کارونجھر کے دامن میں ذکر صحرائے تھر کے سحرزدہ کرتے نظاروں کا

صحرائے تھر کا شمار دنیا کے چند ایک بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے۔

سندھ دھرتی کی آواز شیخ ایاز نے بجا طور پر صحرائے تھر کو فطرت کا عجائب گھر لکھا تھا۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
گذشتہ 7، 8 سال سے قومی و عالمی میڈیا نے تھرپارکر کی جو منظرکشی کی ہے اس سے عمومی تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف بھوک افلاس، قحط، غذائی قلت اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے اموات ہی صحرائے تھر کا مقدر ہیں۔

یہ تمام حقائق اپنی جگہ لیکن یہ صرف ایک رخ ہے۔ 20 ہزار کلو میٹر رقبے پر مشتمل ضلع تھرپارکر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ صحرائے تھر کا شمار دنیا کے چند ایک بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے۔ اپنی ویرانی، اداسی اور خوبیوں کے سبب یہ صحرا اپنی مثال آپ ہے۔ بارشوں میں شمالی علاقہ جات کا منظر پیش کرتا اور انسانوں اور جانوروں کے لیے بہشت بریں بنا یہ صحرا قحط میں بچوں اور موروں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ سندھ دھرتی کی آواز شیخ ایاز نے بجا طور پر صحرائے تھر کو فطرت کا عجائب گھر لکھا تھا۔ فطرت کے اس عجائب گھر کا ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی ٹیلوں کے درمیان آباد ایک نہایت خوب صورت شہر ہے۔

حالیہ بارشوں کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر نے دل کو مجبور کیا کہ فطرت کے اس میوزیم کو دیکھا جائے۔ باہمی مشاورت کے بعد سنیئر صحافی دوستوں کے ساتھ پروگرام کو حتمی شکل دی۔ جمعرات سہ پہر 3 بجے کراچی پریس کلب سے تھرپارکر کے لیے روانہ ہوئے۔ گھارو، ٹھٹھہ، سجاول، بدین سے ہوتے ہوئے مٹھی شہر کی حدود میں داخل ہوئے تو رات کے 10:30بجے تھے اور مخصوص اْداسی فضا پر غالب تھی۔ ہمارے میزبان اور الخدمت کمپلیکس مٹھی کے پراجیکٹ منیجر سبحان سمیجو بھائی مٹھی شہر کی "پیشانی" گدی بھٹ پر ہمارے منتظر تھے جہاں ایک مقامی ہوٹل میں ہمارے لیے گرماگرم کھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔

گدی بھٹ ایک ایک بڑا پہاڑی ٹیلا ہے (سندھی میں ٹیلے کو بھٹ کہتے ہیں) جہاں سے مٹھی شہر کا خوب صورت نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔ خاص طور پر رات کے وقت برقی قمقمے اس شہر کو منور کرتے ہیں تو ٹیلے پر سے شہر کا نظارہ آپ کو مبہوت کردیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے اور آپ ایک خوب صورت منظر میں سموگئے ہیں۔ سفر کی تھکان اور بھوک کی شدت نے زیادہ دیر ہمیں دل موہ لینے والے منظر کا نظارہ کرنے نہ دیا اور ہم اْسی ٹیلے پر موجود ایک ریستوراں میں کھانے کھانے کے بعد قریبی ریسٹ ہاؤس گئے جہاں ٹھنڈے کمرے گرم بستر کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔

صبح 6 بجے اٹھ کر نماز فجر پڑھی تو گرماگرم چائے تیار تھی۔ 7 بجے کے قریب ہم مٹھی بائے پاس پر موجود الخدمت تھر کمپلیکس پہنچے اس پراجیکٹ کے منیجر سبحان بھائی کے مطابق 5 ایکٹر پر تعمیر یہ کمپلیکس رواں سال اکتوبر میں تھر پاکر کی عوام کو مفت خدمات فراہم کرے گا۔ خوب صورت طرزتعمیر اور جدید سہولیات سے آراستہ یہ کمپلیکس تھر کی عوام کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوگا۔

9 بجے کے قریب ننگرپارکر کے لیے روانہ ہوئے۔ ابھی مٹھی کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ سبحان بھائی نے گاڑی رکوائی، روڈ کے دائیں جانب ایک یاد گار موجود تھی۔ 1971 کی جنگ میں نامراد بھارتی فوج اس مقام تک آگئی تھی، پاکستانی فوج کو یہ اطلاع کافی تاخیر سے ملی، بعد ازاں پاک فوج کے ایک ہی دستے نے ان کو مار بھگایا۔ اس واقعے کی یاد میں یہاں ایک یادگار تعمیر کردی گئی۔

پروگرام کے مطابق ناشتہ ہمارے صحافی دوست عبدالغنی بجیر کے شہر اسلام کوٹ میں طے تھا۔ بھنڈی، آملیٹ، دہی اور پراٹھے، بھرپور دیسی ناشتہ کیا اور تازہ دودھ کی چائے نوش کی، ناشتہ کے بعد اللہ کی نعمتوں شکر ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ چند کلومیٹر بعد ہی اس کشادہ اور بہترین شاہراہ نے ہم سے جدائی اختیار کرکے تھر کول فیلڈ کی طرف اپنا رخ موڑ لیا۔

سفر جاری تھا۔ ہم ایک نسبتاً تنگ سڑک پر ننگرپارکر کی طرف بڑھ گئے۔ 30 ، 35 کلومیٹر بعد رفتہ رفتہ سڑک کے دونوں اطراف ریت کے بلند ٹیلوں کا سلسلہ ختم ہوتا گیا۔ ہمارا سفر اب زیادہ تر میدانی علاقے میں جاری تھا۔ راستے میں صحرائے تھر چاروں طرف سے ہری چادر اوڑھی ہوئی تھی، 12سیٹر ہائی ایس راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں کو کراس کرتی ہوئی ننگرپارکر کی طرف رواں دواں تھی۔ تھرپارکر میں 8،10فٹ کے گول کمرہ نما گھر بنائے جاتے ہیں جن کی چھت گھاس پھوس سے تیار کی جاتی ہے۔ ان گھروں کو مقامی زبان میں چونڑا کہا جاتا ہے۔ ایک درمیانے سائز کا چونڑا تقریباً 15 سے 20 ہزار میں تیا ر ہوجاتا ہے۔ چونڑا کے رہائشیوں کے مطابق یہ سردی میں گرم اور گرم میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔

11بجے کے لگ بھگ ہم ویراواہ کے قصبے کی طرف جانے والے چوک پر واقع رینجرز کی چوکی پر پہنچ گئے۔ ننگرپارکر پاک بھارت سرحد کے قریب کا آخری بڑا قصبہ ہے، اس لیے رینجرز کی چوکیوں کی اس علاقے میں موجودگی ایک لازمی امر تھا۔

شناختی کارڈ کے اندراج کے بعد آگے بڑھے تو سڑک کی حالت پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئی۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک گاؤں میں پختہ عمارت کے سامنے گاڑی رکی، یہ ایک این جی او کا دفتر تھا جو کہ حکومت سندھ کے تعاون سے 6 ماہ سے کم عمر بچوں اور حاملہ خواتین کی خوراک پر کام کر رہی ہے۔ اس وقت تھر پاکر ضلع میں این جی اوز بہت سرگرم ہیں۔ ان فلاحی اداروں نے حالیہ قحط میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب بھی جا بجا ان تنظیموں کے اسکول، کنویں، طبی مراکز قائم ہیں جو کہ اپنے حصے کا کام کررہے ہیں،


این جی اوکے دفتر سے نکل کر بہ مشکل 5 منٹ ہی آگے چلے ہوں گے کہ ننگرپارکر کی خوب صورت پہاڑیوں کے عین سامنے پہنچ گئے۔ انتہائی ہموار اور وسیع و عریض میدانوں کے درمیان بڑے بڑے سرخی مائل بھورے پتھروں کی چٹانیں قدرت نے اس خوب صورتی اور سلیقے سے سجا رکھی ہیں کہ ہم حیرت سے ان حسین نظاروں کو تکتے رہ گئے۔ چٹانوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نوکیلی نہیں بل کہ بہت ہم وار اور خوبصورت گولائی لیے ہوئے ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ کارونجھر کہلاتا ہے سندھی زبان میں جس کا مطلب ہے کالی دھاریوں والے پہاڑ۔

دو دن قبل ہونے والی بارشوں کی وجہ سے سڑک پر بھی پانی نظر آرہا تھا، گاڑی مسلسل چڑھائی چڑھ رہی تھی کہ ایک خودساختہ پارکنگ نظر آئی اور فیصلہ کیا کہ اب پیدل اس پہاڑی سلسلے کو سر کیا جائے اور قدرت کے ان حسین نظاروں کو قریب تر ہو کر دیکھا جائے۔ ننگرپارکر کے پہاڑوں کے بارے میں مقامی لوگوں میں مشہور ہے کہ یہ روزانہ سوا کلو سونا اُگلتا ہے، جب کہ یہاں گرینائیڈ بھی پایا جاتا ہے اور قیمتی جڑی بوٹیاں اُگتی ہیں۔ کچھ مقامی لوگ جڑی بوٹیاں بیچتے بھی نظر آئے، جن میں وہ پیٹ کے درد، جسم کے درد اور دیگر بیماریوں کا علاج بتا رہے تھے۔

قدرتی مناظر میں گم ہم آبڑھتے اور کیمرے کی آنکھ کو جھپکاتے جارہے تھے۔ مور کی آواز ماحول میں ایک عجب سا سرور پیدا کر رہی تھیں، دو چار جگہ مور نظر بھی آئے لیکن کیمرا سنبھالنے سے پہلے ہی شرماکر جھاڑیوں میں گم ہوجاتے۔ پہاڑ چڑھتے چڑھتے ایک قدرتی چشمے تک پہنچ گئے۔ گو کہ چشمہ چھوٹا تھا مگر حالیہ بارشوں کی وجہ سے پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ مسلسل پہاڑ چڑھنے کی کی وجہ سے تقریباً سب ہی تھک چکے تھے۔ اس لیے چشمے کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی سے ہاتھ منہ دھوکر کر سستانے کے لیے قریب ہی بیٹھ گئے اور سوچ اچانک ان ریگزاروں میں بدلتے موسموں کے رنگوں میں کھو گئی۔ برسات کے دنوں میں کالی گھٹاؤں کے برسنے کا تصور کیا تو اس زرخیز صحرا میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی اور سبزرنگ پھیل گئے۔

کارونجھر کے پہاڑوں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے، گنگناتی ندیاں چٹانوں کی بلندیوں سے اترکر ریتیلے میدانوں کے بیچ بہتی ہوئی کہیں چھوٹے چھوٹے ڈیموں کو لبالب بھر تی تھیں تو کہیں ریت کے ٹیلوں کے درمیان بنے قدرتی تالابوں میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا تھا، تھر واسیوں کے چہرے کِھل اُٹھتے تھے، ان کی کھیتیاں سیراب ہوکر لہلہاتی تھیں، بھیڑ بکریاں، گائیں، اونٹ اور دیگر جانور غول در غول کسی ڈیم یا تالاب کنارے اکٹھے ہو کر اپنی پیاس بجھاتے اور ریت کے ٹیلوں اور میدانوں میں پھیلی گھاس چرتے پھرتے تھے۔ ننگرپارکر کی سرخ چٹانیں نہا دھو کر اپنی سجاوٹ اور سرخی میں مزید نکھار لاتی تھیں۔ کہیں کسی ریگزار میں مورخوشی سے رقص کرتے تھے۔ ساون کے موسم کی چند بھرپور بارشیں تھر واسیوں کے لیے پورے سال خوشیاں بکھیر دیتی تھیں۔

دماغ میں اچانک ساون کے کچھ بانجھ موسموں کا خیال سرسرایا کہ جب کچھ برس قیامت بن کر آتے ہیں، ان ریگزاروں سے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں، ذہن میں تپتے ہوئے صحرا کی جھلسا دینے والی ریت کے بگولے سے اٹھے، کہیں یہاں کے باشندوں کو پانی کے ایک ایک قطرے کی تلاش میں بھٹکتے دیکھا تو کہیں پیاسے جانوروں اور موروں کے پنجر ریت کے ٹیلوں پر بکھرے پڑے دیکھے۔ دیکھا کہ بیماریوں، بھوک، پیاس، قحط اور غربت و افلاس کے عفریت نے اس عظیم صحرا کو جکڑ رکھا ہو۔ دل بہت کڑھا اور اداس ہوا۔

سوچ کے سمندر میں ٹھہراؤ آیا تو اٹھے اور اسی پہاڑی پر اوپر چڑھتے ہوئے چشمے کو کراس کیا۔ بائیں جانب نشیب کی طرف جاتی راہ سے اتر کر بالکل سامنے نظر آتے پہاڑوں سے نیچے آتی خشک ندی کے کنارے بنے مندر کے قریب جا پہنچے۔ یہاں کوئی رکھوالا تو نہ تھا البتہ کچھ یاتری بھٹکتے نظر آئے۔ مزید نشیب کی طرف آئے تو ایک تنگ پہاڑی نالہ نیچے اتر رہا تھا اور جس جگہ یہ پہاڑی نالہ اتر رہا تھا وہاں ایک چھوٹا سا تالاب تھا، جس میں تیرتا پہاڑی کا عکس انتہائی دل کش تھا۔ موقع پاتے ہی اس خوب صورتی کو پس منظر میں رکھتے ہوئے ایک سیلفی بنالی۔ دن کا 1بج چکا تھا۔ جمعہ کی نماز بھی پڑھنی تھی۔ ہمارے میزبان کو بھی اس کا احساس ہوا تو انھوں نے ننگر شہر واپسی کا عندیہ دیا۔

دل تو نہ چاہتا تھا کہ کارونجھر کے دامن سے اتنی جلدی رخصت ہوا جائے لیکن چارونارچار گاڑی میں سوار ہوکر شہر کی تنگ گلیوں، بازاروں سے گزرتے ہوئے آرمی پبلک اسکول (لقمان شہید) ننگر پارکر پہنچے جہاں ہمارے لیے چائے کا انتظام تھا۔ نماز بھی اسکول کی مسجد میں ادا کرنی تھی۔ اسکول پرنسپل کے مطابق یہ اسکول ایک تاریخی میں قائم ہے، جو 1913 میں تعمیر کی گئی اور پاکستان بننے سے قبل تک ٹریژری آفس کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔

پاکستان بننے کے بعد یہ عمارت محکمہ ریوینیو کے آفس میں تبدیل ہوگئی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یہ عمارت ویران ہوگئی۔ 2001کے زلزلے کے بعد یہ عمارت مخدوش ہوگئی تھی۔ 2008 میں پاکستان آرمی کے میجر جنرل شاہد حشمت کا یہاں سے گزر ہو ا تو وہ جھاڑیوں کے درمیان اس پرانی عمارت کو دیکھ کر رک گئے۔ مقامی افراد نے تفصیلات سے آگاہ کیا تو میجر نے فوری طور پر اپنے پروٹوکول میں شامل 2 اہل کاروں کو جھاڑیوں کی کٹائی پر لگادیا، کچھ ہی عرصے بعد حکومتِ سندھ کی باقاعدہ اجازت کے بعد یہ عمارت آرمی پبلک اسکول میں تبدیل ہوگئی۔

نمازجمعہ کی ادائیگی کے بعد پاک بھارت سرحد کے قریب ترین گاؤں کاسبو کی طرف روانہ ہوئے جو کہ ننگر پارکر سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ راستے میں بل کھاتی پکی سڑک پر چلے جا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے پر کبھی کبھار ایک محراب نما چھوٹی سی یادگار نظر آتی، جیسے صحرا میں ایک کھلونا پڑا ہو، ایک گڑیا گھر ہو، اتنی مختصر۔ کسی میں کوئی بجھا ہوا چراغ ہوتا اور کسی میں کچھ پھول پڑے ہوتے۔ دراصل یہ چھوٹے چھوٹے مندر تھے، یہاں سے گزرنے والے ہندو مسافر ان کے آگے سجدہ ریز ہو کر سفر بخیر کٹنے کی پراتھنا کرتے اور دوچار پھول چڑھا کر چل دیتے۔ پاکستان کا آخری قصبہ کاسبو صحرائی دیدہ زیبی میں بے مثال ہے۔

اس کی گلیوں میں مور مرغیوں کے مانند ٹہلتے پھرتے ہیں۔ یہاں بھی ایک بڑے احاطے میں قدیم شیو مندر تعمیر تھا جہاں یاتریوں کی ایک بڑی تعداد پوجا کے لیے آئی ہوئی تھی۔ مندر کے احاطے میں جگہ جگہ مور من مستیاں کرتے نظر آئے، قریب ہی باجرے کے کھیت میں، جہاں بیلوں کے ذریعے ہل چلایا جارہا وہیں دو مور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے زور آزمائی کرتے نظر آئے، جانے اقتدار کی جنگ تھی یا کسی جاگیر پر جھگڑا، ہم نے بغیر تفصیل میں گئے ان مناظر کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔

مندر کی چار دیواری میں ہی ایک گائیک فن کار اپنی سریلی آواز میں ہی مھنجوتھرآ (یہ میرا تھر ہے ) کے بول گا کر سامعین سے تھر پاکر کی خوب صورتی کے تذکر ے کررہا تھا۔ اس خوب صورت آواز کے ساتھ ہی ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس امید کے ساتھ کہ پھر کبھی آئیں گے صحرائے تھر کے خوب صورت سناٹوں کی قربت میں اور کارونجھر کے دامن میں بکھری شفاف چاہتوں کے حصار میں۔
Load Next Story