نیب کامختلف مقدمات میں سپریم کورٹ کی ہدایات پراعتراض

آر پی پی،اسٹیل مل،ایساف کنٹینرز اور اوگراکامعاملہ نیب پرچھوڑ دیاجائے،پراسیکیوٹرجنرل


Numainda Express February 19, 2013
فوٹو: فائل

قانون کے مطابق نیب کے کام میں نہ تومداخلت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی نیب کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ایک آئینی عدالت ہے جس کا کام مقدمات اور قوانین کا عدالتی جائزہ لینا ہے، اگرسپریم کورٹ سے براہ راست مقدمات نیب ،ایف آئی اے اور دیگر تفتیشی اداروںکو بھیجنے کا عمل جاری رہا تو آئندہ لوگ دادرسی کیلیے براہ راست عدالت عظمٰی آئیں گے جس سے غلط روایت قائم ہوگی ۔یہ بات پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے عدنان خواجہ کی غیر قانونی تقرری اور احمد ریاض شیخ کی ترقی کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہی۔جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل ڈویژن بینچ نے پراسیکیوٹر جنرل کی درخواست پر کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی اور انہیں مقدمے کے مندرجات پر دلائل دینے کی ہدایت کی ہے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے عدالت ناانصافیوں پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی،ملک میں جمہوریت کے باوجود ہم ایک غیر معمولی صورتحال میں رہتے ہیں جس میں عدالت آئینی دائرہ اختیارکے استعمال کا سہارا لے سکتی ہے۔کے کے آغا نے مختلف مقدمات میں نیب کی انکوائریوں اور تفتیش کے عمل پر سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہدایات پراعتراض کیا اورکہا کہ وہ چیئرمین نیب کے اختیار پر بات کرنا چاہتے ہیں ،نیب خود مختار ادارہ ہے اورکسی معاملے کی انکوائری وتفتیش کرنے اور ریفرنس دائرکرنے یا نہ کرنے کا اختیار چیئرمین کے پاس ہے۔



نیب کی رائے میں سپریم کورٹ انکوائری کے عمل میں نہ تو مداخلت کرسکتی ہے اور نہ ہی نگرانی کر سکتی ہے،نیب قانون کسی کو مداخلت یا نگرانی کی اجازت نہیں دیتا،آر پی پی،اسٹیل مل،ایساف کنٹینرز اور اوگرا کا معاملہ نیب پر چھوڑ دیا جائے ،اگر سپریم کورٹ ہر معاملے میں براہ راست مداخلت کرے گی تو عدالت کے جائزہ لینے کا اختیار متاثر ہوگا۔جسٹس جمالی نے کہا اگر چیئرمین نیب کسی کیس کو تفتیش کے مرحلے سے آگے نہ جانے دیں تو معاملہ تو ختم ہوگیا پھر اس فیصلے کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا اگر پراسیکیوٹر جنرل عدالت کو دائرہ اختیار پر مطمئن کر لیتے ہیں تو ہم اپنا ہاتھ اٹھا لیںگے لیکن اگر عدالت کے حکم پر عمل کرنا آئینی پابندی ہے تو پھر عمل ہونا چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں