شارٹ کٹ
ضعیف اور بیمار والدین کو اگر ایسی آزمائشوں سے گزرنا پڑے تو خون کے سفید ہونے کی حقانیت پر بھی یقین آجاتا ہے۔
دو ماہ پہلے تک میں سلیم الزّماں کو نہیں جانتا تھا۔ آج آپ بھی اُس کے بارے میں کچھ جان لیں گے۔
دہ ماہ پہلے میرے دوست ڈاکٹر عرفان نے ایک خاتون مریضہ میرے پاس علاج کیلئے بھیجی تھی۔ اپنے کارڈ پر انتہائی رعایتی فیس کا لِکھ کر ، کِسی کے بھیجے ہوئے مریض اور استطاعت نہ رکھنے والے مریض مجھے زیادہ خیال زیادہ احترام زیادہ عزّت کے ساتھ دیکھنے پڑتے ہیں۔ اور اگر بھیجنے والا قریبی دوست بھی ہو اور مریض کی حالت خراب بھی ہو تو توجہ کا دائرہ بھی وسیع ہوجاتا ہے۔
عرفان کی سب سے اچھی بات یہی ہے کہ وہ اور دیگر جنرل پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کی طرح اپنے کلینک پر آنے والے ہر مریض کو از خود ہی سمیٹنے یا نمٹانے کی کوشش نہیں کرتا۔ جہاں بھی اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ مرض یا علامات اُس کی جنرل پریکٹس کے تجربے سے باہر ہیں۔ وہ مریض کو متعلقہ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کی طرف بھیج دیتا ہے۔ خصوصاً ذہنی و نفسیاتی امراض کے علاج میں وہ بہت زیادہ احتیاط کرتا ہے اور بالکل صحیح کرتا ہے۔
اکثر ایمرجینسی میں جب ایسا کوئی مریض رات دیر گئے اُس کے کلینک پر پہنچتا ہے تو وہ رات بارہ بجے بھی مجھے فون کرکے اُس کی علامات بتاکر فوری سکون کی ادویات کا نسخہ پوچھتا ہے۔ خود سے سائیکوٹراپک ادویات تجویز کرنے سے گریز کرتا ہے اور بالکل صحیح کرتا ہے۔ عام طور پر بہت سے جنرل فزیشن ہر طرح کے مریضوں کے خود ہی ٹریٹ Treat کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عام طور پر ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگوں کی بیماری میں اور اضافہ کرڈالتے ہیں۔
جب ایسے مریض چار چھ ڈاکٹرز کے تجربات کی نذر ہو کر اور ان گنت غیر ضروری لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس کی سب نارمل، ایک موٹی فائل لے کر سائیکاٹرسٹ تک پہنچتے ہیں تو بہت دِل دُکھتا ہے۔ اِس پر پریکٹس میں محض گلی محلّوں کے چھوٹے چھوٹے کلینکس کے جنرل ڈاکٹرز ہی شامل نہیں، بڑے بڑے نام ور، مشہور اور مستند اسپیشلسٹ فزیشن، سرجن، نیوروسرجن، نیورولوجسٹ، تک کے نسخوں میں سائیکوٹراپک ادویات درج ہوتی ہیں۔
شومئی قسمت سے یہ ماہرین اپنے میدان میں تو ضرور ایکسپرٹ ہوتے ہیں لیکن اعصابی، ذہنی، نفسیاتی امراض دیگر جسمانی عوارض سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی گھر کے دو سگے بھائی جن کے ذہنی مرض کی بظاہر تشخیص ایک ہی کیوں نہ ہو، اُن دونوں کی علامات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں اور چوںکہ ہر شخص کی شخصیت اور مزاج بھی مختلف ہوتا ہے تو نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہر فرد کو بالکل ایک الگ طرح سے Observe اور Handle کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات تو یہاں تک ہوتا ہے کہ مرض کی تشخیص بھی ایک ہوتی ہے۔ علامات بھی ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن دونوں مریضوں کو فائدہ یا Response الگ الگ گروپ کی ادویات سے ملتا ہے۔
پھر تقریباً ساٹھ فی صد مریض ایسے ہوتے ہیں جِن کی ظاہری علامات جسمانی ہوتی ہیں۔ خصوصاً اسٹریس، ڈپریشن، سائیکو سومیٹک ڈس آرڈر میں زیادہ تر علامات مختلف جسمانی نظاموں اور اعضا سے متعلق ہوتی ہیں۔ اِن کی Screening کوئی مستند سائیکاٹرسٹ کرسکتا ہے۔
یہ سب باتیں وقتاً فوقتاً گذشتہ پندرہ سولہ سالوں میں عرفان کے ساتھ براہ راست ہوتی رہی ہیں۔ جب وہ کئی گھنٹے میرے ساتھ کلینک پر گزارتا رہا ہے۔ کئی بار اُس کی موجودی میں مریض آئے تو میں نے اُس سے ہی اُن کی کاؤنسلنگ کروائی اپنے ساتھ اور چوںکہ وہ بہت عملی اور خوب صورت باتیں کرنے کا عادی ہے تو کئی مریضوں کو اُس کے مشوروں سے بہت فائدہ بھی ہوا۔ لیکن اِن سب باتوں کے بیچ وہ یہ بات سمجھ گیا کہ نفسیات یا ذہنی بیماری کے شکار کِسی مریض کو خود سے کوئی دوا تجویز نہیں کرنی۔
سلیم الزّماں بھی جب اپنی والدہ کو لے کر عرفان کے پاس پہنچا اور عرفان نے اُس کی بے ربط گفتگو سُنی اور مریضہ کی فائل میں لگے لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس اور دو تین ڈاکٹروں کے آٹھ دس نُسخے دیکھے تو اُس نے فوراً سلیم کو میرا پتا بتادیا اور مجھے بھی فون کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ سلیم کئی دِنوں کے بعد اپنی والدہ کو لے کر آیا۔ اتنے تجربات کے بعد کِسی نئے ڈاکٹر کا تجربہ کرنا ذرا مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔
اُس دِن اتفاق سے میرے پاس ایک دو ملاقاتی بیٹھے تھے۔ سلیم اور اُس کی والدہ کو انتظار کرنا پڑا۔ مجھے اپنے کمرے تک مریضہ کی ہیجانی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ مستقل بول رہی تھیں اور زور زور سے آوازیں دے رہی تھیں۔ گفتگو میں کوئی ربط نہیں تھا۔
سلیم الزّمان سے ہسٹری لینے پر پتا چلا کہ ڈیڑھ سال پہلے اچانک طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔ پہلے نیند ختم ہوئی پھر بھوک پھر بے ربط گفتگو اور پھر آہستہ آہستہ یادداشت خراب ہونے لگی۔ کئی ڈاکٹروں کو دِکھایا۔ ایک سائیکاٹرسٹ سے بھی علاج کروایا، جِن کی دواؤں سے شروع میں تھوڑا آرام آیا۔ نیند آنے لگی۔ مگر چلنا پِھرنا بند ہوگیا۔ یادداشت ٹھیک نہ ہوسکی اور پھر اچانک دواؤں نے کام بند کردیا اور مریضہ کی ہیجانی کیفیت ہوگئی۔
''اِن کو کہیں داخل کروادیں ڈاکٹر صاحب! گھر میں نہیں سنبھالی جاتیں۔ بہت بُری حالت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں۔ کوئی نہیں ہے جو دیکھ بھال کرے اِن کی۔ پیشاب پاخانہ سب بستر پر کر دیتی ہیں۔ نہ خود سے باتھ روم جاتی ہیں نہ بتاتی ہیں۔'' سلیم الزّماں کا دُکھ اُس کے لہجے سے عیاں تھا۔
''پریشان نہ ہو بھائی! انشاء اللہ سب خیر ہوگی۔ کہیں داخل کروانے کی ضرورت نہیں۔ جہا ں اتنے دِن تکلیف برداشت کی ہے بس پانچ چھے دِن اور صبر کرلو۔ ایک ہفتے میں طبیعت سنبھل جائے گی، لیکن یادداشت کا مسئلہ نہیں صحیح ہوپائے گا۔'' میں نے اُسے تسلّی دی۔ میں اُس کی دِلی کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔
''بس یہ چیخنا چلّانا بند کردیں کِسی طرح۔ پورا محلّہ پریشان ہوگیا ہے۔ اوپر نیچے سب گھر والے عاجز آگئے ہیں۔ بھائی بھابھیاں سب کہہ رہے ہیں ایدھی سینٹر میں چھوڑ آؤ اِن کو۔ میں کیسے چھوڑ آؤں وہاں۔ میری ماں ہیں یہ۔'' سلیم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں کبھی اُس کی والدہ کو دیکھ رہا تھا جو سامنے بیٹھی مستقل ہل رہی تھیں اور نان اسٹاپ بولے چلی جارہی تھیں، ''میرا بچّہ، میرا بچّہ، میرا بیٹا، میرا بیٹا، کہاں گیا، کہاں گیا۔ آگیا وہ، آگیا وہ۔''
''یہ کِس کو پکار رہی ہیں؟'' میں نے سلیم سے پوچھا۔
''بس کوئی بھی بات پکڑ لیتی ہیں اور پھر اُسے دہراتی رہتی ہیں۔ کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ اب کل رات سے یہ جملے بول بول کر گھر سر پر اُٹھا رکھا ہے۔ تین دن ہوگئے ہیں۔ سب کو جاگتے ہوئے۔ کوئی نہیں سو پارہا۔ اِن کے شور سے سب تنگ آگئے ہیں۔ کل تو محلّے والے گھر آگئے تھے کہ اِن کو داخل کروادو کہیں۔ میں پچھلے ڈاکٹر کی دوا مستقل دے رہا ہوں۔ مگر اُلٹا فائدے کے وہ نقصان کررہی ہیں۔ کیا کروں میں۔ میں اکیلا ہی اِن کو دیکھ رہا ہوں۔ کوئی اور بھائی یا بھابھی نہیں کرتے اِن کا خیال۔ دو بھائی اوپر نیچے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ پانچ دِن سے میں کام پر بھی نہیں گیا۔ پہلے بیوی کے علاج پر لاکھوں لگ گئے۔ اللہ اللہ کرکے وہ ٹھیک ہوئی تو والدہ بیمار پڑگئیں۔ بیوی کا تو مجھے ہی کرنا تھا سب کچھ، والدہ تو سب کی ہیں۔ سات بھائی ہیں۔ کوئی نہیں کرتا کچھ۔''
سلیم کے لفظ لفظ سے اُس کا دُکھ، درد اور غصّہ اور مایوسی چھلک رہی تھی۔ ''تیسرے مالے سے اِن کو نیچے اتارنا بھی ناممکن ہے۔ آج بھی محلّے سے پانچ لوگوں کی مدد لے کر آپ کے پاس لایا ہوں۔ بار بار نہیں لاسکتا۔ میں خود آجایا کروں گا آپ کو اِن کا حال بتانے۔''
''کوئی بات نہیں۔ بس آج دیکھ لیا اِن کو، کافی ہے۔ انشاء اللہ اِن کو نہیں لانا پڑے گا۔ تم ایک ہفتے تک یہ دوائیاں اِن کو کھلاؤ۔ اگر شروع میں نیند زیادہ آئے تو پریشان نہیں ہونا۔ اِن کے دماغ کا کرنٹ بہت تیزی سے چل رہا ہے۔ آرام کی ضرورت ہے۔'' میں نے نسخہ لِکھ کر سلیم کے حوالے کیا اور دِل سے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ اِن کی تکلیف کو دور کردے۔
اللہ کے کرم سے پہلے ہی ہفتے میں افاقہ ہونا شروع ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد سلیم اکیلا آیا۔ اور حال بتا کر دوا لِکھوا کر چلاگیا۔ گذشتہ دو ماہ میں دو بار سلیم کی والدہ کی طبیعت دو بار خراب ہوئی۔ دواؤں کے Dose میں ردّوبدل کرنے سے کئی بار ایسا ہوجاتا ہے۔ لیکن مریض اور گھر والے چوںکہ یہ طبّی نکتہ نہیں جانتے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔
آج سلیم تین ہفتوں بعد میرے پاس آیا۔ اِس دوران وہ والدہ کو باقاعدگی سے دوائیاں کِھلاتا رہا تھا۔ ایک دہ دِن ناغہ ہوگیا تو طبیعت دوبارہ بگڑ ی۔ ورنہ ٹھیک رہی۔ ماسوائے اِس کے کہ اب قبض ہوگیا تھا اور بستر سے اُترنا نہیں تھا۔ یادداشت کا مسئلہ ہنوز برقرار تھا۔
اور آج کے دِن ہی سلیم سے فراغت میں سلیم کے بارے میں تفصیلی گفتگو کا موقع مِلا کہ اب والدہ کے حوالے سے نہ وہ زیادہ پریشان تھا اور نہ میں۔
''بس ایک بچّہ ہونا چاہیے۔ جتنے زیادہ بچّے ہوتے ہیں اُتنا زیادہ آگے چل کے مسئلہ ہوتا ہے، والدین کے لیے۔ ساری اولاد ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہم سات بھائی ہیں۔ ایک بہن تھی۔ اُس کا انتقال ہوگیا، لیکن ماں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں بس میں اکیلا ہی ہوں اپنی ماں کا۔ جب سے بیمار پڑی ہیں۔ سب کچھ میں اکیلا کررہا ہوں۔ میں نے دِل سے نکال دیا ہے بھائیوں کو۔'' سلیم نے بتایا۔
''کیوں! ایسا کیوں ہے؟۔ تم تو کہہ رہے تھے کہ دو بھائی تو ساتھ رہتے ہیں۔ وہ بھی کچھ خیال نہیں کرتے والدہ کا کیا۔ اور باقی بھائی کہاں ہیں؟۔ والد صاحب کا کب انتقال ہوا تھا؟'' میں نے کئی سوال ایک ساتھ کرڈالے۔
''بڑا بھائی تو 20 - 22 سال پہلے سعودیہ چلا گیا تھا۔ چار سال پہلے آیا تھا۔ پچھلے چار سالوں میں ایک بار بھی فون نہیں کیا۔ ہم فون کرتے ہیں تو وہ بھی نہیں اٹھاتا۔ چھوٹا بھائی بھی ماں سے لڑ کر ڈیڑھ دو سال پہلے الگ ہوگیا اور یہ بھائیوں کا قصور نہیں ہے۔ کالے بالوں والیاں ہیں جو بھائیوں کو کچھ نہیں کرنے دیتیں۔''
''کالے بالوں والیاں کون؟'' میرے ذہن میں کھٹ سے جادو تعویز کروانے والیوں کا خیال آیا۔
''کالے بالوں والی بھابھیاں۔ ہر بھائی کی شادی ہوتی گئی اور وہ اپنی اپنی بیوی کے چکر میں اُلجھتا گیا۔ والدہ کی طرف سے اُن کی توجہ بالکل ہٹ گئی۔ لیکن میں نے پہلے دِن سے بیوی کو سمجھادیا تھا، پہلے ماں بعد میں تم۔ اُس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ وہ بھی میرے ساتھ والدہ کی دیکھ بھال میں پورا Cooperate کرتی ہے۔ بھائی چاہتے تو وہ بھی اپنی بیویوں کو سیدھا رکھ سکتے تھے، لیکن بھائیوں نے نہیں سوچا کہ والدہ نے اپنی ساری زندگی ہمیں پالنے پوسنے میں خرچ کری۔''
''تین بھائی مجھ سے بڑے ہیں، تین چھوٹے، میں درمیان میں ہوں۔ میں ابھی 45 سال کا ہوں۔ میں جب دس سال کا تھا تو ابّا کی وفات ہوگئی بیاسی (1982) میں۔ امّاں چاہتیں تو اُس وقت دوسری شادی کرسکتی تھیں۔ اپنا گھر بسا سکتی تھیں، لیکن انہوں نے اپنی اولاد کو ترجیح دہ۔ اور اولاد کیسی نکلی کہ اَب ان کی طبیعت خراب ہے تو اُن کہ پوچھتی نہیں۔ لیکن میں نے یہ سوچ لیا ہے جب تک امّاں زندہ ہیں بس میں ہی اُن کا اکیلا بیٹا ہوں۔ کوئی کچھ کرے نہ کرے، مجھے فرق نہیں پڑتا۔ سب کچھ مجھے اکیلے کرنا ہے۔ دس سال کی عُمر سے چھوٹے چھوٹے کام شروع کردیے تھے۔ پڑھتا بھی تھا اور دکانوں پر کام بھی کرتا تھا۔ میٹرک کیا ہے میں نے۔'' سلیم الزّماں نے بتایا۔
اور بھی بہت کچھ بتایا اُس نے۔ لیکن میری سوچ کی سوئی وہیں رُک گئی کہ سات بیٹے اور وہ بھی کماؤ پوت۔ اور اُن میں سے چھ بیٹے اپنی اُس ماں کے لیے کچھ نہیں کرتے جِس نے اپنی جوانی، بیوگی میں مزدوریاں کرکے گزار دی اور بیٹوں کو بڑا کرکے کام دھندے سے لگایا۔
مجھے نہیں پتا کہ سلیم کے کہنے میں کتنا سچ ہے کتنا جھوٹ۔ لیکن اُس کا ظاہری عمل اور اُس کی باڈی لینگویج، دونوں اُس کی باتوں میں سچائی ہی کو ظاہر کررہے تھے۔ ضعیف اور بیمار والدین کو اگر ایسی آزمائشوں سے گزرنا پڑے تو خون کے سفید ہونے کی حقانیت پر بھی یقین آجاتا ہے۔ سلیم تو اپنی جنّت کھری کر رہا ہے۔ ہم سب کو بھی ذرا دیر کو سوچنا چاہیے، ہم میں سے جِس جِس کے سر پر والدین کا سایہ موجود ہے، کون کون اُن کی حقیقی معنوں میں خدمت کرکے اپنی دنیا اور اپنی آخرت کو آسان بنارہا ہے۔ والدین کی خدمت کی صورت میں قدرت نے ہمیں دونوں دنیاؤں کی کام یابی کا جو شارٹ کٹ عطا کیا ہے، اس کا نعم البدل کچھ اور نہیں اور جِس چیز کا کوئی Alternate نہیں ہوتا وہ واقعتاً دُنیا کی سب سے قیمتی شے ہوتی ہے۔
دہ ماہ پہلے میرے دوست ڈاکٹر عرفان نے ایک خاتون مریضہ میرے پاس علاج کیلئے بھیجی تھی۔ اپنے کارڈ پر انتہائی رعایتی فیس کا لِکھ کر ، کِسی کے بھیجے ہوئے مریض اور استطاعت نہ رکھنے والے مریض مجھے زیادہ خیال زیادہ احترام زیادہ عزّت کے ساتھ دیکھنے پڑتے ہیں۔ اور اگر بھیجنے والا قریبی دوست بھی ہو اور مریض کی حالت خراب بھی ہو تو توجہ کا دائرہ بھی وسیع ہوجاتا ہے۔
عرفان کی سب سے اچھی بات یہی ہے کہ وہ اور دیگر جنرل پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کی طرح اپنے کلینک پر آنے والے ہر مریض کو از خود ہی سمیٹنے یا نمٹانے کی کوشش نہیں کرتا۔ جہاں بھی اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ مرض یا علامات اُس کی جنرل پریکٹس کے تجربے سے باہر ہیں۔ وہ مریض کو متعلقہ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کی طرف بھیج دیتا ہے۔ خصوصاً ذہنی و نفسیاتی امراض کے علاج میں وہ بہت زیادہ احتیاط کرتا ہے اور بالکل صحیح کرتا ہے۔
اکثر ایمرجینسی میں جب ایسا کوئی مریض رات دیر گئے اُس کے کلینک پر پہنچتا ہے تو وہ رات بارہ بجے بھی مجھے فون کرکے اُس کی علامات بتاکر فوری سکون کی ادویات کا نسخہ پوچھتا ہے۔ خود سے سائیکوٹراپک ادویات تجویز کرنے سے گریز کرتا ہے اور بالکل صحیح کرتا ہے۔ عام طور پر بہت سے جنرل فزیشن ہر طرح کے مریضوں کے خود ہی ٹریٹ Treat کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عام طور پر ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگوں کی بیماری میں اور اضافہ کرڈالتے ہیں۔
جب ایسے مریض چار چھ ڈاکٹرز کے تجربات کی نذر ہو کر اور ان گنت غیر ضروری لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس کی سب نارمل، ایک موٹی فائل لے کر سائیکاٹرسٹ تک پہنچتے ہیں تو بہت دِل دُکھتا ہے۔ اِس پر پریکٹس میں محض گلی محلّوں کے چھوٹے چھوٹے کلینکس کے جنرل ڈاکٹرز ہی شامل نہیں، بڑے بڑے نام ور، مشہور اور مستند اسپیشلسٹ فزیشن، سرجن، نیوروسرجن، نیورولوجسٹ، تک کے نسخوں میں سائیکوٹراپک ادویات درج ہوتی ہیں۔
شومئی قسمت سے یہ ماہرین اپنے میدان میں تو ضرور ایکسپرٹ ہوتے ہیں لیکن اعصابی، ذہنی، نفسیاتی امراض دیگر جسمانی عوارض سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی گھر کے دو سگے بھائی جن کے ذہنی مرض کی بظاہر تشخیص ایک ہی کیوں نہ ہو، اُن دونوں کی علامات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں اور چوںکہ ہر شخص کی شخصیت اور مزاج بھی مختلف ہوتا ہے تو نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہر فرد کو بالکل ایک الگ طرح سے Observe اور Handle کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات تو یہاں تک ہوتا ہے کہ مرض کی تشخیص بھی ایک ہوتی ہے۔ علامات بھی ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن دونوں مریضوں کو فائدہ یا Response الگ الگ گروپ کی ادویات سے ملتا ہے۔
پھر تقریباً ساٹھ فی صد مریض ایسے ہوتے ہیں جِن کی ظاہری علامات جسمانی ہوتی ہیں۔ خصوصاً اسٹریس، ڈپریشن، سائیکو سومیٹک ڈس آرڈر میں زیادہ تر علامات مختلف جسمانی نظاموں اور اعضا سے متعلق ہوتی ہیں۔ اِن کی Screening کوئی مستند سائیکاٹرسٹ کرسکتا ہے۔
یہ سب باتیں وقتاً فوقتاً گذشتہ پندرہ سولہ سالوں میں عرفان کے ساتھ براہ راست ہوتی رہی ہیں۔ جب وہ کئی گھنٹے میرے ساتھ کلینک پر گزارتا رہا ہے۔ کئی بار اُس کی موجودی میں مریض آئے تو میں نے اُس سے ہی اُن کی کاؤنسلنگ کروائی اپنے ساتھ اور چوںکہ وہ بہت عملی اور خوب صورت باتیں کرنے کا عادی ہے تو کئی مریضوں کو اُس کے مشوروں سے بہت فائدہ بھی ہوا۔ لیکن اِن سب باتوں کے بیچ وہ یہ بات سمجھ گیا کہ نفسیات یا ذہنی بیماری کے شکار کِسی مریض کو خود سے کوئی دوا تجویز نہیں کرنی۔
سلیم الزّماں بھی جب اپنی والدہ کو لے کر عرفان کے پاس پہنچا اور عرفان نے اُس کی بے ربط گفتگو سُنی اور مریضہ کی فائل میں لگے لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس اور دو تین ڈاکٹروں کے آٹھ دس نُسخے دیکھے تو اُس نے فوراً سلیم کو میرا پتا بتادیا اور مجھے بھی فون کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ سلیم کئی دِنوں کے بعد اپنی والدہ کو لے کر آیا۔ اتنے تجربات کے بعد کِسی نئے ڈاکٹر کا تجربہ کرنا ذرا مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔
اُس دِن اتفاق سے میرے پاس ایک دو ملاقاتی بیٹھے تھے۔ سلیم اور اُس کی والدہ کو انتظار کرنا پڑا۔ مجھے اپنے کمرے تک مریضہ کی ہیجانی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ مستقل بول رہی تھیں اور زور زور سے آوازیں دے رہی تھیں۔ گفتگو میں کوئی ربط نہیں تھا۔
سلیم الزّمان سے ہسٹری لینے پر پتا چلا کہ ڈیڑھ سال پہلے اچانک طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔ پہلے نیند ختم ہوئی پھر بھوک پھر بے ربط گفتگو اور پھر آہستہ آہستہ یادداشت خراب ہونے لگی۔ کئی ڈاکٹروں کو دِکھایا۔ ایک سائیکاٹرسٹ سے بھی علاج کروایا، جِن کی دواؤں سے شروع میں تھوڑا آرام آیا۔ نیند آنے لگی۔ مگر چلنا پِھرنا بند ہوگیا۔ یادداشت ٹھیک نہ ہوسکی اور پھر اچانک دواؤں نے کام بند کردیا اور مریضہ کی ہیجانی کیفیت ہوگئی۔
''اِن کو کہیں داخل کروادیں ڈاکٹر صاحب! گھر میں نہیں سنبھالی جاتیں۔ بہت بُری حالت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں۔ کوئی نہیں ہے جو دیکھ بھال کرے اِن کی۔ پیشاب پاخانہ سب بستر پر کر دیتی ہیں۔ نہ خود سے باتھ روم جاتی ہیں نہ بتاتی ہیں۔'' سلیم الزّماں کا دُکھ اُس کے لہجے سے عیاں تھا۔
''پریشان نہ ہو بھائی! انشاء اللہ سب خیر ہوگی۔ کہیں داخل کروانے کی ضرورت نہیں۔ جہا ں اتنے دِن تکلیف برداشت کی ہے بس پانچ چھے دِن اور صبر کرلو۔ ایک ہفتے میں طبیعت سنبھل جائے گی، لیکن یادداشت کا مسئلہ نہیں صحیح ہوپائے گا۔'' میں نے اُسے تسلّی دی۔ میں اُس کی دِلی کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔
''بس یہ چیخنا چلّانا بند کردیں کِسی طرح۔ پورا محلّہ پریشان ہوگیا ہے۔ اوپر نیچے سب گھر والے عاجز آگئے ہیں۔ بھائی بھابھیاں سب کہہ رہے ہیں ایدھی سینٹر میں چھوڑ آؤ اِن کو۔ میں کیسے چھوڑ آؤں وہاں۔ میری ماں ہیں یہ۔'' سلیم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں کبھی اُس کی والدہ کو دیکھ رہا تھا جو سامنے بیٹھی مستقل ہل رہی تھیں اور نان اسٹاپ بولے چلی جارہی تھیں، ''میرا بچّہ، میرا بچّہ، میرا بیٹا، میرا بیٹا، کہاں گیا، کہاں گیا۔ آگیا وہ، آگیا وہ۔''
''یہ کِس کو پکار رہی ہیں؟'' میں نے سلیم سے پوچھا۔
''بس کوئی بھی بات پکڑ لیتی ہیں اور پھر اُسے دہراتی رہتی ہیں۔ کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ اب کل رات سے یہ جملے بول بول کر گھر سر پر اُٹھا رکھا ہے۔ تین دن ہوگئے ہیں۔ سب کو جاگتے ہوئے۔ کوئی نہیں سو پارہا۔ اِن کے شور سے سب تنگ آگئے ہیں۔ کل تو محلّے والے گھر آگئے تھے کہ اِن کو داخل کروادو کہیں۔ میں پچھلے ڈاکٹر کی دوا مستقل دے رہا ہوں۔ مگر اُلٹا فائدے کے وہ نقصان کررہی ہیں۔ کیا کروں میں۔ میں اکیلا ہی اِن کو دیکھ رہا ہوں۔ کوئی اور بھائی یا بھابھی نہیں کرتے اِن کا خیال۔ دو بھائی اوپر نیچے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ پانچ دِن سے میں کام پر بھی نہیں گیا۔ پہلے بیوی کے علاج پر لاکھوں لگ گئے۔ اللہ اللہ کرکے وہ ٹھیک ہوئی تو والدہ بیمار پڑگئیں۔ بیوی کا تو مجھے ہی کرنا تھا سب کچھ، والدہ تو سب کی ہیں۔ سات بھائی ہیں۔ کوئی نہیں کرتا کچھ۔''
سلیم کے لفظ لفظ سے اُس کا دُکھ، درد اور غصّہ اور مایوسی چھلک رہی تھی۔ ''تیسرے مالے سے اِن کو نیچے اتارنا بھی ناممکن ہے۔ آج بھی محلّے سے پانچ لوگوں کی مدد لے کر آپ کے پاس لایا ہوں۔ بار بار نہیں لاسکتا۔ میں خود آجایا کروں گا آپ کو اِن کا حال بتانے۔''
''کوئی بات نہیں۔ بس آج دیکھ لیا اِن کو، کافی ہے۔ انشاء اللہ اِن کو نہیں لانا پڑے گا۔ تم ایک ہفتے تک یہ دوائیاں اِن کو کھلاؤ۔ اگر شروع میں نیند زیادہ آئے تو پریشان نہیں ہونا۔ اِن کے دماغ کا کرنٹ بہت تیزی سے چل رہا ہے۔ آرام کی ضرورت ہے۔'' میں نے نسخہ لِکھ کر سلیم کے حوالے کیا اور دِل سے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ اِن کی تکلیف کو دور کردے۔
اللہ کے کرم سے پہلے ہی ہفتے میں افاقہ ہونا شروع ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد سلیم اکیلا آیا۔ اور حال بتا کر دوا لِکھوا کر چلاگیا۔ گذشتہ دو ماہ میں دو بار سلیم کی والدہ کی طبیعت دو بار خراب ہوئی۔ دواؤں کے Dose میں ردّوبدل کرنے سے کئی بار ایسا ہوجاتا ہے۔ لیکن مریض اور گھر والے چوںکہ یہ طبّی نکتہ نہیں جانتے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔
آج سلیم تین ہفتوں بعد میرے پاس آیا۔ اِس دوران وہ والدہ کو باقاعدگی سے دوائیاں کِھلاتا رہا تھا۔ ایک دہ دِن ناغہ ہوگیا تو طبیعت دوبارہ بگڑ ی۔ ورنہ ٹھیک رہی۔ ماسوائے اِس کے کہ اب قبض ہوگیا تھا اور بستر سے اُترنا نہیں تھا۔ یادداشت کا مسئلہ ہنوز برقرار تھا۔
اور آج کے دِن ہی سلیم سے فراغت میں سلیم کے بارے میں تفصیلی گفتگو کا موقع مِلا کہ اب والدہ کے حوالے سے نہ وہ زیادہ پریشان تھا اور نہ میں۔
''بس ایک بچّہ ہونا چاہیے۔ جتنے زیادہ بچّے ہوتے ہیں اُتنا زیادہ آگے چل کے مسئلہ ہوتا ہے، والدین کے لیے۔ ساری اولاد ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہم سات بھائی ہیں۔ ایک بہن تھی۔ اُس کا انتقال ہوگیا، لیکن ماں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں بس میں اکیلا ہی ہوں اپنی ماں کا۔ جب سے بیمار پڑی ہیں۔ سب کچھ میں اکیلا کررہا ہوں۔ میں نے دِل سے نکال دیا ہے بھائیوں کو۔'' سلیم نے بتایا۔
''کیوں! ایسا کیوں ہے؟۔ تم تو کہہ رہے تھے کہ دو بھائی تو ساتھ رہتے ہیں۔ وہ بھی کچھ خیال نہیں کرتے والدہ کا کیا۔ اور باقی بھائی کہاں ہیں؟۔ والد صاحب کا کب انتقال ہوا تھا؟'' میں نے کئی سوال ایک ساتھ کرڈالے۔
''بڑا بھائی تو 20 - 22 سال پہلے سعودیہ چلا گیا تھا۔ چار سال پہلے آیا تھا۔ پچھلے چار سالوں میں ایک بار بھی فون نہیں کیا۔ ہم فون کرتے ہیں تو وہ بھی نہیں اٹھاتا۔ چھوٹا بھائی بھی ماں سے لڑ کر ڈیڑھ دو سال پہلے الگ ہوگیا اور یہ بھائیوں کا قصور نہیں ہے۔ کالے بالوں والیاں ہیں جو بھائیوں کو کچھ نہیں کرنے دیتیں۔''
''کالے بالوں والیاں کون؟'' میرے ذہن میں کھٹ سے جادو تعویز کروانے والیوں کا خیال آیا۔
''کالے بالوں والی بھابھیاں۔ ہر بھائی کی شادی ہوتی گئی اور وہ اپنی اپنی بیوی کے چکر میں اُلجھتا گیا۔ والدہ کی طرف سے اُن کی توجہ بالکل ہٹ گئی۔ لیکن میں نے پہلے دِن سے بیوی کو سمجھادیا تھا، پہلے ماں بعد میں تم۔ اُس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ وہ بھی میرے ساتھ والدہ کی دیکھ بھال میں پورا Cooperate کرتی ہے۔ بھائی چاہتے تو وہ بھی اپنی بیویوں کو سیدھا رکھ سکتے تھے، لیکن بھائیوں نے نہیں سوچا کہ والدہ نے اپنی ساری زندگی ہمیں پالنے پوسنے میں خرچ کری۔''
''تین بھائی مجھ سے بڑے ہیں، تین چھوٹے، میں درمیان میں ہوں۔ میں ابھی 45 سال کا ہوں۔ میں جب دس سال کا تھا تو ابّا کی وفات ہوگئی بیاسی (1982) میں۔ امّاں چاہتیں تو اُس وقت دوسری شادی کرسکتی تھیں۔ اپنا گھر بسا سکتی تھیں، لیکن انہوں نے اپنی اولاد کو ترجیح دہ۔ اور اولاد کیسی نکلی کہ اَب ان کی طبیعت خراب ہے تو اُن کہ پوچھتی نہیں۔ لیکن میں نے یہ سوچ لیا ہے جب تک امّاں زندہ ہیں بس میں ہی اُن کا اکیلا بیٹا ہوں۔ کوئی کچھ کرے نہ کرے، مجھے فرق نہیں پڑتا۔ سب کچھ مجھے اکیلے کرنا ہے۔ دس سال کی عُمر سے چھوٹے چھوٹے کام شروع کردیے تھے۔ پڑھتا بھی تھا اور دکانوں پر کام بھی کرتا تھا۔ میٹرک کیا ہے میں نے۔'' سلیم الزّماں نے بتایا۔
اور بھی بہت کچھ بتایا اُس نے۔ لیکن میری سوچ کی سوئی وہیں رُک گئی کہ سات بیٹے اور وہ بھی کماؤ پوت۔ اور اُن میں سے چھ بیٹے اپنی اُس ماں کے لیے کچھ نہیں کرتے جِس نے اپنی جوانی، بیوگی میں مزدوریاں کرکے گزار دی اور بیٹوں کو بڑا کرکے کام دھندے سے لگایا۔
مجھے نہیں پتا کہ سلیم کے کہنے میں کتنا سچ ہے کتنا جھوٹ۔ لیکن اُس کا ظاہری عمل اور اُس کی باڈی لینگویج، دونوں اُس کی باتوں میں سچائی ہی کو ظاہر کررہے تھے۔ ضعیف اور بیمار والدین کو اگر ایسی آزمائشوں سے گزرنا پڑے تو خون کے سفید ہونے کی حقانیت پر بھی یقین آجاتا ہے۔ سلیم تو اپنی جنّت کھری کر رہا ہے۔ ہم سب کو بھی ذرا دیر کو سوچنا چاہیے، ہم میں سے جِس جِس کے سر پر والدین کا سایہ موجود ہے، کون کون اُن کی حقیقی معنوں میں خدمت کرکے اپنی دنیا اور اپنی آخرت کو آسان بنارہا ہے۔ والدین کی خدمت کی صورت میں قدرت نے ہمیں دونوں دنیاؤں کی کام یابی کا جو شارٹ کٹ عطا کیا ہے، اس کا نعم البدل کچھ اور نہیں اور جِس چیز کا کوئی Alternate نہیں ہوتا وہ واقعتاً دُنیا کی سب سے قیمتی شے ہوتی ہے۔