بھی محروم کیے جاچکے ہیں۔ حکومت کا روہنگیا آبادی سے تقاضا ہے کہ وہ خود کو میانمار کا شہری نہ کہیں بلکہ چٹاگانگ کے بنگالیوں کے طورپر متعارف کرائیں۔
مذکورہ متعصبانہ قانون کی بدولت روہنگیا نسل کے باشندوں کو اپنے ہی وطن میں اجنبی کردیا گیا جبکہ اِس قانون کی دیگر شقوں کا اطلاق کرتے ہوئے اُن کی لڑکیوں کےلیے شادی کی کم از کم عمر 25 سال جبکہ لڑکوں کےلیے 30 سال مقرر کردی گئی۔ اسی قانون میں ایک عجیب و غریب شق کے ذریعے روہنگیا باشندوں کو اِس بات کا پابند بھی بنادیا گیا کہ وہ شادی بیاہ کےلیے سرحدوں پر تعینات فوجی حکام سے اجازت نامہ حاصل کریں۔ نجی اور گھریلو زندگی کے بارے میں بھی خاص روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کےلیے انتہائی سخت اور بے رحمانہ قوانین بنادیئے گئے۔
برما میں مسلمانوں کے حالات ان ہی تمام تاریخی واقعات اور ناانصافیوں کا تسلسل ہیں جو آج سوشل میڈیا کی بدولت زیادہ سامنے آرہے ہیں۔ اِس دوران کچھ اہم واقعات کا تذکرہ ضروری ہے جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ''ہیومن رائٹس واچ'' نے 2013 میں اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جون 2012ء کے اوائل میں دس مسلم مبلغ، مسلم بستیوں میں تبلیغ کی غرض سے گھوم رہے تھے (یعنی صرف مسلمانوں میں تبلیغ کررہے تھے) کہ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے ایک گروہ نے انہیں نرغے میں لے لیا اور مارا پیٹا، ان کے جسموں میں چھریاں گھونپنے لگے، ان کی زبانیں رسیوں سے باندھ کر کھینچ لیں، یہاں تک کہ وہ دس کے دس افراد تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ مسلمانوں نے جب اپنے مبلغوں کے ساتھ یہ سلوک دیکھا تو سراپا احتجاج ہوگئے؛ اور پھر اُن کے ساتھ ایسی درندگی شروع کردی گئی کہ جس کے سامنے درندے بھی شرما جائیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی مذکورہ رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی مظالم کو واضح الفاظ میں ''روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی'' قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ درندہ صفت انسانوں نے (میانمار کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر) مسلمانوں کی ایک بستی مکمل طور پر جلا دی جس میں 800 گھر تھے۔ اِس کے بعد وہ دوسری بستی کی جانب بڑھے جہاں مسلمانوں کے 700 گھر تھے؛ اور اسے بھی جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا۔ اُن کا نشانہ بننے والی اگلی بستی میں 1600 مکانات تھے جنہیں نذرِ آتش کردیا گیا۔
اِس پوری کارروائی کے نتیجے میں 9000 سے زائد روہنگیا افراد اپنی جانیں بچانے کےلیے زمینی اور سمندری راستوں سے بنگلا دیش کی سرحد پر پہنچنا شروع ہوگئے لیکن سیکولرازم کے نشے میں چُور بنگلادیشی حکومت نے بھی انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا۔ اِس کے بعد سے اب تک بدھ مت کے دہشت گردوں نے برمی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ برما میں مسلمانوں کا وجود تک برداشت نہیں کرسکتے۔
اِس سال یعنی اگست 2017 سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا نیا سلسلہ پہلے سے کہیں زیادہ شدت اور خونریزی کے ساتھ شروع ہوچکا ہے لیکن برمی حکومت نے بے حسی اور سفاکی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے متاثرہ علاقوں میں عالمی مبصرین کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا ہے۔ اب تک میانمار کی حکومت نے اپنی فوج کی نگرانی میں صحافیوں کو راکھین (رخائن) میں متاثرہ علاقوں کا دورہ ضرور کروایا ہے لیکن وہاں جانے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اِس دورے کا مقصد اصل صورتِ حال سامنے لانے سے زیادہ یہ تھا کہ سرکاری مؤقف کی تائید حاصل کی جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ راکھین (رخائن) میں مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی نہیں ہورہا بلکہ وہاں مسلمانوں کی بستیوں کو آگ لگانے والے اور مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان خود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ زیرِ نظر تحریر میں سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس، بالخصوص وکی پیڈیا پر موجود مواد سے مدد لی گئی ہے۔
یہ بات اب تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ برما میں بدھ مت کے پیروکاروں کا موقف ہے کہ مسلمان وہاں پر ''غیر ملکی'' ہیں اور انہیں برما سے بالکل ویسے ہی ملک بدر یا ختم کردینا چاہیے جیسے اسپین سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو نکال باہر کیا تھا۔
اسی سوچ کی بناء پر وہاں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان، برما سے ہجرت کرکے بنگلا دیش پہنچ چکے ہیں جبکہ باقی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ اِس پورے تنازعہ کا تاریخی پس منظر ملاحظہ فرمائیے:
برما کا ایک صوبہ ''اراکان'' ہے جہاں خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں مسلمان تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچا۔ مسلمان اِس ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہاں ایک بڑی آبادی نے اسلام قبول کرلیا۔ بتدریج مسلمانوں کی یہ تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ 1430ء میں سلیمان شاہ نے وہاں اسلامی حکومت قائم کرلی۔
ارکان پر تقریباً 350 سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی جس کے دوران وہاں مساجد بنائی گئیں، قرآنی حلقے قائم کئے گئے، مدارس و جامعات کا قیام عمل میں لایا گیا؛ جبکہ اِس کے سکّوں پر 'لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ' کندہ ہوتا تھا۔
برما اسی ملک کا پڑوسی تھا جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں کی یہ حکومت بدھ پرستوں کو شدید ناگوار گزری اور انہوں نے 1784ء میں اراکان پر حملہ کرکے اس ملک کو تاخت و تاراج کردیا؛ اسے برما میں ضم کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ملک کو نیا نام ''میانمار'' دے دیا جو آج تک سرکاری طور پر مقبول چلا آرہا ہے۔ البتہ عوامی حلقوں میں آج بھی یہ برما کے نام ہی سے مشہور ہے۔ غالباً یہ تاریخ میں وہ پہلا موقعہ تھا جب بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے مابین اختلاف اپنی پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا تھا۔
1824ء میں برطانوی سامراج نے برصغیر کے ساتھ ساتھ برما پر بھی قبضہ کرلیا۔ تاہم 100 سال سے زائد کا عرصہ انگریزوں کی غلامی میں گزارنے کے بعد میانمار نے1938ء میں انگریزوں سے خودمختاری حاصل کرلی کیونکہ تب تاجِ برطانیہ کی عالمی گرفت کمزور پڑ رہی تھی اور دوسری جنگِ عظیم شروع ہونے کے آثار بننا شروع ہوگئے تھے۔
میانمار کے آزاد ہوتے ہی وہاں کے بدھ پیروکاروں نے سب سے پہلے وہاں سے مسلمانوں کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کو بڑی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور کردیا۔ نتیجتاً اِس زمانے میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان برما چھوڑنے پر مجبورہوئے جن میں سے لوگوں کی بڑی تعداد موجودہ بنگلا دیش منتقل ہوگئی جبکہ ہزاروں کی تعداد میں برمی مسلمان وہاں سے ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے۔ اِس تاریخی حقیقت کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی آج مکہ کے باشندگان میں سے 25 فیصد وہ برمی مسلمان ہیں جو بیسویں صدی کے اوائل میں اراکان سے ہجرت کرکے وہاں پہنچے تھے۔
1938ء سے لے کر 1950ء تک کا زمانہ برمی مسلمانوں کےلیے شدید ترین آزمائش کا دوسرا دور کہا جاسکتا ہے کیونکہ اِس دوران گاہے بہ گاہے وہاں کے مسلمانوں کو دیگر ممالک کی طرف نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، جو مسلمان کی بناء پر ہجرت نہ کرسکے۔ اُن کی بستیوں کے محاصرے شروع کردیئے گئے اور اسلام کی تبلیغ پر سرکاری پابندی عائد کردی گئی۔
لیکن بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ مسلمانوں کے اوقاف (دینی مدارس سے ملحق زرعی زمینوں) کو مسلمانوں سے چھین کر چراگاہوں میں تبدیل کردیا گیا۔ دوسری جانب میانمار کی فوج نے انتہائی بے رحمی سے نہ صرف مسجدوں کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ مساجد اور مدرسوں کی تعمیر پر پابندی بھی لگادی اور لاؤڈ اسپیکر سے اذان کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔
مسلمانوں کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیلنے کےلیے اُن کے بچوں کو سرکاری درسگاہوں میں داخلہ دینا بند کردیا گیا جبکہ سرکاری و غیر سرکاری، دونوں طرح کی ملازمتوں کےلیے مسلمانوں کو صرف اُن کے عقیدے کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا۔
پاکستانی اسکالر طفیل ہاشمی اِس تنازعے کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''روہنجیا (روہنگیا) مسلمانوں اور میانمار کی اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں روہنجیا نے تحریک چلائی تھی کہ اراکان صوبے کو مجوّزہ پاکستان کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان، اب بنگلا دیش) کا حصّہ بنایا جائے۔ اُس تحریک نے مختلف موقعوں پر تشدّد کا رنگ بھی اختیار کیا تھا۔''
1982ء میں میانمار کی حکومت نے ایک نیا قانون منظور کیا جس کی رُو سے وہاں رہنے والے ہر نسلی گروہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ 1828ء میں برطانوی تسلط سے پہلے یہاں مقیم تھا۔ اور اگر کوئی نسلی گروہ میانمار میں اپنی طویل موجودگی ثابت نہیں کرسکتا تو اسے وہاں کی شہریت سے محروم کردیا جاتا۔ روہنگیا آبادی کے ساتھ متعصبانہ سلوک روا رکھتے ہوئے میانمار کی حکومت نے اُن کے پیش کردہ ثبوت جھٹلا دیئے اور یوں انہیں حقِ شہریت سے بھی محروم کردیا گیا۔
اِس قانون کے بعد سے میانمار کی حکومت روہنگیا آبادی کو این آر سی (National Registration Card) دینے سے انکاری ہے اور اِس کے بجائے انہیں ٹی آر سی (Temporary Registration Card) لینے پر مسلسل مجبور کررہی ہے۔ این آر سی کی جگہ ٹی آر سی کا مطلب یہ ہے کہ روہنگیا آبادی کو میانمار کا مکمل شہری تسلیم نہیں کیا جاتا جبکہ اُس کے نتیجے میں وہ میانمار میں جائیداد کی ملکیت اور ووٹ کے حق سے بھی محروم کیے جاچکے ہیں۔ حکومت کا روہنگیا آبادی سے تقاضا ہے کہ وہ خود کو میانمار کا شہری نہ کہیں بلکہ چٹاگانگ کے بنگالیوں کے طورپر متعارف کرائیں۔
مذکورہ متعصبانہ قانون کی بدولت روہنگیا نسل کے باشندوں کو اپنے ہی وطن میں اجنبی کردیا گیا جبکہ اِس قانون کی دیگر شقوں کا اطلاق کرتے ہوئے اُن کی لڑکیوں کےلیے شادی کی کم از کم عمر 25 سال جبکہ لڑکوں کےلیے 30 سال مقرر کردی گئی۔ اسی قانون میں ایک عجیب و غریب شق کے ذریعے روہنگیا باشندوں کو اِس بات کا پابند بھی بنادیا گیا کہ وہ شادی بیاہ کےلیے سرحدوں پر تعینات فوجی حکام سے اجازت نامہ حاصل کریں۔ نجی اور گھریلو زندگی کے بارے میں بھی خاص روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کےلیے انتہائی سخت اور بے رحمانہ قوانین بنادیئے گئے۔
برما میں مسلمانوں کے حالات ان ہی تمام تاریخی واقعات اور ناانصافیوں کا تسلسل ہیں جو آج سوشل میڈیا کی بدولت زیادہ سامنے آرہے ہیں۔ اِس دوران کچھ اہم واقعات کا تذکرہ ضروری ہے جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ''ہیومن رائٹس واچ'' نے 2013 میں اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جون 2012ء کے اوائل میں دس مسلم مبلغ، مسلم بستیوں میں تبلیغ کی غرض سے گھوم رہے تھے (یعنی صرف مسلمانوں میں تبلیغ کررہے تھے) کہ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے ایک گروہ نے انہیں نرغے میں لے لیا اور مارا پیٹا، ان کے جسموں میں چھریاں گھونپنے لگے، ان کی زبانیں رسیوں سے باندھ کر کھینچ لیں، یہاں تک کہ وہ دس کے دس افراد تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ مسلمانوں نے جب اپنے مبلغوں کے ساتھ یہ سلوک دیکھا تو سراپا احتجاج ہوگئے؛ اور پھر اُن کے ساتھ ایسی درندگی شروع کردی گئی کہ جس کے سامنے درندے بھی شرما جائیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی مذکورہ رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی مظالم کو واضح الفاظ میں ''روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی'' قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ درندہ صفت انسانوں نے (میانمار کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر) مسلمانوں کی ایک بستی مکمل طور پر جلا دی جس میں 800 گھر تھے۔ اِس کے بعد وہ دوسری بستی کی جانب بڑھے جہاں مسلمانوں کے 700 گھر تھے؛ اور اسے بھی جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا۔ اُن کا نشانہ بننے والی اگلی بستی میں 1600 مکانات تھے جنہیں نذرِ آتش کردیا گیا۔
اِس پوری کارروائی کے نتیجے میں 9000 سے زائد روہنگیا افراد اپنی جانیں بچانے کےلیے زمینی اور سمندری راستوں سے بنگلا دیش کی سرحد پر پہنچنا شروع ہوگئے لیکن سیکولرازم کے نشے میں چُور بنگلادیشی حکومت نے بھی انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا۔ اِس کے بعد سے اب تک بدھ مت کے دہشت گردوں نے برمی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ برما میں مسلمانوں کا وجود تک برداشت نہیں کرسکتے۔
اِس سال یعنی اگست 2017 سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا نیا سلسلہ پہلے سے کہیں زیادہ شدت اور خونریزی کے ساتھ شروع ہوچکا ہے لیکن برمی حکومت نے بے حسی اور سفاکی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے متاثرہ علاقوں میں عالمی مبصرین کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا ہے۔ اب تک میانمار کی حکومت نے اپنی فوج کی نگرانی میں صحافیوں کو راکھین (رخائن) میں متاثرہ علاقوں کا دورہ ضرور کروایا ہے لیکن وہاں جانے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اِس دورے کا مقصد اصل صورتِ حال سامنے لانے سے زیادہ یہ تھا کہ سرکاری مؤقف کی تائید حاصل کی جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ راکھین (رخائن) میں مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی نہیں ہورہا بلکہ وہاں مسلمانوں کی بستیوں کو آگ لگانے والے اور مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان خود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔