ہجرت بھی نہیں بچا پا رہی

اپنے جلتے ہوئے مکانات اور گاؤں چھوڑ کر بنگلادیش کی طرف ہجرت کر کے جانے والوں کی تعداد سوا لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔


فرحین شیخ September 09, 2017

PESHAWAR: خوف! کبھی کسی نے تصور بھی کیا کہ ہر وقت حالتِ خوف میں رہنا کیسا اذیت ناک اورکتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ روہنگیا مسلمان سالوں سے اسی خوف اور اذیت میں مبتلا ہیں۔ میانمار کی ریاست راکھائن میں موجود ہر مسلمان آزادی کے حصول کے لیے موت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ موت کے راستے سے بچ نکلنے والے لوگ ایک نئے خوف کے ساتھ رجسٹرڈ اور ٖغیررجسٹرڈ کیمپوں میں پناہ لے کر زندگی کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔

اقوامِ متحدہ نے ان مسلمانوں کو دنیا میں سب سے زیادہ پریشان اقلیتی گروہ قرار دیا ہے۔ مغربی میانمار کے یہ بے گھر مسلمان برمی فوج اور ریاست کے مظالم کے آگے بے بس ہیں۔ میڈیا کی وجہ سے آج ہرکوئی واقف ہے کہ کس طرح پورے کے پورے گاؤں جلائے جارہے ہیں، عصمت دری اور خوں ریزی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ 2012 سے لے کر اب تک ہزاروں افراد بے دردی سے قتل کیے جا چکے ہیں اور اب راکھائن میں نو پولس والوں کے قتل کو جواز بنا کر نسل کشی کا نیا کھیل شروع کیا گیا ہے، جس کو روکنے کے لیے ابھی بین الاقوامی برادری سنجیدہ نہیں۔

برما کی حکومت نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے سالوں سے نہ صرف ہم مذہب افراد سے نکاح پر پابندی عائد کی ہوئی تھی بلکہ مسلمان جوڑوں کو صرف دو بچوں کی پیدائش تک محدود کر دیا گیا تھا، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز بلند کرتے ہوئے خطرہ ظاہر کیا تھا کہ یہاں کسی بھی وقت نسلی صفائی کی مہم تیز کی جا سکتی ہے، لیکن دنیا نے اس طرف توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ روہنگیا مسلمان جن کو میانمار نے کبھی اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کیا۔ ان کے لیے اب مظالم برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔

اپنے جلتے ہوئے مکانات اور گاؤں چھوڑ کر بنگلادیش کی طرف ہجرت کر کے جانے والوں کی تعداد سوا لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ بنگلادیش کی وزارتِ خارجہ نے ان مصیبت کے ماروں کو خلیج بنگال کے ایک ویران جزیرے میں لے جا پھینکا ہے، جہاں دور دور تک ضروریاتِ زندگی کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔ بنگلادیشی وزرا ان باشندوں کے اپنے ملک میں آنے کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں اور ان کو بنگلادیشی معاشرے اور عوام میں ضم ہونے کے مواقع دینے کو تیار نہیں۔

ان کے خیال میں ان مہاجرین کی آمد سے ملک معاشرتی، معاشی اور علاقائی مسائل میں گھر جائے گا۔ لہٰذا بنگلادیش کی حکومت ان غم زدہ اور مفلوک الحال افراد کو واپس مقتل کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بنگلادیش کا یہ غیرانسانی رویہ خود ایک بہت بڑا موضوعِ بحث ہے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی بنگلادیش کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ان مہاجرین کو واپس نہ کرے۔ تقریباً نوے لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان بنگلادیش پہنچ چکے ہیں جہاں پہلے ہی چار لاکھ مہاجرین کی موجودگی ناقابلِ برداشت بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی روہنگیا مسلمانوں کے لیے حالات بعد از ہجرت بھی سازگار نہیں۔

ایشیا کی نیلسن منڈیلا کہلائی جانے والی آنگ سانگ سوچی میانمارکی State Counsellor ہے (یہ عہدہ وزیراعظم کے مساوی ہے) جس کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے مثالی شخصیت تصور کیا جاتا تھا۔ ایک ایسی رہنما جس نے اپنے ملک میں جمہوریت کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے بے حد مصائب جھیلے۔

1991میں جب اسے امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تو نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کے چیئرمین نے سراہتے ہوئے کہا تھاکہ ایک کمزور کی طاقت کی یہ شان دار مثال ہے۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کا پرچم بلند کرنے کی خواہش میں جس نے مصیبتیں جھیلیں، لندن کی دل فریب ہواؤں میں بھی وطن کی محبت دل سے نہ نکلی، نظربندی کاٹی، بچوں کے چہرے دیکھنے کو ترسی، دورانِ نظربندی شوہر کی کینسر سے وفات ہوئی لیکن اس نے جمہوری اقدار کے لیے سینے پر پتھر رکھا، ماں کی بیماری اور موت میں اس کو ایک نظر دیکھ نہ سکی۔

جمہوریت کے لیے اس کی پر امن ریلیوں کو جب اس وقت کے آمر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے تھے تو وہ خون کے آنسو روتی تھی اور اس کے آنسو دنیا کو نظر آتے تھے، آج وہی آنگ سانگ سوچی طاقت کے نشے میں چور ظالم کے شانہ بہ شانہ کھڑی ظلم کی سرپرستی کر رہی ہے۔ جو اپنے لیے کبھی مصلحتوں کا شکار نہیں ہوئی وہ آج مظلوم اقلیت کے لیے خود کو دباؤ میں ظاہر کرکے کیسے بری الذمہ ہوگئی! دربدری کا عذاب جھیلنے والی آج خود عذاب کی تقسیم میں مصروف ہے۔ آنگ سانگ سوچی نے2013میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب نسلی صفائی کی ضرورت بہت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ اس بیان کو اس وقت بھی کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن وقتاً فوقتاً بدھ قوم پرستوں اور راہبوں کے ذریعے منظم طریقے سے مسلم مخالف جذبات بھڑکائے گئے، جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔

بین الاقوامی معیار کے مطابق امن کے نوبیل انعام کے حق دار وہ افراد قرار پاتے ہیں جو ایسی دنیا کی تشکیل کے لیے جدوجہد کریں جو بے گھر افراد کی پناہ گاہ ہو، سچی پناہ گاہ، جس میں لوگوں کو آزادی سے رہنے کا حق حاصل ہو، لیکن آنگ سانگ سوچی کے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی تو کوئی دنیا ہی نہیں۔

حد تو یہ ہے کہ اس سال کے آغاز میں ایک بین الاقوامی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے جب روہنگیا مسلمانوں کا ذکر آیا تو اس نے کمال سفاکی سے کہا کہ نہ میں مہاتما گاندھی ہوں، نہ مدر ٹریسا اور نہ مارگریٹ تھیچر، میں صرف ایک سیاست داں ہوں۔ ایک سیاست داں کی طرح ہی اس نے میانمار میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر بے نقاب خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اگر خاموشی ٹوٹتی بھی ہے تو اس ظلم کی تردید بہت ڈھٹائی کے ساتھ کی جاتی ہے۔

دنیا میں ہر طرف امن، سکون، محبت اور بھائی چارے جیسے خوب صوت الفاظ اپنی کشش کھوتے جا رہے ہیں۔ غیرانسانی سلوک اور رویے ہنستی بستی دنیا کو جنگل سے بھی بد تر بنا چکے ہیں۔ ظلم اور بربریت کے جو باب رقم کیے جا رہے ہیں ان کے آگے ماضی کے سارے فرعون بھولنے لگے ہیں۔

مسلمانوں کے معاملے میں اقوامِ متحدہ ہمیشہ مجبور اور بے بس تماشائی کا کردار ہی ادا کرتی نظر آئی ہے۔ مشرقی تیمور کی علیحدگی میں فعال کردار ادا کرنیوالی اقوامِ متحدہ جب روہنگیا مسلمانوں کو ادویات اور خوراک فراہم کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوتی ہے تو ذہنوں میں اگلی بات یہی کلبلاتی ہے کہ یہ معاملہ کچھ اور ہی ہے اور ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔ اور الزام صرف اقوامِ متحدہ کے سر ہی کیوں تھوپا جائے!! دنیا میں موجود 55 اسلامی ممالک میں بسنے والے اربوں مسلمان کہاں ہیں جو بیس لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے۔

مصیبت کی اس گھڑی میں ترکی، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے مثبت کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس نسل کشی پر سب سے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مسلم دنیا کو متحد ہونے کا پیغام دیا ہے۔ ساتھ ہی آنگ سانگ سوچی سے فون پر رابطہ کرکے نہ صرف مسئلے کے حل پر زور دیا بلکہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے ایک لاکھ ٹن امداد بھی روانہ کردی۔ جس کی مالیت تقریباً ستر ملین ڈالر ہے۔

ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے بھی اس مسئلے کے فوری حل پر زور دیا ہے اور اسے پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اپنے ملک میں روہنگیا مہاجرین کو جگہ بھی دی ہے۔ اتنے بڑے مسئلے کو حل کرنا بلاشبہ افراد کا نہیں بلکہ ریاستوں کی ذمے داری ہے لیکن عوامی سطح پر بھی اس کے لیے مثبت کوششیں کی جاسکتی ہیں، تاکہ مسئلے کے جلد حل کے لیے ریاست پر دباؤ بڑھ سکے۔ ضروری ہے کہ ہر ملک میں پروفیسرز، طلبا، صحافی، دانشور، ڈاکٹرز، سرمایہ دار اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور وہ مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خاتمے کے لیے اپنے اپنے ملک کی حکومت پر دباؤ ڈالیں، ساتھ ہی عوام کو بھی درست حالات سے واقفیت فراہم کریں اور انسانی ہمدردی اور اخلاقی اصولوں کے تحت اس تشدد کی بھرپور مذمت کریں۔

مسلمان جب تک ایک نہیں ہوں گے یہ المیے جنم لیتے رہیں گے۔ کہیں مودی، کہیں سوچی، کہیں نیتن یاہو تو کہیں کوئی اور۔۔۔مسلمان دنیا میں ہر جگہ جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں۔ کاش بے حسی کا عالمی ایوارڈ بھی شروع کیا جائے جس کی سب سے پہلی حق دار بلاشبہ او۔آئی۔ سی ہی قرار پائے گی، جس کی ہر معاملے پر خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہر تنازعے کے حل کے لیے محض اجلاس پہ اجلاس، اور نتیجہ صفر۔ روہنگیا کے معاملے میں او۔آئی۔ سی ماضی کی طرح فعال کردار ادا نہیں کرنا چاہتی، لیکن کم از کم اتنا تو کیا جائے کہ روہنگیا پناہ گزین جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ان کے بوجھ کو ہی کچھ بانٹ لے۔ شاید روہنگیا کے معاملے کے بعد اس تنظیم کا قبلہ درست ہو سکے تاکہ مسلمانوں کے مصائب کچھ کم ہو جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں