حکومت سندھ کی ذمے داری
ہمارے پاس ریٹائرڈ ملازمین کی شکایات ایک عرصے سے آ رہی ہیں لیکن حکام بالا کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
محکمہ بلدیات کے ساتھ حکومت سندھ کا رویہ انتقامی ہونے کی شکایت بلدیاتی رہنماؤں کی طرف سے ایک عرصے سے کی جا رہی ہے۔ بلدیاتی ترقی اور معمول کے کاموں کے لیے فنڈزکی عدم دستیابی کی وجہ سے کراچی میں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے قابل مذمت بات یہ ہے کہ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین جن میں بڑی تعداد اساتذہ کی ہے، برسوں سے پنشن اور واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سخت اذیت اور پریشانی کا شکار ہیں۔ کئی ملازمین پنشن اور واجبات کے حصول کی آرزو دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، کئی نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، کئی معذور بھی ہو گئے ہیں یہ ایک ایسی دردناک کہانی ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
تیس، چالیس سال محکمے میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ملازمین اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ پنشن سے گزارا کر لیں گے اور واجبات سے بچوں کی رکی ہوئی شادیوں وغیرہ کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گے لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ'' والی صورتحال کا سامنا ہے۔ سندھ بھر میں اربوں کی کرپشن کی داستانیں گونج رہی ہیں ہر ادارے پر اربوں کی کرپشن کے الزامات سے میڈیا بھرا ہوا ہے اور ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن دینے کے لیے حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شرمناک صورتحال کا ذمے دار کون ہے۔ میئر کراچی ہر روز فنڈز کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں اور یہ شکایت درست بھی ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ صرف ترقیاتی اور صفائی جیسے اہم کام رکے ہوئے ہیں بلکہ ملازمین کی تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات بھی رکے ہوئے ہیں۔
ہمارے پاس ریٹائرڈ ملازمین کی شکایات ایک عرصے سے آ رہی ہیں اور ان شکایات کو ہم نے متعلقہ حکام تک بھی پہنچایا ہے لیکن حکام بالا کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ریٹائرڈ ملازمین کا کہنا ہے کہ کاغذی کارروائی ہی میں دو دو تین تین سال لگ جاتے ہیں اور اس مرحلے کو طے کرنے میں ملازمین کو کن کن اذیتوں کن کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس کی تفصیلات اس قدر قابل شرم ہیں کہ ہم اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا میں نہیں بلکہ پتھر کے دور میں پتھر دل انسانوں کے دور سے گزر رہے ہیں۔جوریٹائرڈ ملازمین کاغذی کارروائیوں کے جان لیوا مرحلے سے گزر کر واجبات کے حصول اور پنشن کے اجرا کے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کو یہ روح فرسا خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ آپ کے بل تو تیار ہیں لیکن ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔
ہمارے متحرک اور ملازمین کے ہمدرد میئر وسیم اختر بلاشبہ فنڈز کی عدم دستیابی کی ایک عرصے سے شکایت کر رہے ہیں لیکن ان کی صدا صدا بصحرا بنی ہوئی ہے۔ اب وفاق نے ایک بھاری رقم کراچی بلدیہ کو دینے کی منظوری دی ہے میئر کی ذمے داری اور اخلاقی اور انسانی فرض ہے کہ وہ اس رقم میں سے کچھ رقم بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی کے لیے مختص کریں۔
پچھلے دنوں اخباروں میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ کورنگی کے بلدیاتی چیئرمین نیئر رضا نے ریٹائرڈ ملازمین کی پریشانیوں اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے یہ ذمے داری لی تھی کہ وہ خود ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل حل کریں گے، لیکن ہنوز اس خصوصی مسئلے میں کسی پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی ہے۔
اس حوالے سے ایک افسوسناک شکایت یہ بھی ہے کہ ضعیف اور معذور پنشنرز جب پنشن کے حصول کے لیے بینک پہنچتے ہیں تو انھیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ پنشن ابھی نہیں آئی۔ دور دور سے پیدل یا رکشہ وغیرہ میں بینک آنے والے پنشنرز کو بار بار بینکوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور پنشن آنے کی صورت میں گھنٹوں دھوپ میں لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ یہ ضعیف اور معذور پنشنرز کے ساتھ ایک ایسی زیادتی ہے جس کا ازالہ ہونا چاہیے۔
حکومت سندھ کی باگ ڈور آج کل ایک فعال اور متحرک وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ہاتھوں میں ہے۔ کیا مراد علی شاہ کے علم میں یہ افسوسناک صورتحال نہیں ہے کہ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بلدیہ کے اکابرین سے حکومت سندھ کے سیاسی اختلافات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور بلدیاتی حکام کے مطابق کراچی کی بدتر صورتحال کا سبب فنڈز کی عدم فراہمی ہے لیکن مراد علی شاہ کو یقینا یہ احساس ہوگا کہ بے چارے ریٹائرڈ ملازمین بھی اختلافات کی اس چکی میں پس رہے ہیں۔
کم ازکم ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں اور واجبات کی ادائیگی کے لیے تو تواتر سے فنڈز جاری ہونے چاہئیں۔ دوسرے کئی محکموں میں ریٹائرڈ ملازمین کی کاغذی کارروائی ان کے ریٹائرڈ ہونے سے پہلے ہی کی جاتی ہے اور ریٹائر ہوتے ہی ان کی پنشن جاری اور واجبات ادا کر دیے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے قابل مذمت بات یہ ہے کہ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین جن میں بڑی تعداد اساتذہ کی ہے، برسوں سے پنشن اور واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سخت اذیت اور پریشانی کا شکار ہیں۔ کئی ملازمین پنشن اور واجبات کے حصول کی آرزو دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، کئی نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، کئی معذور بھی ہو گئے ہیں یہ ایک ایسی دردناک کہانی ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
تیس، چالیس سال محکمے میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ملازمین اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ پنشن سے گزارا کر لیں گے اور واجبات سے بچوں کی رکی ہوئی شادیوں وغیرہ کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گے لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ'' والی صورتحال کا سامنا ہے۔ سندھ بھر میں اربوں کی کرپشن کی داستانیں گونج رہی ہیں ہر ادارے پر اربوں کی کرپشن کے الزامات سے میڈیا بھرا ہوا ہے اور ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن دینے کے لیے حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شرمناک صورتحال کا ذمے دار کون ہے۔ میئر کراچی ہر روز فنڈز کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں اور یہ شکایت درست بھی ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ صرف ترقیاتی اور صفائی جیسے اہم کام رکے ہوئے ہیں بلکہ ملازمین کی تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات بھی رکے ہوئے ہیں۔
ہمارے پاس ریٹائرڈ ملازمین کی شکایات ایک عرصے سے آ رہی ہیں اور ان شکایات کو ہم نے متعلقہ حکام تک بھی پہنچایا ہے لیکن حکام بالا کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ریٹائرڈ ملازمین کا کہنا ہے کہ کاغذی کارروائی ہی میں دو دو تین تین سال لگ جاتے ہیں اور اس مرحلے کو طے کرنے میں ملازمین کو کن کن اذیتوں کن کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس کی تفصیلات اس قدر قابل شرم ہیں کہ ہم اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا میں نہیں بلکہ پتھر کے دور میں پتھر دل انسانوں کے دور سے گزر رہے ہیں۔جوریٹائرڈ ملازمین کاغذی کارروائیوں کے جان لیوا مرحلے سے گزر کر واجبات کے حصول اور پنشن کے اجرا کے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کو یہ روح فرسا خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ آپ کے بل تو تیار ہیں لیکن ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔
ہمارے متحرک اور ملازمین کے ہمدرد میئر وسیم اختر بلاشبہ فنڈز کی عدم دستیابی کی ایک عرصے سے شکایت کر رہے ہیں لیکن ان کی صدا صدا بصحرا بنی ہوئی ہے۔ اب وفاق نے ایک بھاری رقم کراچی بلدیہ کو دینے کی منظوری دی ہے میئر کی ذمے داری اور اخلاقی اور انسانی فرض ہے کہ وہ اس رقم میں سے کچھ رقم بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی کے لیے مختص کریں۔
پچھلے دنوں اخباروں میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ کورنگی کے بلدیاتی چیئرمین نیئر رضا نے ریٹائرڈ ملازمین کی پریشانیوں اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے یہ ذمے داری لی تھی کہ وہ خود ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل حل کریں گے، لیکن ہنوز اس خصوصی مسئلے میں کسی پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی ہے۔
اس حوالے سے ایک افسوسناک شکایت یہ بھی ہے کہ ضعیف اور معذور پنشنرز جب پنشن کے حصول کے لیے بینک پہنچتے ہیں تو انھیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ پنشن ابھی نہیں آئی۔ دور دور سے پیدل یا رکشہ وغیرہ میں بینک آنے والے پنشنرز کو بار بار بینکوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور پنشن آنے کی صورت میں گھنٹوں دھوپ میں لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ یہ ضعیف اور معذور پنشنرز کے ساتھ ایک ایسی زیادتی ہے جس کا ازالہ ہونا چاہیے۔
حکومت سندھ کی باگ ڈور آج کل ایک فعال اور متحرک وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ہاتھوں میں ہے۔ کیا مراد علی شاہ کے علم میں یہ افسوسناک صورتحال نہیں ہے کہ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بلدیہ کے اکابرین سے حکومت سندھ کے سیاسی اختلافات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور بلدیاتی حکام کے مطابق کراچی کی بدتر صورتحال کا سبب فنڈز کی عدم فراہمی ہے لیکن مراد علی شاہ کو یقینا یہ احساس ہوگا کہ بے چارے ریٹائرڈ ملازمین بھی اختلافات کی اس چکی میں پس رہے ہیں۔
کم ازکم ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں اور واجبات کی ادائیگی کے لیے تو تواتر سے فنڈز جاری ہونے چاہئیں۔ دوسرے کئی محکموں میں ریٹائرڈ ملازمین کی کاغذی کارروائی ان کے ریٹائرڈ ہونے سے پہلے ہی کی جاتی ہے اور ریٹائر ہوتے ہی ان کی پنشن جاری اور واجبات ادا کر دیے جاتے ہیں۔