موسمیاتی تغیرات کے عورتوں پر براہ راست اثرات
ماحول کی بہتری کے لیے خواتین پر سرمایہ کاری کی جائے
پاکستان میں قدرتی وسائل کا زیاں اور ماحول کا انحطاط اس بگاڑ تک پہنچ چکا ہے کہ جہاں عام نوعیت کے اقدامات یا اعلانات سے شاید ہی بات بن سکے۔
عالمی بینک کی چند سال پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت ماحول کی تباہی کی قیمت 365 ارب روپے سالانہ (مجموعی جی ڈی پی کا 6 فی صد) ادا کر رہی ہے۔ یعنی ایک ارب روپے روزانہ ! ایک کم زور معیشت کے لیے یہ نقصان کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی معیشت داں کی ضرورت نہیں ہے۔ پانی کی صفائی کے ناقص نظام، پانی کی آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی صورت 112ارب روپے، زرعی شعبے کی بدحالی کی مد میں 70ارب، گھریلو فضائی آلودگی کا نقصان 67 ارب، شہروں میں فضائی آلودگی 65 ارب جب کہ چراگاہوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر تقریباً 7ارب روپے سالانہ ضاؤ ہوتے ہیں۔
یہ وہ نقصان ہے جو ہم اپنی بے پرواہیوں، غفلت اور کم علمی کے باعث برداشت کررہے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ ہمارے اپنے اعمال ہیں جو اب پھل پھول رہے ہیں۔
دنیا بھر کے لیے ماحول اور خصوصاً بدلتے موسم اب ایک ترجیحی مسئلہ بن چکا ہے اور اس کے روک تھام پر کام جاری ہے۔ اگرچہ موسموں کے یہ بدلتے تیور اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے لیکن یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ بدلتے موسم خواتین کے لیے خصوصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ موسم کی تبدیلی کو اگرچہ صرف ماحول کے حوالے سے جوڑا جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ بدلتے موسم صرف ماحول ہی کو نہیں بلکہ دنیا بھر کی معیشت اور سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے زیراثر دنیا کے ہر علاقے کا جغرافیہ، ثقافت، رسوم و رواج، معاشرت اور روایتی ذراؤ روزگار سب بدل کر رہ جاتا ہے۔
انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC)کی رپورٹ کے مطابق بدلتے موسموں کا اثر دنیا کے مختلف حصوں، نسلوں، پیشوں اور مختلف عمر کے افراد پر مختلف ہوتا ہے اور اس کی کوئی نپی تلی پیش گوئی ممکن نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ ماحول کی تبدیلی کے یہ اثرات دنیا کے ہر ملک پر مرتب ہورہے ہیں لیکن زیادہ تباہ کاریاں ترقی پذیر ملکوں کے غریب عوام بھگت رہے ہیں اور وسائل کی غیرمساویانہ تقسیم میں مزید ابتری نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ معاشی خوش حالی، تعلیم، صحت و صفائی اور صاف پانی تک رسائی غریب کے لیے ناممکن ہوجائے گی۔ غربت اور بدحالی ماحول پر شدید بدترین اثرات مرتب کرے گی۔
اگر خواتین اور غربت کا ماحول کے حوالے سے جائزہ لیں تو دنیا کے غریبوں میں خواتین کی تعداد70فی صد ہے۔ ماحولیاتی تغیر کا مرد اور خواتین مختلف انداز سے شکار ہوتے ہیں۔ اس کا انحصار خواتین کی عمر حالات اور ثقافتی اقدار سے ہے، لیکن بدقسمتی سے موسمی تغیرات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے تمام پروگرام ، پالیسیاں خواتین کا خیال اور ان کی شمولیت کے بغیر بنائی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے بہت سے اقدامات ضروری ہیں مثلاً بدلتے موسموں کی مناسبت سے خواتین کی تربیت، مہارت اور وسائل کے استعمال کے حوالے سے ان کے علم میں اضافہ، پالیسی سازی اور فیصلوں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا تاکہ فیصلے زمینی حقائق کی بنیادوں پر ہوں۔
اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا کی فضا کو آلودہ کرنے والی گرین ہائوس گیسیں ترقی یافتہ ممالک کی چمنیوں سے نکلتی ہیں، جب کہ سزا غریب یعنی ترقی پذیر ملکوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اس لیے یہ لازم ہوجاتا ہے کہ خواتین پر ماحول کے بدلتے اثرات کے حوالے سے یہی امیر ممالک ضروری اقدامات کریں اور ایسی حکمت عملیاں مرتب کریں جو خواتین کے لیے صورت حال کچھ بہتر بنا سکیں۔ لیکن پہل کون کرے؟ اور اپنے سر یہ الزام کیوں لے۔
عورت کے خمیر میں پروردگار نے محبت کا عنصر بہت زیادہ شامل کیا ہے۔ وہ محبت کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ محبت چاہے، اس کے ارد گرد موجود اس کے اپنوں سے ہو یا اپنی چیزوں سے ۔ ماحول اور قدرتی وسائل کی حفاظت اور محبت بھی اس کے لیے نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستانی عورت تو خصوصاً اپنے ماحول اور وسائل کے انتظام اور حفاظت میں مرد سے آگے ہے۔ فطرت نے عورت کو کفایت اور سگھڑاپا عطا کیا ہے۔ وہ ان وسائل کو سلیقے اور کفایت سے برتتی ہے۔ اس صنعتی دور کے آغاز سے پہلے قدرتی وسائل کے پیداواری کام میں اور انہیں برتنے میں عورتوں کا زیادہ ہاتھ تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس وقت یہ کرۂ ارض زیادہ محفوظ و مامون تھی۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ خواتین اور قدرتی وسائل لازم و ملزوم ہیں۔ ماحولیاتی انحطاط کا خسارہ زیادہ تر خواتین ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے قدرتی وسائل آلودہ یا کم یاب ہوتے چلے جاتے ہیں، خواتین کے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قدرتی وسائل اور ماحولیاتی انحطاط سے بالواسطہ اور براہ راست خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ماحولیاتی انحطاط کا عمل تیزی سے جاری ہے اور قدرتی وسائل کم یاب ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اس ماحولیاتی انحطاط میں اگرچہ عورت کا اتنا ہاتھ نہیں ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں ماحول اور قدرتی وسائل کے انتظام و انصرام میں عورت کا کردار انتہائی اہم اور واضح ہے۔ وہ ان وسائل کی زیادہ اچھی محافظ ہے۔ یہ وسائل ہماری آئندہ نسلوں کی امانت ہیں لہٰذا ان کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور آنے والی نسلوں کا خیال ایک ''ماں'' ایک عورت سے زیادہ کون رکھ سکتا ہے۔
یہ عورت ہی ہے جس کی صبح مرد سے بہت پہلے اندھیرے میں طلوع ہو جاتی ہے۔ گھر کے تمام کام مثلاً دوردراز دشوارگزار علاقوں سے ندیوں، چشموں اور کنوئوں سے ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا، مویشی چَرانا، پھر ان کا دودھ نکالنے سے دہی اور لسی بلونے تک تمام کام عورت ہی کی ذمے داری ہے۔ گھر بھر کے لیے کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ مویشیوں کے لیے چارے کا انتظام بھی اسی کی ذمے داری ہے۔ پانی صرف پینے کے لیے ہی نہیں بلکہ نہانے، کپڑے دھونے، بچوں اور بڑوں کے استعمال کے لیے پانی لانا اور مویشیوں کو پلانا بھی اسی کا کام ہے۔ گھر کے تمام کاموں کے ساتھ ساتھ کھیتوں کی تمام ہریالی بھی اسی کے محنتی ہاتھوں کی مرہون منت ہے۔ کھیتوں میں کام کے دوران اسے صحت سے متعلق بہت سے خطرات لاحق ہوتے ہیں مثلاً صوبہ سندھ میں کپاس کی فصل کو لیجیے۔
پورے سندھ بھر میں کپاس چننا عورتوں ہی کا کام ہے۔ آپ کو کہیں کوئی مرد کپاس چنتا نظر نہیں آئے گا۔ اس ضمن میں کئی افراد سے پوچھا گیا مگر وہ کوئی خاص وجہ نہ بتا سکے سوائے اس کے کہ یہ رواج ہے اور ہمیشہ کپاس عورتیں ہی چُنتی ہیں۔ رواج سے قطع نظر شاید یہ وہ نازک کام ہے جو عورتوں کے ہاتھوں سے ہی بہتر انجام پا سکتا ہے۔ نرم و نازک ریشم جیسی روئی کو چننے کے لیے ریشم جیسے نازک ہاتھ ہی درکار ہیں۔ (اگرچہ دیہات کے مسائل زدہ، غربت اور بدحالی کے ہاتھوں ستائی عورت کے لیے صنف نازک، ریشم یا ملائم ہاتھوں کی اصطلاحات اس کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے) کیا واقعی مرد خواتین کی کوئی مدد نہیں کرتے؟ ہمارے اس سوال پر بڑا دل چسپ جواب ہمیں موصول ہوا ۔ کہا گیا کہ ''اگر کپاس چوری وغیرہ کروانی ہو تو پھر مردوں کی خدمات ہی حاصل کی جاتی ہیں۔''
خواتین سے کام لینے کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ انتہائی تیزی سے کام کرتی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا کام بہت تیز اور انتہائی مہارت سے انجام پاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کپاس پیدا کرنے والے 9 بڑے اضلاع میں 26 لاکھ عورتیں کپاس چننے کے کام سے وابستہ ہیں لیکن اس ضمن میں ان کے سرگرم کردار سے قطع نظر ان کی محنت کا پورا پھل انہیں نہیں ملتا۔ وہ پورا سال کپاس کی چنائی کا انتظار کرتی ہیں تاکہ چند پیسے کماکر وہ چند اشیائے ضرورت خرید سکیں یا پھر ڈاکٹر سے دوائی لے آئیں۔ ان اشیا کا وہ عام دنوں میں تصور بھی نہیں کر سکتیں مگر افسوس ہیرا پھیری کے باعث انہیں اکثر کم اجرت دی جاتی ہے۔ اس کٹھن کام میں عورتیں اپنا پورا دن تپتی دھوپ میں کھیتوں میں کھڑے کھڑے گزار دیتی ہیں۔ اکثر ان کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں۔ تیز دھوپ ان کی جلد کے لیے عذاب ثابت ہوتی ہے۔ عورتیں چوں کہ دن بھر کھیتوں میں گزارتی ہیں لہٰذا ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
زمین پر پائے جانے والے کیڑے مکوڑے اور وہاں پھرنے والے جانور ان بچوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ کھیتوں پر چھڑکا جانے والا کیڑے مار زہر ہے۔ کپاس چوں کہ غذائی فصل نہیں ہے لہٰذا اس پر اندھادھند زہریلی ادویات چھڑکی جاتی ہیں جس سے نہ صرف بچے بلکہ خواتین کی صحت بھی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازاً ہر سال 20,000 افراد ان زہریلی دوائوں کے باعث لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں 60 تا 80 فی صد خوراک کی پیداوار عورتوں کی ہی مرہون منت ہے بلکہ کھیتوں پر کام کرنے والے مردوں کے آلودہ کپڑے دھونے، ان زہریلی ادویات کے ڈبے اور اوزار کی صفائی بھی عورتیں ہی کرتی ہیں۔ حاملہ خواتین ان دوائوں کے زہریلے اثرات سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ان دوائوں کی آلودگی نہ صرف شکم مادر میں بچے کو متاثر کرتی ہے بلکہ کئی جگہوں پر تو ماں کے دودھ کے آلودہ ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
کہیں کہیں یہ زہریلی ادویات گھروں میں رہنے کے باعث اور بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جہاں کسی بات پر غصہ آیا اور یہ دوا پی کر خود کشی کرلی۔ اس کے علاوہ کہیں ان زہریلی ادویات کو لوگوں نے اپنے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جس عورت کو قتل کرنا ہو اس کا گلا دبا دیا۔ بعد میں زبان پر یہ زہریلی دوا ڈال دی اور مرنے والی پر خودکشی کا الزام لگا دیا۔ تیسری دنیا کی محنت کش خواتین جہاں عدم تحفظ کا شکار ہیں وہاں ان کے کام کرنے کی جگہوں پر پائی جانے والی ماحولیاتی آلودگی بھی ایک بہت بڑا رسک ہے۔ صنعت کاروں اور زمیں داروں پر لازم ہے کہ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ ان غریب محنت کشوں کی صحت اور زندگی کی حفاظت کا بھی خیال رکھیں۔
بدلتے موسم براہ راست عورت کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ جب ندی نالے سوکھ جاتے ہیں تو عورتوں کو پانی کی تلاش میں دور دور تک بھٹکنا پڑتا ہے اور یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ بدین کے علاقے میں عورتوں کو پانی کے حصول کے لیے 4 کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر محسوس کیجیے کہ پانی کے صرف دو مٹکوں کے حصول کے لیے 4 کلومیٹر تک پیدل تپتی دھوپ میں چلنا کس قدر عذاب ناک ہوگا اور پھر جہاں صرف پینے کے پانی کا حصول اس قدر دشوار ہو وہاں نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے پانی کا کیا سوال؟ گویا پانی کی کمی عورت ہی بھگتے گی۔ مرد تو کہیں بھی کسی بھی ندی نالے میں نہا کر آجائے گا۔
اسی طرح جب جس گھر میں دودھ، دہی، مکھن اور شہد وغیرہ کی کمی ہوگی تو عورت ہی کی خوراک متاثر ہوگی۔ مرد تو کہیں باہر کھا کر آجائے گا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنگلات بھی کم ہوتے جائیں گے جس کے باعث ایندھنی لکڑی کا حصول دشوار ترین ہو جائے گا۔ مویشیوں کا چارا نایاب ہوجائے گا اور اس زمین پر عورت کی زندگی اور اجیرن ہو کر رہ جائے گی۔ شہر کی عورت کا کردار اس حوالے سے ہمیں کچھ مختلف اور حوصلہ افزا نظر آتا ہے۔ وہ دیہات کی عورت کے مقابلے میں بہت بہتر ماحول اور قدرے خود مختاری سے زندگی گزارتی ہے، لہٰذا وہ اگر چاہے تو ماحول کی بہتری کے لیے چھوٹے پیمانے پر ہی لیکن اہم کام کرسکتی ہے۔
شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ آلودگی ہے۔ عورت چاہے تو آلودگی سے بچائو کے لیے کام کر سکتی ہے۔ پانی کا کم استعمال، کچرے کا مناسب بندوبست اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے ارد گرد موجود آبی ذخائر کو آلودگی سے بچانے کے لیے اہم کرار ادا کر سکتی ہے۔ گھروں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال ختم کر سکتی ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر گھریلو آسان ٹوٹکے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
شہری عورت ایک بہترین صارف بھی ہے۔ وہ اگر ایک سمجھ دار صارف کا کردار ادا کرے تو ہمارا ماحول بہت سی مشکلات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ مثلاً خریداری کے لیے ٹن پیک اشیا کو مسترد کر دے۔ خریداری کے لیے شاپنگ بیگ کو مسترد کردے اور کپڑے کی تھیلی یا تنکوں کی ٹوکری کا استعمال خود بھی کرے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے ۔ یہ عمل ہمارے ماحول کو ''شاپنگ بیگ'' سے نجات دلا دے گا۔ اپنی اشیائے ضرورت کو اگر تھوڑا سا گھٹا لیں تو اس غریب ملک کی غربت تھوڑی سی کم ہو جائے گی۔ مثلاً اگر آپ کے ہاں چینی کا استعمال دو کلو ہے تو اسے کم کر کے ڈیڑھ کلو کر لیں۔ آپ کے اس اقدام سے کاشت کار کم گنا پیدا کرے گا۔ زمین کو تھوڑا سا آرام مل جائے گا۔ یاد رکھیے کہ آپ کے ہر عمل کے اثرات عالمی سطح تک جا پہنچتے ہیں۔ اس لیے یہ کہہ کر جان مت چھڑائیے کہ اس بگڑے ہوئے سسٹم میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یقین جانیے کہ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں بلکہ آپ ہی سب کچھ کر سکتے ہیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے یعنی 1994 میں موسمی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کی توثیق کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس نے دیگر متعلقہ معاہدوں Protocol کی تصدیق بھی کردی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے بعض اہم اور متعلقہ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا صنف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ مردوعورت پر یکساں ہوتے ہیں تو یہ بالکل غلط خیال ہے۔
اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ Adaptability, Vulnerability اور Mitigation کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو موسم کی تبدیلیوں کے اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت ایسی پالیسی وضح کرنے کو ترجیح دے جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہو کہ عورتوں اور مردوں پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس پالیسی کے عمل میں اگر عورتوں کو بڑے پیمانے پر شامل کیا جائے تو ایسی صورت میں فیصلہ سازی کے لیے جو مواد حاصل ہوگا اس میں ہر مکتب خیال کو موثر نمائندگی حاصل ہوگی اور تبھی شاید کوئی بہتری کی صورت نکل سکے۔ 2017 کا سال گزر رہا ہے، وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل رہا ہے اور مجھ سمیت کروڑوں لوگ انتظار کررہے ہیں کہ یہ سال جاتے جاتے وقت کی کتاب پر کچھ پکے رنگوں کے ان مٹ اور یادگار نقوش چھوڑ جائے۔
عالمی بینک کی چند سال پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت ماحول کی تباہی کی قیمت 365 ارب روپے سالانہ (مجموعی جی ڈی پی کا 6 فی صد) ادا کر رہی ہے۔ یعنی ایک ارب روپے روزانہ ! ایک کم زور معیشت کے لیے یہ نقصان کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی معیشت داں کی ضرورت نہیں ہے۔ پانی کی صفائی کے ناقص نظام، پانی کی آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی صورت 112ارب روپے، زرعی شعبے کی بدحالی کی مد میں 70ارب، گھریلو فضائی آلودگی کا نقصان 67 ارب، شہروں میں فضائی آلودگی 65 ارب جب کہ چراگاہوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر تقریباً 7ارب روپے سالانہ ضاؤ ہوتے ہیں۔
یہ وہ نقصان ہے جو ہم اپنی بے پرواہیوں، غفلت اور کم علمی کے باعث برداشت کررہے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ ہمارے اپنے اعمال ہیں جو اب پھل پھول رہے ہیں۔
دنیا بھر کے لیے ماحول اور خصوصاً بدلتے موسم اب ایک ترجیحی مسئلہ بن چکا ہے اور اس کے روک تھام پر کام جاری ہے۔ اگرچہ موسموں کے یہ بدلتے تیور اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے لیکن یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ بدلتے موسم خواتین کے لیے خصوصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ موسم کی تبدیلی کو اگرچہ صرف ماحول کے حوالے سے جوڑا جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ بدلتے موسم صرف ماحول ہی کو نہیں بلکہ دنیا بھر کی معیشت اور سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے زیراثر دنیا کے ہر علاقے کا جغرافیہ، ثقافت، رسوم و رواج، معاشرت اور روایتی ذراؤ روزگار سب بدل کر رہ جاتا ہے۔
انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC)کی رپورٹ کے مطابق بدلتے موسموں کا اثر دنیا کے مختلف حصوں، نسلوں، پیشوں اور مختلف عمر کے افراد پر مختلف ہوتا ہے اور اس کی کوئی نپی تلی پیش گوئی ممکن نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ ماحول کی تبدیلی کے یہ اثرات دنیا کے ہر ملک پر مرتب ہورہے ہیں لیکن زیادہ تباہ کاریاں ترقی پذیر ملکوں کے غریب عوام بھگت رہے ہیں اور وسائل کی غیرمساویانہ تقسیم میں مزید ابتری نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ معاشی خوش حالی، تعلیم، صحت و صفائی اور صاف پانی تک رسائی غریب کے لیے ناممکن ہوجائے گی۔ غربت اور بدحالی ماحول پر شدید بدترین اثرات مرتب کرے گی۔
اگر خواتین اور غربت کا ماحول کے حوالے سے جائزہ لیں تو دنیا کے غریبوں میں خواتین کی تعداد70فی صد ہے۔ ماحولیاتی تغیر کا مرد اور خواتین مختلف انداز سے شکار ہوتے ہیں۔ اس کا انحصار خواتین کی عمر حالات اور ثقافتی اقدار سے ہے، لیکن بدقسمتی سے موسمی تغیرات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے تمام پروگرام ، پالیسیاں خواتین کا خیال اور ان کی شمولیت کے بغیر بنائی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے بہت سے اقدامات ضروری ہیں مثلاً بدلتے موسموں کی مناسبت سے خواتین کی تربیت، مہارت اور وسائل کے استعمال کے حوالے سے ان کے علم میں اضافہ، پالیسی سازی اور فیصلوں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا تاکہ فیصلے زمینی حقائق کی بنیادوں پر ہوں۔
اب یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا کی فضا کو آلودہ کرنے والی گرین ہائوس گیسیں ترقی یافتہ ممالک کی چمنیوں سے نکلتی ہیں، جب کہ سزا غریب یعنی ترقی پذیر ملکوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اس لیے یہ لازم ہوجاتا ہے کہ خواتین پر ماحول کے بدلتے اثرات کے حوالے سے یہی امیر ممالک ضروری اقدامات کریں اور ایسی حکمت عملیاں مرتب کریں جو خواتین کے لیے صورت حال کچھ بہتر بنا سکیں۔ لیکن پہل کون کرے؟ اور اپنے سر یہ الزام کیوں لے۔
عورت کے خمیر میں پروردگار نے محبت کا عنصر بہت زیادہ شامل کیا ہے۔ وہ محبت کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ محبت چاہے، اس کے ارد گرد موجود اس کے اپنوں سے ہو یا اپنی چیزوں سے ۔ ماحول اور قدرتی وسائل کی حفاظت اور محبت بھی اس کے لیے نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستانی عورت تو خصوصاً اپنے ماحول اور وسائل کے انتظام اور حفاظت میں مرد سے آگے ہے۔ فطرت نے عورت کو کفایت اور سگھڑاپا عطا کیا ہے۔ وہ ان وسائل کو سلیقے اور کفایت سے برتتی ہے۔ اس صنعتی دور کے آغاز سے پہلے قدرتی وسائل کے پیداواری کام میں اور انہیں برتنے میں عورتوں کا زیادہ ہاتھ تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس وقت یہ کرۂ ارض زیادہ محفوظ و مامون تھی۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ خواتین اور قدرتی وسائل لازم و ملزوم ہیں۔ ماحولیاتی انحطاط کا خسارہ زیادہ تر خواتین ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے قدرتی وسائل آلودہ یا کم یاب ہوتے چلے جاتے ہیں، خواتین کے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قدرتی وسائل اور ماحولیاتی انحطاط سے بالواسطہ اور براہ راست خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ماحولیاتی انحطاط کا عمل تیزی سے جاری ہے اور قدرتی وسائل کم یاب ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اس ماحولیاتی انحطاط میں اگرچہ عورت کا اتنا ہاتھ نہیں ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں ماحول اور قدرتی وسائل کے انتظام و انصرام میں عورت کا کردار انتہائی اہم اور واضح ہے۔ وہ ان وسائل کی زیادہ اچھی محافظ ہے۔ یہ وسائل ہماری آئندہ نسلوں کی امانت ہیں لہٰذا ان کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور آنے والی نسلوں کا خیال ایک ''ماں'' ایک عورت سے زیادہ کون رکھ سکتا ہے۔
یہ عورت ہی ہے جس کی صبح مرد سے بہت پہلے اندھیرے میں طلوع ہو جاتی ہے۔ گھر کے تمام کام مثلاً دوردراز دشوارگزار علاقوں سے ندیوں، چشموں اور کنوئوں سے ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا، مویشی چَرانا، پھر ان کا دودھ نکالنے سے دہی اور لسی بلونے تک تمام کام عورت ہی کی ذمے داری ہے۔ گھر بھر کے لیے کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ مویشیوں کے لیے چارے کا انتظام بھی اسی کی ذمے داری ہے۔ پانی صرف پینے کے لیے ہی نہیں بلکہ نہانے، کپڑے دھونے، بچوں اور بڑوں کے استعمال کے لیے پانی لانا اور مویشیوں کو پلانا بھی اسی کا کام ہے۔ گھر کے تمام کاموں کے ساتھ ساتھ کھیتوں کی تمام ہریالی بھی اسی کے محنتی ہاتھوں کی مرہون منت ہے۔ کھیتوں میں کام کے دوران اسے صحت سے متعلق بہت سے خطرات لاحق ہوتے ہیں مثلاً صوبہ سندھ میں کپاس کی فصل کو لیجیے۔
پورے سندھ بھر میں کپاس چننا عورتوں ہی کا کام ہے۔ آپ کو کہیں کوئی مرد کپاس چنتا نظر نہیں آئے گا۔ اس ضمن میں کئی افراد سے پوچھا گیا مگر وہ کوئی خاص وجہ نہ بتا سکے سوائے اس کے کہ یہ رواج ہے اور ہمیشہ کپاس عورتیں ہی چُنتی ہیں۔ رواج سے قطع نظر شاید یہ وہ نازک کام ہے جو عورتوں کے ہاتھوں سے ہی بہتر انجام پا سکتا ہے۔ نرم و نازک ریشم جیسی روئی کو چننے کے لیے ریشم جیسے نازک ہاتھ ہی درکار ہیں۔ (اگرچہ دیہات کے مسائل زدہ، غربت اور بدحالی کے ہاتھوں ستائی عورت کے لیے صنف نازک، ریشم یا ملائم ہاتھوں کی اصطلاحات اس کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے) کیا واقعی مرد خواتین کی کوئی مدد نہیں کرتے؟ ہمارے اس سوال پر بڑا دل چسپ جواب ہمیں موصول ہوا ۔ کہا گیا کہ ''اگر کپاس چوری وغیرہ کروانی ہو تو پھر مردوں کی خدمات ہی حاصل کی جاتی ہیں۔''
خواتین سے کام لینے کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ انتہائی تیزی سے کام کرتی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا کام بہت تیز اور انتہائی مہارت سے انجام پاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کپاس پیدا کرنے والے 9 بڑے اضلاع میں 26 لاکھ عورتیں کپاس چننے کے کام سے وابستہ ہیں لیکن اس ضمن میں ان کے سرگرم کردار سے قطع نظر ان کی محنت کا پورا پھل انہیں نہیں ملتا۔ وہ پورا سال کپاس کی چنائی کا انتظار کرتی ہیں تاکہ چند پیسے کماکر وہ چند اشیائے ضرورت خرید سکیں یا پھر ڈاکٹر سے دوائی لے آئیں۔ ان اشیا کا وہ عام دنوں میں تصور بھی نہیں کر سکتیں مگر افسوس ہیرا پھیری کے باعث انہیں اکثر کم اجرت دی جاتی ہے۔ اس کٹھن کام میں عورتیں اپنا پورا دن تپتی دھوپ میں کھیتوں میں کھڑے کھڑے گزار دیتی ہیں۔ اکثر ان کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں۔ تیز دھوپ ان کی جلد کے لیے عذاب ثابت ہوتی ہے۔ عورتیں چوں کہ دن بھر کھیتوں میں گزارتی ہیں لہٰذا ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
زمین پر پائے جانے والے کیڑے مکوڑے اور وہاں پھرنے والے جانور ان بچوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ کھیتوں پر چھڑکا جانے والا کیڑے مار زہر ہے۔ کپاس چوں کہ غذائی فصل نہیں ہے لہٰذا اس پر اندھادھند زہریلی ادویات چھڑکی جاتی ہیں جس سے نہ صرف بچے بلکہ خواتین کی صحت بھی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازاً ہر سال 20,000 افراد ان زہریلی دوائوں کے باعث لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں 60 تا 80 فی صد خوراک کی پیداوار عورتوں کی ہی مرہون منت ہے بلکہ کھیتوں پر کام کرنے والے مردوں کے آلودہ کپڑے دھونے، ان زہریلی ادویات کے ڈبے اور اوزار کی صفائی بھی عورتیں ہی کرتی ہیں۔ حاملہ خواتین ان دوائوں کے زہریلے اثرات سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ان دوائوں کی آلودگی نہ صرف شکم مادر میں بچے کو متاثر کرتی ہے بلکہ کئی جگہوں پر تو ماں کے دودھ کے آلودہ ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔
کہیں کہیں یہ زہریلی ادویات گھروں میں رہنے کے باعث اور بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جہاں کسی بات پر غصہ آیا اور یہ دوا پی کر خود کشی کرلی۔ اس کے علاوہ کہیں ان زہریلی ادویات کو لوگوں نے اپنے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جس عورت کو قتل کرنا ہو اس کا گلا دبا دیا۔ بعد میں زبان پر یہ زہریلی دوا ڈال دی اور مرنے والی پر خودکشی کا الزام لگا دیا۔ تیسری دنیا کی محنت کش خواتین جہاں عدم تحفظ کا شکار ہیں وہاں ان کے کام کرنے کی جگہوں پر پائی جانے والی ماحولیاتی آلودگی بھی ایک بہت بڑا رسک ہے۔ صنعت کاروں اور زمیں داروں پر لازم ہے کہ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ ان غریب محنت کشوں کی صحت اور زندگی کی حفاظت کا بھی خیال رکھیں۔
بدلتے موسم براہ راست عورت کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ جب ندی نالے سوکھ جاتے ہیں تو عورتوں کو پانی کی تلاش میں دور دور تک بھٹکنا پڑتا ہے اور یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ بدین کے علاقے میں عورتوں کو پانی کے حصول کے لیے 4 کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر محسوس کیجیے کہ پانی کے صرف دو مٹکوں کے حصول کے لیے 4 کلومیٹر تک پیدل تپتی دھوپ میں چلنا کس قدر عذاب ناک ہوگا اور پھر جہاں صرف پینے کے پانی کا حصول اس قدر دشوار ہو وہاں نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے پانی کا کیا سوال؟ گویا پانی کی کمی عورت ہی بھگتے گی۔ مرد تو کہیں بھی کسی بھی ندی نالے میں نہا کر آجائے گا۔
اسی طرح جب جس گھر میں دودھ، دہی، مکھن اور شہد وغیرہ کی کمی ہوگی تو عورت ہی کی خوراک متاثر ہوگی۔ مرد تو کہیں باہر کھا کر آجائے گا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنگلات بھی کم ہوتے جائیں گے جس کے باعث ایندھنی لکڑی کا حصول دشوار ترین ہو جائے گا۔ مویشیوں کا چارا نایاب ہوجائے گا اور اس زمین پر عورت کی زندگی اور اجیرن ہو کر رہ جائے گی۔ شہر کی عورت کا کردار اس حوالے سے ہمیں کچھ مختلف اور حوصلہ افزا نظر آتا ہے۔ وہ دیہات کی عورت کے مقابلے میں بہت بہتر ماحول اور قدرے خود مختاری سے زندگی گزارتی ہے، لہٰذا وہ اگر چاہے تو ماحول کی بہتری کے لیے چھوٹے پیمانے پر ہی لیکن اہم کام کرسکتی ہے۔
شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ آلودگی ہے۔ عورت چاہے تو آلودگی سے بچائو کے لیے کام کر سکتی ہے۔ پانی کا کم استعمال، کچرے کا مناسب بندوبست اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے ارد گرد موجود آبی ذخائر کو آلودگی سے بچانے کے لیے اہم کرار ادا کر سکتی ہے۔ گھروں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال ختم کر سکتی ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر گھریلو آسان ٹوٹکے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
شہری عورت ایک بہترین صارف بھی ہے۔ وہ اگر ایک سمجھ دار صارف کا کردار ادا کرے تو ہمارا ماحول بہت سی مشکلات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ مثلاً خریداری کے لیے ٹن پیک اشیا کو مسترد کر دے۔ خریداری کے لیے شاپنگ بیگ کو مسترد کردے اور کپڑے کی تھیلی یا تنکوں کی ٹوکری کا استعمال خود بھی کرے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے ۔ یہ عمل ہمارے ماحول کو ''شاپنگ بیگ'' سے نجات دلا دے گا۔ اپنی اشیائے ضرورت کو اگر تھوڑا سا گھٹا لیں تو اس غریب ملک کی غربت تھوڑی سی کم ہو جائے گی۔ مثلاً اگر آپ کے ہاں چینی کا استعمال دو کلو ہے تو اسے کم کر کے ڈیڑھ کلو کر لیں۔ آپ کے اس اقدام سے کاشت کار کم گنا پیدا کرے گا۔ زمین کو تھوڑا سا آرام مل جائے گا۔ یاد رکھیے کہ آپ کے ہر عمل کے اثرات عالمی سطح تک جا پہنچتے ہیں۔ اس لیے یہ کہہ کر جان مت چھڑائیے کہ اس بگڑے ہوئے سسٹم میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یقین جانیے کہ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں بلکہ آپ ہی سب کچھ کر سکتے ہیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے یعنی 1994 میں موسمی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کی توثیق کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس نے دیگر متعلقہ معاہدوں Protocol کی تصدیق بھی کردی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے بعض اہم اور متعلقہ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا صنف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ مردوعورت پر یکساں ہوتے ہیں تو یہ بالکل غلط خیال ہے۔
اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ Adaptability, Vulnerability اور Mitigation کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو موسم کی تبدیلیوں کے اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت ایسی پالیسی وضح کرنے کو ترجیح دے جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہو کہ عورتوں اور مردوں پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس پالیسی کے عمل میں اگر عورتوں کو بڑے پیمانے پر شامل کیا جائے تو ایسی صورت میں فیصلہ سازی کے لیے جو مواد حاصل ہوگا اس میں ہر مکتب خیال کو موثر نمائندگی حاصل ہوگی اور تبھی شاید کوئی بہتری کی صورت نکل سکے۔ 2017 کا سال گزر رہا ہے، وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسل رہا ہے اور مجھ سمیت کروڑوں لوگ انتظار کررہے ہیں کہ یہ سال جاتے جاتے وقت کی کتاب پر کچھ پکے رنگوں کے ان مٹ اور یادگار نقوش چھوڑ جائے۔