رنگیلا گرو

دو پیروکار خواتین سے زیادتی کرنے والے ’بابا‘ کی کہانی جو پاپ گلوکار اور اداکار بھی ہے

’گرو‘ کو سزا بھی ایک سکھ جج’ جسٹس جگدیپ سنگھ‘ نے روہتک کی سونیرا جیل میں جاکر سنائی جہاں ’گرو‘ قید ہیں۔ فوٹو : فائل

گزشتہ ہفتے بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر 'روہتک' میں ایک خصوصی عدالت نے ایک سکھ فرقہ کے سربراہ 'گرو گرمیت رام رحیم سنگھ' کو اپنی دو پیروکارخواتین کی عصمت دری کے جرم میں 20سال قید کی سزا سنائی ہے ، فیصلے کے خلاف لاکھوں مریدوں سڑکوں پر نکل آئے ، انھوں نے خوب توڑ پھوڑ کی، جو کچھ نظرآیا، اُسے جلا کے راکھ کردیا۔ حالات اس قدر خراب ہوئے کہ بھارتی سرکار کو ہریانہ کے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔

'گرو' گرمیت پر65 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیاگیا۔ 'گرو' کو سزا بھی ایک سکھ جج' جسٹس جگدیپ سنگھ' نے روہتک کی سونیرا جیل میں جاکر سنائی جہاں 'گرو' قید ہیں۔خرابی حالات کے پیش نظر جج صاحب فیصلہ سنانے کے لئے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے جیل میں پہنچے۔ بھارتی میڈیا کی خبروں کے مطابق فیصلہ سنائے جانے سے قبل 'گرو' نے جج سے دست بستہ درخواست کی کہ انھیں معاف کر دیا جائے جبکہ انکے وکلا نے بھی عدالت سے گزارش کی کہ چونکہ 'گرو' ایک سماجی کارکن ہیں، اس لیے ان کے ساتھ رعایت برتی جائے۔

تاہم مقدمے کی تحقیقات کرنے والے بھارتی ادارے 'سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن' (سی بی آئی) نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ مجرم کوسخت سے سخت سزا سنائے۔ یادرہے کہ بھارت میں ہر سال ریپ کے ہزاروں کیس درج ہوتے ہیں جبکہ ہزاروں واقعات درج ہی نہیں ہوتے۔ بھارت کا شمار دنیا کے ان بدنام ترین ممالک میں ہوتاہے جہاں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح سب سے بلند ہے۔ بھارتی قانون کے مطابق جنسی زیادتی کے معاملے میں کم از کم سات سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ عدالت نے ملزم گرمیت کو زیادتی کے دو الگ الگ مقدمات میں دس، دس سال قید کی سزا سنائی جو الگ الگ تصور کی جائیں گی۔ یوں انھیں 20 سال تک جیل میں رہنا ہوگا۔

بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق 'گرو' جج کے روبرو پیش ہونے کو تیارنہیں تھے جس پر پولیس اہلکاروں کو زبردستی کرنا پڑی۔ جج نے 'گرو' کو جنگلی جانور قراردیتے ہوئے فیصلہ سنایا تو بابا گرمیت زمین پر بیٹھ کر رونے لگے، بعد ازاں انھیں زبردستی وہاں سے اٹھایا گیا۔ فیصلہ کے وقت عدالت کے کمرے میں 'گرو'کے علاوہ دیگر نو افراد بھی موجود تھے۔ واضح رہے کہ 25اگست کو عدالت نے بابا کو جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیا تھا جس کے بعد بھارت کی ریاستوں ہریانہ، پنجاب اور دہلی کے مختلف مقامات پر تشددآمیز واقعات شروع ہوگئے جس میں کم از کم 38 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

'گرو' کو مجرم قراردئیے جانے کے بعد حالات اس قدر کشیدہ ہوئے کہ فوج کو بھی تیار رہنے کا حکم دیدیاگیاتھا، جس جیل میں فیصلہ سنایا جانا تھا، اس سے 10 کلومیٹر دور تک لوگوں کی آمد و رفت بند تھی، صحافیوں کو بھی جیل سے دو کلومیٹر دور ہی روک دیا گیا۔ پولیس نے اس بات کو یقینی بنایاکہ 'گرو' کا کوئی بھی پیروکار ضلع روہتک میں داخل نہ ہو اور جیل کی طرف نہ جا سکے۔جو پیروکار اس ضلع یا شہر میں پہلے ہی سے موجود تھے، انھیں بھی مختلف انداز میں جیل سے دور رکھاگیا۔احتجاج کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کا حکم دیدیاگیاتھا۔ پورے ضلع میں انٹرنیٹ کی سروس معطل کردی گئی حتیٰ کہ بجلی کی سپلائی بھی بند کردی گئی، سکولوں اور کالجز میںبھی دو دن کے لئے چھٹی کردی گئی۔

گرو گرمیت سکھ فرقہ ' ڈیرہ سچا سودا' کے سربراہ ہیں۔ اسے سماجی گروہ بھی قراردیاجاتاہے۔ باقاعدہ این جی او کے طور پر رجسٹرڈ بھی ہے۔ اس کے بانی'بے پرواہ مستانہ بلوچستانی' تھے جو 1960ء تک سربراہی کرتے رہے۔ ان کے جانشین 'شاہ ستنام' تھے۔ گرو گرمیت تیسرے سربراہ تھے جنھوں نے ستمبر1990ء میں اس کی قیادت سنبھالی۔ وہ عجیب و غریب شخصیت کے حامل ہیں۔

بھارت میں موجود مختلف مذہبی شخصیات میں نسبتاً کم عمر ہیں تاہم مقبولیت میں ان سے بہت آگے ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق ان کے پیروکاروں کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے۔ بظاہر وہ مذہبی شخصیت ہیں لیکن ان کے شوق نرالے ہیں، وہ چمک دار کپڑے پہنتے ہیں،چمکیلے زیورات پہنتے ہیں، پاپ گانے گاتے ہیں،'تھینک یو فار دیٹ'،' نیٹ ورک تیرے لَو کا'،'چشمہ یار کا'، انسان'،'لَو رب سے' اور'ہائی وے لَو چارجر'مشہور گانے ہیں۔ اسی لئے انھیں' راک سٹار بابا' بھی کہا جاتاہے۔

گروصاحب فلموں میں اداکاری بھی کرتے ہیں، بالی ووڈ کی مختلف فلموں میں جلوہ گر ہوچکے ہیں جو انھوں نے اپنی دولت ہی سے بنائی ہیں، مثلاً 'میسنجر فرام گاڈ' اور 'دی واریئر۔ لائن ہارٹ' بھی شامل ہیں۔ ' میسنجر فرام گاڈ' نے بڑے پیمانے پر شائقین کو متاثر کیا، اس میں انھوں نے خود کو خلائی مخلوقات، بھوتوں اور ہاتھیوں سے تنہا لڑتے ہوئے اور معاشرے کے مسائل کو اکیلے ہی حل کرتے ہوئے دکھایا۔ ایک فلم پاکستان کے خلاف بھی بنائی۔ ان کی فلموں پر سنسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سنسر بورڈ کے تمام ارکان کا فیصلہ تھا کہ یہ فلم معاشرے میں توہّم پرستی اور مافوق الفطرت نظریات کو فروغ دے گی کیونکہ اس میں 'گرو' کو معجزے کرتے دکھایا گیا ہے۔

سنسر بورڈ کی جانب سے انکار کے بعدانھوں نے عدالت سے رجوع کیا جہاں فلم کی نمائش کی اجازت دیدی گئی۔ عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاجاً مرکزی سنسر بورڈ کی سربراہ لیلیٰ سیمسن اور کئی ارکان نے استعفیٰ دیدیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ فرسودہ مذہبی توہمات پر مشتمل اس فلم کو سینماؤں میں دکھانے کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے پر نہیں رہنا چاہتیں۔ گرو ہیوی بائیکس بھی چلاتے ہیں اور لوگوں سے باقاعدہ خطاب بھی کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیںکہ وہ سبھی مذاہب کا احترام کرتے ہیں، اسی لئے انھوں نے اپنے نام میں 'رام' اور ' رحیم' بھی شامل کررکھے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو 'سماجی کارکن' قراردیتے ہیں، ان کی کچھ سرگرمیاں اس کی عکاس بھی ہیں مثلاً سن2010ء میں اجتماعی شادیوں کی ایک بڑی تقریب منعقد کی جس میں ان کے ایک ہزار مریدوں نے جسم فروش خواتین سے شادی کی۔ اسی طرح انھوں نے صفائی اور خون عطیہ کرنے کے لیے مہمات بھی چلائیں۔


'گرو' 15 اگست 1967 کو ریاست راجستھان کے مودیا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ماں باپ کی اکیلی اولاد تھے۔ بچپن ہی میں 'ڈیرہ سچاسودا' سے منسلک ہوگئے۔ ان کے زیادہ تر پیروکار پنجاب اور ہریانہ میں ہیں۔ انھوں نے اپنے سب بچوں کے نام کے آخر میں' انسان' کا لفظ لگایاہے،' ہنی پریت انسان'،'چرن پریت انسان'،'امرپریت انسان' اور'جسمیت انسان۔' موخرالذکر بیٹے کی شادی بڑی اپوزیشن جماعت کانگرس کے رکن ہرمندر سنگھ جسّی کی بیٹی سے ہوئی۔'گرو' سیاست میں بھی سرگرم رہے۔

سن 2007ء کے ریاستی انتخابات میں گرو اور ان کے پیروکاروں نے پنجاب میں کانگریس کی حمایت کی،2012ء کے انتخابات سے پہلے پنجاب کے کانگریسی وزیراعلیٰ امریندر سنگھ، ان کی اہلیہ پرینیت کور اور بیٹے رینندرسنگھ نے 'گرو' کے ڈیرے پر حاضری دی اور حمایت جاری رکھنے کی درخواست کی۔انھوں نے درخواست قبول کی لیکن کانگریس انتخابات ہار گئی جس کے بعد کانگریسی حلقوں نے 'گرو' کو اہمیت دینا چھوڑ دی۔بعدازاں گرو نے بھی کانگریس سے منہ موڑ لیا۔چنانچہ 2014ء میں ہریانہ میں بی جے پی کی حمایت کی، فروری 2015ء میں دہلی کے ریاستی انتخابات میں بھی بی جے پی کا ساتھ دیا۔

بعض مواقع پر 'گرو صاحب ' متنازع شخصیت بھی ثابت ہوئے۔ مثلاًسن2007 میں گرو صاحب ایک اشتہار میں سکھ مذہب کے بڑی مقدس ہستی'گرو گوبند سنگھ' کے روپ میں ظاہر ہوئے، اس پر سکھوں میں خوب اشتعال پھیلا۔ انھوں نے اسے 'گرو گوبند سنگھ کی توہین' قراردیااور بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے، احتجاج کا سلسلہ 'ڈیرہ سچاسودا' کی طرف سے معافی مانگنے تک جاری رہا۔ سنہ 2015 میں ایک ہندو تنظیم نے 'گرو گرمیت' کے خلاف شکایت درج کرائی جس کے تحت ایک ویڈیو میں 'گرو' نے ہندو بھگوان وشنو کا روپ دھار رکھا تھا۔'گرو' سن 2000 میں ایک صحافی کو قتل کرنے کی سازش کے ایک مقدمہ میں بھی شامل تفتیش ہوئے، سن 2015 میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے چار سو مریدوں کو نس بندی کرانے کی ترغیب دی تاکہ وہ خدا کے قریب ہو سکیں۔ تاہم سن 2002 میں ریپ کے مقدمہ میں پکڑے گئے۔

یادرہے کہ یہ معاملہ ایک خاتون کی طرف سے لکھے گئے ایک خط سے شروع ہوا جو اس نے پنجاب اور ہریانہ کے وزرائے اعلیٰ، دونوں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز، وزیرداخلہ، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے سربراہ کے نام لکھاتھا۔ ہائی کورٹس نے سسرا( جہاں گرو کا ہیڈکوارٹر ہے) کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے رپورٹ طلب کی، ان کی سفارش پر ہائی کورٹس نے سی بی آئی کو حکم دیا کہ وہ مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے۔ سی بی آئی نے 'گرو' کو مجرم قراردیا۔آغاز میں 'گرو' اس مقدمہ کو غلط قراردیتے رہے۔ تاہم بھارتی میڈیا کے مطابق بعدازاں اعتراف کرلیا۔

سادھو اور گرو، جو صنعت کار اور جاگیردار بنے
بھارت میں گروئوں اور سادھوں کی ایک بڑی تعدادموجود ہے، مختلف مسائل، مصائب اور تکالیف کے شکار لوگ ان کے مراکز کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے معتقدین کی تعدادہزاروں اور لاکھوں میں ہے، بعض کے پیروکار بلامبالغہ کروڑوں میں ہیں، جیسا کہ گرو گورمیت رام رحیم سنگھ۔ توہمات کے مارے ہوئے بھارتی معاشرے میں ان گروئوں اور سادھوں کی دکانیں اس کامیابی سے چل رہی ہیں کہ اب وہ مذہبی شخصیت کے ساتھ ہی ساتھ بڑے صنعت کار اور جاگیردار بن چکے ہیں۔ بعض کے اپنے ٹی وی چینل بھی ہیں جہاں وہ روزانہ خطاب کرتے ہیں۔

جب یہ گرو یا سادھو اپنے مراکز سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے سینکڑوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان کی مقبولیت اور اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانے کے لئے انھیں بڑی بڑی زمینیں الاٹ کرتی ہیں، ان کے سماجی منصوبوں اور پروگراموں کے لیے بڑے بڑے چندے سرکاری خزانے سے دیتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کی نظریں ان گروئوں کے کروڑوں مریدوں پر ہوتیہے۔ چنانچہ جب انتخابات کا وقت آتاہے تو وہ سادھوئوں کو عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے خوب استعمال کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی جیت میں کئی سادھوئوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

ایسی ہی چند شخصیات کا تعارف درج ذیل ہے:
٭گروبابا رام دیو دواؤں سے لے کر چاول، تیل، کریم ٹوتھ پیسٹ اور شیمپو تک کی فیکٹری لگا چکے ہیں اور کئی ہزار کروڑ روپوں کا منافع حاصل کررہے ہیں۔

٭بابا آشارام اور ان کے بیٹے بھی کچھ عرصے تک ملک کے انتہائی مقبول سادھوئوں میں تھے، ان کے آشرم اور مراکز شمالی ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ پھر جب ان کا سیاست دانوں سے ٹکرائو ہوا تو وہ کہیں کے نہ رہے۔ اب ان پر ریپ سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات چل رہے ہیں۔

٭پنجاب میں ایک سادھو ایسے بھی ہیں جو مرچکے ہیں لیکن ان کے پیروکار ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں، ان کے خیال میں بابا سو رہے ہیں، جلد بیدار ہوں گے۔ ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ اگر وہ مربھی چکے ہیں تو کوئی بات نہیں، جلد زندہ ہوجائیں گے۔ انھوں نے ان کی لاش کو ممی بنا رکھاہے۔ یہ بابا کئی ہزار کروڑ روپوں کی مالیتی جائیداد کے مالک ہیں۔
Load Next Story