بغاوت کے بعد کا ترکی

دنیائے اسلام کے ایک اہم ملک کی تاریخ میں جنم لینے والے انقلاب ساز سیاسی و معاشرتی واقعات کی دلچسپ وسبق آموز داستان

امریکا میں مقیم 76 سالہ اسلامی رہنماء فتح اللہ گولن کا اصرار ہے کہ ترک فوجی بغاوت میں ان کا کوئی کردارنہیں۔ فوٹو: نیٹ

KARACHI:
آج سے ایک سال پہلے 15 جولائی 2016ء کی بات ہے۔

رات کا وقت ہے، برادر اسلامی ملک ترکی کے شہروں میں لوگ دن بھر کام کاج کرنے کے بعد سیرو تفریح کی خاطر باہر نکلے ہوئے ہیں۔ کوئی مزے دار کھانوں سے لطف اندوز ہورہا ہے تو کوئی فلم سے لطف اٹھاتا ہے۔ اچانک معمول کی شہری زندگی میں زلزلہ سا آگیا۔ استنبول کی سڑکوں پر فوجی گاڑیاں نمودار ہوئیں اور فوجیوں نے بحیرہ اسود پر واقع باسفورس اور سلطان محمد کے پل بند کرادیئے۔ادھر دارالحکومت انقرہ کی فضا میں جنگی طیارے پرواز کرنے لگے۔ انٹرنیٹ سروس بند ہوگئی اور کئی شہروں میں راہیں مسدود۔ خاصی دیر تک ترک عوام کو سمجھ نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے۔

آخر میڈیا نے منکشف کیا کہ ترک فوج کے ایک دھڑے نے طیب اردوغان حکومت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ جلد ہی وفادار اور باغی فوجیوں کے مابین لڑائی شروع ہوگئی۔ وزیراعظم اردوغان ایک تفریحی مقام پر چھٹیاں منارہے تھے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ باغیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں کیونکہ ''عوامی طاقت کے سامنے دنیا کی کوئی قوت نہیں ٹھہرسکتی۔''

اردوغان کی اپیل پر انقرہ اور استنبول میں ہزارہا مردوزن سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے جان کی پروا کیے بغیر بہادری سے ٹینکوں پر سوار مسلح باغیوں کا سامنا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے حق میں عوام کا زبردست جوش و جذبہ دیکھ کر ہی باغی فوج کے حوصلے پست ہوگئے۔ اس نے کچھ مزاحمت کے بعد ہتھیار ڈال دیئے۔ یوں عالم اسلام کی ایک اہم مملکت ،ترکی کی تاریخ کا ایک ہیجان انگیز باب اختتام کو پہنچا۔

اس عسکری بغاوت کے دوران باغی فوج کے تقریباً ایک سو فوجی مارے گئے جبکہ وفادار فوج کے چھ فوجی اور پولیس کے 62 سپاہی بھی مختلف مقامات پر لڑائیوں میں ہلاک ہوئے۔ ان لڑائیوں میں ترک عوام نے بھی حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے، 179 شہری بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دوہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

بغاوت کے فوراً بعد ترک وزیراعظم نے بغاوت کا سرغنہ ترکی کے مشہور عالم دین، فتح اللہ گولن کو قرار دیا جو پچھلے انیس برس سے امریکا میں مقیم ہیں۔ یہ ایک حیرت انگیز الزام تھا۔ وجہ یہ کہ طیب اردوغان اور فتح اللہ گولن، دونوں ترکی میں چوٹی کے اسلام پسند لیڈر جانے مانے جاتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے شانہ بشانہ اسلام مخالف قوتوں کا مقابلہ کیا تھا۔ پھر کیا وجوہ ہیں کہ ترکی میں اسلام کو سربلند کرنے کی تمنا رکھنے والے دونوں بڑے رہنما ایک دوسرے کے مخالف بن گئے؟



امریکی میڈیا کی بھر پور کوشش رہی ہے کہ فتح اللہ گولن کو ترکی کی ناکام بغاوت کا سرغنہ نہ ٹھہرایا جائے۔ مگر ترک میڈیا گولن ہی کو بغاوت کا موجب ٹھہراتا ہے۔ دراصل باغی فوج کا ہیڈکوارٹر اکینچی ایئربیس پر واقع تھا۔ (یہ انقرہ کے شمال مغرب میں واقع ہے) بعداز بغاوت ایئربیس سے کئی سول و ملٹری افراد پکڑے گئے۔ ان میں بیشتر فتح اللہ گولن کی تحریک کے رکن تھے۔

اس عسکری بغاوت کا سربراہ، عادل اور کسوز گولن تحریک سے وابستہ تھا۔ وہ آرابازاری شہر میں واقع، سکاریا یونیورسٹی میں پروفیسر اسلامیات تھا۔ بغاوت سے قبل باغی جرنیلوں کی جو میٹنگ ہوئی تھی، اس کی صدارت پروفیسر عادل کے سپرد تھی۔ بغاوت کے بعد وہ پُراسرار طور پر گمشدہ ہوگیا۔ خیال ہے کہ وہ امریکا فرار ہوچکا ہے۔

دوران بغاوت باغی فوجیوں نے ترک افواج کے چیف آف جنرل سٹاف، جنرل خلوصی آکار کو گرفتار کرلیا تھا۔ بغاوت کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر ان پر تشدد بھی کیا گیا۔ بعدازاں جنرل خلوصی نے اپنے تحریری بیان میں انکشاف کیا کہ ایک باغی جرنیل نے انہیں فتح اللہ گولن سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی پیش کش کی تھی۔ جنرل خلوصی کو گرفتار کروانے میں ان کے ایڈی کانگ (Aide-De-Camp) نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اس نے بعدازاں اعتراف کیا کہ وہ تحریک گولن سے وابستہ ہے۔

امریکا میں مقیم 76 سالہ اسلامی رہنماء فتح اللہ گولن کا اصرار ہے کہ ترک فوجی بغاوت میں ان کا کوئی کردارنہیں۔ لیکن حقائق اور شہادتیں اس امر کا ثبوت ہے کہ بغاوت میں تحریک گولن سے منسلک شہریوں اور فوجی افسروں نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجوہ ہیں جن کی بنا پر تحریک گولن سے وابستہ سول و عسکری لیڈروں کو بغاوت جیسا نہایت خطرناک اور بڑا قدم اٹھانا پڑا۔ یہ وجوہ ترکی کے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی حالات میں پوشیدہ ہیں جنہیں جاننے و سمجھنے کی خاطر ہمیں ترک تاریخ کا مختصراً جائزہ لینا ہوگا۔

قابل رشک ماضی
تیرہویں صدی کے اواخر کی بات ہے کہ اوغوز ترک قبیلے نے ترکی میں عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ قرون وسطی میں یہ دنیا کی سپرپاور بن گئی۔تب یورپ کی سبھی طاقتیں اس کے سامنے سرنگوں تھیں جیسے آج امریکا عالم اسلام کا مائی باپ بنا ہوا ہے۔ عثمانی ترکوں نے یورپ کے کئی علاقے فتح کرلیے۔ اگر 1532 میں آسٹریائی سلطنت کا دارالحکومت، ویانا ہاتھ آجاتا تو عین ممکن تھا کہ پورے یورپ میں عثمانی ترکوں کا پھریرا لہرانے لگتا۔

اوائل میں عثمانی ترک سلطان نام کے مسلمان تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ علمائے دین اور صوفیائے کرام کی تبلیغ سے وہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوئے بلکہ ان پر عمل بھی کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ اسلام سلطنت کا مذہب بن گیا اور خاص طور پر عوام دینی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کرنے لگے۔

نااہلی، عیش و عشرت اور کرپشن کے باعث آخر سلطنت عثمانیہ زوال کا شکار ہوگئی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں پہلی جنگ عظیم چھڑی، تو عثمانی سلطان نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا اور دونوں ممالک شکست کھا بیٹھے۔ بعدازاں برطانیہ، فرانس، اٹلی، یونان وغیرہ نے بچی کھچی عثمانیہ سلطنت کے حصے بخرے کرلیے۔

اس ہیجان خیز دور میں ترک فوج کے ایک جرنیل، مصطفیٰ کمال پاشا نے ترک قوم پرستی کا نعرہ بلند کردیا۔ اس نے پہلے آمریت (عثمانی بادشاہت) اور پھر مذہب (اسلام) کو ترکی کے زوال کا ذمے دار قراردیا۔ یہی وجہ ہے جب مصطفیٰ کمال پاشا برسراقتدار آیا، تو وہ بادشاہت اور مذہب، دونوں کو ترک حکومت و معاشرے سے جلاوطن کرنے کی کوشش کرنے لگا۔



اسلام پسند مورخین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ مصطفیٰ کمال پاشا المعروف بہ اتاترک خفیہ یہودی تھا۔ اسی لیے اس نے ترکی سے اسلام کا نام و نشان مٹانے کی خاطر باقاعدہ منصوبہ بندی کررکھی تھی۔ واللّہ اعلم کہ یہ بات درست ہے یا غلط مگر حقائق سے بھی عیاں ہے کہ اتاترک نے حکومت سنبھالتے ہی کئی اسلام مخالف اقدامات کیے۔ انہی کے باعث خاص طور پر شہروں میں ترک تہذیب و ثقافت پر مغربی اقدار و روایات کا رنگ غالب آگیا۔

احیائے اسلام کی کوششیں
جب اتاترک کی حکومت تھی، تو پورے ترکی میں انہی کا طوطی بول رہا تھا ۔مگر بعض مقامات پر انہیں اسلام پسند لیڈروں کی شدید مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان اسلامی رہنمائوں میں کرد عالم دین اور صوفی سعید نورسی (1877ء۔ 1969ء) سب سے نمایاں تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور خطبوں کے ذریعے ترک معاشرے میں اسلام کو زندہ رکھا۔ ان کے خیالات و نظریات سے ترک دیہی معاشرہ زیادہ متاثر ہوا۔

قدامت پسند اسلامی رہنما ہونے کے باوجود سعید نورسی اجتہاد اور جدت پسندی کے قائل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مسلمان کو دنیاوی اور دینی، دونوں لحاظ سے کامل ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے، انہوں نے اپنی تعلیمات میں بظاہر مغربی تصورات... جمہوریت اور قوم پسندی کے بعض مثبت عناصر کو بھی سمولیا۔ ان کی تمنا تھی کہ ایک مسلمان اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و حالات سے بھی باخبر اور باشعور انسان ہو۔

مصطفیٰ کمال پاشا کی مذہب بلکہ اسلام مخالف مہم نے بہرحال ترک معاشرے کو تقسیم کرکے رکھ دیا۔ ایک طرف خصوصاً شہروں میں مقیم حکمران اور اشرافیہ (ایلیٹ) طبقوں نے جنم لیا جو مغربی رسوم و روایات پر عمل پیرا ہونا چاہتے تھے۔ان کی تمنا تھی کہ اسلام حکومتی نظام کا حصہ نہ بنے اور محض شخصی زندگی تک محدود رہے۔ترکی میں اس نظریے کے حامی مسلمان ''سیکولر''کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف عوام تھے جواب بھی اپنے دین سے لگائو اور امت مسلمہ کی طرف جھکائو رکھتے تھے۔ 1938ء میں اتاترک چل بسے۔

نئے ترک حکمران مرحوم کے مانند کٹر اسلام دشمن نہیں تھے مگر اب مغرب کی پروردہ ترک فوج کمالی نظریات کی محافظ بن گئی۔ ترک جرنیل حکومت میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں چاہتے تھے۔ البتہ ترک شہریوں کو اسلامی رسومات ادا کرنے کی آزادی و اجازت مل گئی۔ کمالی آمریت سے چھٹکارا ملا، تو ترک میں احیائے اسلام کی ہوا چل پڑی اور ترک معاشرے میں کئی اسلامی اقتدار دوبارہ جگہ بنانے لگیں۔



سعید نورسی خوش قسمت رہے کہ انہوں نے زندگی ہی میں احیائے اسلام کی اپنی جدوجہد کو برگ و بار لاتے دیکھ لیا۔ 1950ء میں پہلی بار کثیر جماعتی الیکشن ہوا جو عدنان میندریس کی پارٹی نے جیت لیا۔ عدنان ایک مذہبی زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اذان کے الفاظ ترک سے دوبارہ عربی زبان میں تبدیل کردیں گے۔ نیز ہزارہا مساجد اور مدارس کھولنے کی نوید بھی سنائی جنہیں اتاترک حکومت نے زبردستی بند کردیا تھا۔

دیہی عوام نے جوق در جوق عدنان میندرس کو ووٹ دیا۔ انہوں نے بھی وزیراعظم منتخب ہوکر اپنے بیشتر وعدے پورے کیے اور ملک و قوم کو خوشحالی و ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے اصلاحات کا پروگرام متعارف کرایا۔ سعید نورسی حکومتی اقدامات سے بہت خوش ہوئے اور اس کے طرف دار بن گئے۔ لیکن میندرس حکومت کے اسلام پسند اقدامات نے فوج اور سول ایلیٹ طبقے کو متوحش کردیا جو حکومتی نظام میں مذہب کا کوئی کردار نہیں چاہتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں اپنی طاقت اور اثرو رسوخ ختم ہوتا محسوس ہونے لگا۔

یہی وجہ ہے کہ ترک معاشرے میں سب سے طاقتور اسلام پسند رہنما،سعید نورسی کی وفات کے صرف ڈھائی دو ماہ بعد 27 مئی 1960ء کو فوج نے میندریس حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ان پر ''ترک آئین سے بغاوت'' کرنے کا مقدمہ چلا اور اگلے سال عوام دوست وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ ترک تاریخ کا نہایت افسوسناک اور لرزہ خیز واقعہ ہے۔

اب ترک فوج سیکولر حکومت اور آئین کی سرپرست بن گئی۔ جرنیلوں نے نیا آئین تیار کرایا جسے دھاندلی کے ذریعے جولائی 1961ء میں بذریعہ ریفرنڈم منظور کرالیا گیا۔ یہ آئین 1982ء تک برقرار رہا۔ اسی سال ترک فوج نے نیا آئین وضع کیا جو اب تک چلا آرہا ہے، گو اس میں اٹھارہ ترمیمیں انجام پاچکیں۔

دو نئی اسلامی تحریکیں

سعید نورسی کی وفات کے بعد ان کی ''تحریک نور'' سے دو نمایاں مگر مختلف تحریکوں نے جنم لیا۔ ایک تحریک کے قائد نجم الدین اربکان (1926ء۔ 2011ء) تھے۔ ترکی میں اربکان پہلے سیاست داں ہیں جنہوں نے ''سیاسی اسلام'' کا تصور پیش کیا۔ وہ الیکشن جیت کر اور حکومت بناکر اپنے دیس میں اسلام کا بول بالا کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ آخری سانس تک معاصرین کے خلاف سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے 1969ء میں ایک اسلامی سیاسی منشور ''ملی جوروش'' پیش کیا تاکہ ترکی میں احیائے اسلام ہوسکے۔ اس منشور کی بنیاد پر چلنے والی تحریک بھی ملی جوروش کہلائی۔ جدید ترکی میں سیاست میں اسلام کو متعارف کروانے میں نجم الدین اربکان کا سب سے بڑا کردار ہے جو سعید نورسی کے نظریات سے متاثر تھے۔

دوسری تحریک کے قائد فتح اللہ گولن(1941ء۔) تھے۔ انہوں نے اپنے نظریات و خیالات کے ذریعے مسلمانوں کی اخلاقیات اور دینی و دنیاوی طور پر زیادہ زور دیا۔ گولن ہر مسلمان کو اعلیٰ کردار کا مالک بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ دنیا و آخرت میں بلند مقام حاصل کرسکے۔ گولن کے نزدیک روحانیت یا تصّوف اسلام کا ایک باطنی یا اندرونی بُعد (ڈائمینشن) ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ انسانیت اور قوم کی خدمت کرے۔ اسی لیے گولن کی تنظیم ''تحریک خدمت'' بھی کہلاتی ہے۔



یہ دونوں تحریکیں وقت کے ساتھ ساتھ پھلتی پھولتی رہیں۔ پہلے طویل جدوجہد کے بعد اربکان کو کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ وہ جو سیاسی جماعت قائم کرتے، حکومت وقت اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی لگادیتی۔ ان کی قائم کردہ پارٹیوں میں ملی نظام پارٹی (1970ء)، ملی سلامت پارٹی (1972ء)، رفاہ پارٹی (1983ء) اور سعادت پارٹی (2001ء) نمایاں ہیں۔

اسلامی نظریات رکھنے کے باعث اربکان فوج اور ایلیٹ کی نگاہوں میں معتوب رہے۔تاہم ان کی مستقل مزاجی اور محنت رنگ لائی۔ ترک عوام میں اس سوچ نے جنم لیا کہ اسلام پسندوں کو کام کرنے سے کیوں روکا جاتا ہے؟ حکمران طبقہ ان سے کیوں خوفزدہ ہے؟ ترکی میں جمہوریت رائج ہے یا آمریت؟ مستحکم حکومتیں بنانے میں مغرب پسند اور سیکولر سیاست دانوں کی ناکامی اور درج بالا سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1995ء کے پارلیمانی الیکشن میں ترکوں نے جوق در جوق اربکان کی رفاہ پارٹی کو ووٹ دیئے اور وہ ترک پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ یوں ترکی میں آخر اسلام پسندوں کو سیاسی کامیابی حاصل ہوگئی۔

اب جدید ترکی کی تاریخ میں پہلی بار نجم الدین اربکان کی زیر قیادت اسلام پسند رہنمائوں نے اقتدار سنبھال لیا۔ وزیراعظم بنتے ہی اربکان ترک معاشرے میں اسلامی اقدار رائج کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔ انہوں نے پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک سے تعلقات بڑھائے۔ لیکن فوج اور طبقہ ایلیٹ کو اربکان کے اسلام پسندانہ اقدامات پسند نہیں آئے۔ چناں چہ انہوں نے اربکان پر شدید دبائو ڈال کر جون 1997ء انہیں مستعفی ہونے پرمجبور کردیا۔ اگلے سال طبقہ سیکولر اسٹیبلشمنٹ کی حامی عدلیہ نے رفاہ پارٹی پر پابندی لگادی۔

سبق جو حاصل ہوئے
اربکان حکومت کا دورہ مختصر رہا لیکن اس سے ترکی کے اسلام پسند لیڈروں کو دو اہم سبق حاصل ہوئے۔ اول یہ کہ اسلام پسند بھی ترکی میں حکومت حاصل کرسکتے ہیں۔ دوم یہ کہ پچھلی نصف صدی کے دوران ترک معاشرے میں جو غیر اسلامی عناصر در آئے ہیں، انہیں یک لخت یا زبردستی ختم کرنا درست حکمت عملی نہیں... یہ کام رفتہ رفتہ انجام پانا چاہیے۔

پہلے سبق نے فتح اللہ گولن کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ انہیں احساس ہوا کہ ان کی تحریک گولن بھی سیاست میں آکر کارہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے۔ چناں چہ وہ فوج، انتظامیہ اور عدلیہ میں شامل اپنی تحریک کے ارکان سے صلاح مشورہ کرنے لگے۔ تب تک اندرون اور بیرون ملک لاکھوں ترک ان کی تحریک سے متاثر ہوچکے تھے۔ یہ تحریک سیکڑوں سکول، کالج، ہسپتال، اخبار اور ٹی وی چینل چلا رہی تھی۔ انسانوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ تحریکی نظریات کی ترویج بھی ارکان کا مشن تھا۔1997ء تک تحریک خدمت ایک نمایاں طاقت بن چکی تھی۔

جون 1999ء میں گولن بغرض علاج امریکا چلے گئے۔ انہی دنوں گولن کی ایک تقریر سامنے آئی جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ترکی میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت وقت نے اس تقریر کی بنیاد پر گولن کے خلاف مقدمہ کھڑا کردیا۔ گولن نے وطن واپس نہ جانے کو ترجیح دی اور تب سے امریکا ہی میں مقیم ہیں۔ وہ اپنی تحریک کی تمام سرگرمیاں وہیں سے چلاتے ہیں۔

اربکان حکومت سے دوسرا سبق ایک نوجوان سیاست داں، طیب اردوغان نے حاصل کیا۔ اردوغان کا تعلق استنبول کے غریب گھرانے سے تھا۔ وہ لڑکپن میں گلیوں میں شربت اور بن کباب بیچتے رہے تاکہ کچھ کما کر اہل خانہ کی مدد کرسکیں۔ اپنی زبردست محنت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ یونیورسٹی سے کامرس کی ڈگری لینے میں کامیاب رہے۔

1976ء میں وہ ملی سلامت پارٹی کی طلبہ یونین کا حصہ بن کر سیاست میں حصہ لینے لگے۔ وہ نجم الدین اربکان سے بہت متاثر تھے اور انہیں اپنا روحانی و سیاسی رہبر مانتے۔ اردوغان اپنے جوش و جذبے اور تدبر کی بدولت سیاست میں ترقی کرتے رہے۔ 1994ء میں میئر استنبول منتخب ہوئے اور ان گنت ترقیاتی کام کرا کر عوام میں بے پناہ مقبولیت پائی۔

رفاہ پارٹی پر پابندی لگی، تو اردوغان سوچ بچار کرنے لگے کہ ترکی میں احیائے اسلام کیونکر انجام پائے۔ انہیں احساس ہوا کہ حکومت پاکر صبر، حکمت اور حکمت عملی سے ترک معاشرے میں اسلامی اقدار آہستہ آہستہ متعارف کرائی جائیں تو یہ پالیسی کامیاب ہوسکتی ہے۔ گویا اردوغان فوج اور ایلیٹ طبقے سے فوری ٹکرائو نہیں چاہتے تھے۔ اردوغان نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر 14 اگست 2001ء کو ایک سیاسی جماعت، عدالت و توسیع پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ اس کے بانی ارکان میں سے بعض تحریک گولن اور بقیہ رفاہ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔

نئی پارٹی کو مقبول بنانے کے لیے اردوغان، عبداللہ گل اور دیگر لیڈروں نے ملک بھر میں طوفانی دورے کیے۔ اس دوران نئے الیکشن کرانے کا اعلان ہوگیا۔ جب عوامی جائزوں سے یہ بات سامنے آئی کہ عدالت و توسیع پارٹی کئی نشستیں جیت سکتی ہے، تو سیکولر اسٹیبلشمنٹ کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس نے پارٹی پر پابندی لگوانے کی خاطر عدالت سے رجوع کیا۔ ابھی مقدمہ زیر سماعت تھا کہ محض سوا سالہ اسلام پسند پارٹی نے الیکشن میں تمام سکہ بند جماعتوں کو پچھاڑ کر ترکی ہی نہیں پوری دنیا میں ہلچل مچادی۔ عدالت و توسیع پارٹی 500 میں سے 363 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی اور پارلیمنٹ میں فیصلہ کن برتری حاصل کرلی۔ یہ جدید ترک تاریخ کا انقلاب ساز لمحہ تھا۔

کامیابی کی منزل
فوج اور طبقہ ایلیٹ نے بھر پور کوششیں کیں کہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے اردوغان وزیراعظم نہ بن سکیں مگر وہ ناکام رہے۔ 2003ء میں اردوغان نے حکومت سنبھال لی۔ انہوں نے سب سے پہلے معیشت سدھارنے کے لیے کئی ٹھوس اقدامات کیے۔ ان کی وجہ سے ترک معیشت مضبوط ہوئی۔ ترکوں کا معیار زندگی بلند ہوا اور ملک خوشحالی و ترقی کی راہ پر چل پڑا۔

معاشی خوشحالی نے اردوغان حکومت کو عوام میں بہت مقبول بنادیا اور وہ طاقتور و مستحکم ہوگئی۔ اردوغان اب سیکولر فوج اور طبقہ ایلیٹ کی جانب متوجہ ہوئے۔ انہوں نے مختلف اقدامات کے ذریعے جرنیلوں، سرکاری افسروں اور ججوں کی طاقت کم کردی۔ طاقت کم ہونے سے ان کا اثرو رسوخ بھی کم ہوگیا۔ ماضی کی طرح جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اردوغان حکومت ختم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کیں مگر زبردست عوامی حمایت کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔ عوام کی حمایت نے اردوغان حکومت کو ناقابل تسخیر قلعے کی صورت دے ڈالی تھی۔

فوج اور طبقہ ایلیٹ کے خلاف جنگ میں عدالت و توسیع پارٹی کو فتح اللہ گولن کی تحریک خدمت کی حمایت حاصل تھی۔ دراصل عدلیہ اور پولیس میں تحریک خدمت کے کارکن اہم عہدوں پر فائز تھے۔ وہ خاموشی سے جرنیلوں اور ججوں کے خلاف مقدمات میں حکمران جماعت کی حمایت کرتے رہے۔ یوں حکومت بیشتر مقدمے جیتنے میں کامیاب رہی۔

اختلافات کا آغاز
2012ء تک اردوغان حکومت نے سیکولر فوج اور ایلیٹ طبقے کا اثرو رسوخ اس حد تک کم کردیا کہ یہ عناصر پہلے کی طرح طاقتور نہیں رہے۔ اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ عدالت و توسیع پارٹی اور تحریک گولن مل کر ترکی کو علاقائی سپرپاور بنانے کی جدوجہد کرتیں لیکن بدقسمتی سے دونوں اسلام پسند جماعتوں کے مابین اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی طاقتور حریف کے خلاف مختلف اسلامی پارٹیوں کا اتحاد بنے تو دشمن کی شکست کے بعد اتحادی ایک دوسرے لڑبیٹھتے ہیں اور ان کے مابین سر پھٹول شروع ہوجاتی ہے۔افغانستان سے سویت فوج کی واپسی کے بعد بھی یہی انوکھا مظہر سامنے آیا تھا۔

دراصل پچھلے دس سال کے دوران ترکی کی عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بہت سے لوگ تحریک گولن کے رکن بن چکے تھے۔ ان میں سے کئی ارکان کا خیال تھا کہ اردوغان حکومت اسلام کے نفاذ میں سستی کررہی ہے۔ وہ دیکھتے تھے کہ خصوصاً ترک شہروں میں بے حیائی کے مظاہرے اب بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چناں چہ وہ خفیہ طور پر اردوغان حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار قبضے میں کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔وہ بزور ترکی میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا چاہتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر نے توسیع و عدالت پارٹی اور تحریک گولن میں غلط فہمیاں پیدا کردیں تاکہ ترکی میں اسلام پسندوںکو باہم لڑوا کر ان کی طاقت کم کی جاسکے۔

جب سیکولر طبقے کو شکست ہوئی، تو عدالت پارٹی اور تحریک گولن کے مابین موجود اختلافات سامنے آگئے جو کئی برس تک پس پشت چلے گئے تھے۔ ایک اہم اختلاف یہی تھا کہ فتح اللہ گولن اور ان کے ہمنوا سمجھتے تھے کہ طیب اردوغان ترکی میں اسلام پسند اقدامات نافذ کرنے میں اپنے مفادات کی خاطر تساہل برتنے لگے ہیں۔ تحریک گولن کی خواہش تھی کہ ترکی کو بہت جلد مغربی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے اثرات سے پاک کردیا جائے۔

رفتہ رفتہ اختلافات میں اتنی شدت آگئی کہ 2013 ء میں عدلیہ میں شامل تحریک گولن کے جج عدالت و توسیع پارٹی سے تعلق رکھنے والے اہم لیڈروں کو فراڈ، کرپشن، منی لانڈرنگ اور سمگلنگ میں ملوث کرکے ان پر مقدمے چلانے لگے۔تحریک گولن اس طرح ترکی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی تھی۔ یہ بھرپور حملہ دم توڑتی مفاہمت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اب عدالت و توسیع پارٹی اور تحریک گولن کی راہیں جدا ہوگئیں۔ اردوغان حکومت تحریک گولن سے وابستہ ہر شخصیت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگی۔

ترکی کی دونوں بڑی اسلام پسند قوتوں کی باہمی لڑائی سے منفی معاشرتی ،سیاسی اور معاشی اثرات نے جنم لیا۔امن وامان کی حالت پہلے جیسی نہ رہی اور ترکی میں دنگے فساد بھی ہونے لگے۔اپوزیشن نے اردوغان پر الزام لگایا کہ وہ ڈکٹیٹر بن گئے ہیں اور اختلاف وتنقید کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ تھی وہ صورت حال جب پندرہ جولائی 2016ء کو اردوغان حکومت کے خلاف مسلح بغاوت ہوگئی۔ شواہد کی بنا پر حکومت نے تحریک گولن کو بغاوت کا ذمے دار قرار دیا۔

ایمرجنسی لگ گئی
قابل ذکر بات یہ کہ اردوغان حکومت نے بغاوت کا جواب بڑی شدت سے دیا۔ اگلے ہی دن حکومت نے ملک بھر میں ایمرجنسی لگائی اور تحریک گولن پر زبردست دھاوا بول دیا۔ سکیورٹی فورسز نے پندرہ ہزار سے زائد افراد گرفتار کر لیے جن میں دس ہزار فوجی افسر اور جوان شامل تھے۔ 2745 جج برطرف کردیئے گئے۔ ان میں سے کچھ گرفتار بھی ہوئے۔ انتظامیہ میں شامل ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگ ملازمت سے نکال دیئے گئے۔ سب پر تحریک گولن کے کارکن یا حامی ہونے کا الزام تھا۔ حکومت نے تحریک گولن سے وابستہ ایک ہزار کاروباری کمپنیوں کے ''11 ارب ڈالر'' مالیت والے اثاثہ جات، بینک بیلنس وغیرہ بھی ضبط کرلیے۔

تحریک گولن تعلیمی اور میڈیا کے شعبے میں بہت سرگرم تھی۔ان شعبوں پر بھی حملہ کیا گیا۔ ترک حکومت نے تحریک گولن سے منسلک 15 یونیورسٹیاں، 1043 کالج و سکول، 1229 خیراتی و فلاحی ادارے، 35 ہسپتال اور 19ٹریڈ یونین بند کردیں۔ اسی طرح تحریک گولن کے 16 ٹی وی چینل، 23 ریڈیو اسٹیشن، 45 اخبارات، 15 رسائل اور 29 اشاعتی ادارے بھی بند کردیئے گئے۔ پاکستان، ملائشیا، قطر، انڈونیشیا وغیرہ میں تحریک گولن کے بیسیوں اسلامی اسکول وکالج کام کر رہے تھے۔اردوغان حکومت نے ان ممالک پر زبردست دبائو ڈالا کہ تحریک گولن سے وابستہ تمام ادارے بند کر دئیے جائیں۔

تحریک گولن اور انسانی حقوق کی ترک و عالمی تنظیمیں اردوغان حکومت پر الزام لگاتی ہیں کہ درج بالا عمل کے دوران سکیورٹی فورسز نے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیاں کیں۔ مردوزن کو مارا پیٹا گیا۔ بچے مائوں سے جدا کردیئے گئے اور ہزارہا افراد کو غیر طور پر نظر بند رکھا گیا۔ اردوغان حکومت یہ الزام تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ تحریک گولن ایک دہشت گرد تنظیم ہے لہذااس کے خلاف بجا قدم اٹھایا گیا۔

ترک اپوزیشن کا یہ بھی دعوی ہے کہ ماہ جولائی کی بغاوت محض ڈراما تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ طیّب اردوغان ترکی میں صدارتی نظام حکومت نافذ کر کے تمام حکومتی طاقتیں اپنی ذات میں مرتکز کر لیں۔اردوغان حکومت اس الزام کو بھی غلط قرار دیتی ہے۔یہ بہرحال حقیقت ہے کہ بغاوت کے بعد اردوغان حکومت کو یہ موقع مل گیا کہ وہ ترکی میں صدارتی طرز حکومت متعارف کرانے کی خاطر ریفرنڈم کرا لے۔اپریل 2017ء میں منعقدہ اس ریفرنڈم میں حکومت بمشکل کامیابی حاصل کر پائی۔

اردوغان حکومت اب تک تحریک گولن اور دیگر مخالف پارٹیوں کے خلاف سرگرم ہے۔آئے دن بیوروکریسی،عدلیہ ،فوج وغیرہ سے لوگ تحریک گولن کا حامی قرار دے کر نکال دئیے جاتے ہیں۔انسانی حقوق کی ترک اور عالمی تنظیموں کا الزام ہے کہ اردوغان حکومت آمرانہ بن چکی اور وہ مخالفین پر طرح طرح کے ظلم وستم ڈھا رہی ہے۔جبکہ اردوغان کا کہنا ہے کہ اسلام دشمن مقامی اور غیرملکی طاقتیں تحریک گولن جیسی تنظیموں کو آلہ کار بنا کر ان کی حکومت ختم کرنا چاہتی ہیں۔

یہ امر بہرحال افسوس ناک ہے کہ ترکی میں دو سب سے بڑی اسلامی پارٹیوں کو یہ سنہرا موقع ملا تھا کہ وہ مل جل کر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتیں۔مگر عدالت و توسیع پارٹی اور تحریک گولن میں اتحاد واتفاق برقرار نہ رہ سکا۔ان کے تصادم سے اسلام ومذہب مخالف قوتوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ دونوں اسلامی پارٹیوںکا مقصد ومنشا اقتدار پا کر عوام کی خدمت کرنا نہیں ،بلکہ حکومت سنبھال کر وہ خود کو طاقتور وبااثر بنانا چاہتی ہیں تاکہ اپنے مخصوص مفادات حاصل کر سکیں۔
Load Next Story