تحریک طالبان کی حکومت کو پیشکش پاک فوج الگ رہے گی

پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا،فوج رائے محفوظ رکھے گی، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ

پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا،فوج رائے محفوظ رکھے گی، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ فوٹو: اے ایف پی

تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے سیاسی قیادت کو مذاکرات کی پیشکش پر پاک فوج نے کالعدم تنظیم کی اس پیشکش اور اس کے جواب میں سیاسی قیادت کے ردعمل سے خود کو الگ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس پالیسی فیصلے کے بعد فوجی قیادت نے اس معاملے پر کوئی بیان جاری کرنے یا اس بارے میں ہونے والی سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں بھی براہ راست شریک نہ ہونے کا واضح اشارہ دیا ہے۔ پاک فوج کے اس فیصلے کے بعد کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا منگل 19فروری کو ہونے والا اجلاس ممکنہ طور پر تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس اجلاس میں ملکی سیاسی اور فوجی قیادت نے کالعدم تنظیم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر غور کرنا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حزب اختلاف کے رہنما نواز شریف کی جانب سے مذاکرات کی حمایت کے بعد وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے اس پیشکش پر غور کرنے کے لیے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا۔




وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کابینہ کمیٹی کا یہ اجلاس منگل 19 فروری کو طلب کیا تھا تاہم کابینہ ڈویژن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس اجلاس کے انعقاد کے لیے حتمی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جاسکا۔ روایات کے مطابق وزیراعظم کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس کے لیے مسلح افواج کے سربراہوں سے ابتدائی مشاورت کے بعد تاریخ تجویز کرتے ہیں اور ایجنڈے کی تیاری کے لیے سول اور فوجی حکام میں روابط کے بعد اجلاس کا حتمی نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس سے ایک دن پہلے تک کابینہ کمیٹی کے اجلاس کا ایجنڈا طے نہیں کیا جاسکا۔ فوجی قیادت طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل کرنے کے حق میں نہیں ہے۔اہم عہدے پر تعینات ایک فوجی افسر کا کہنا ہے کہ فوج طالبان کے ساتھ اس موقع پر مذاکرات کے حق میں نہیں ہے لیکن وہ اس بارے میں سیاسی قیادت کے فیصلے پر اثر انداز بھی نہیں ہوناچاہتی۔ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے مذاکرات شروع کرنے کی یہ پیشکش ''بے موقع اور گمراہ کن'' ہے جس کا پاکستانی ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے اور امکان یہی ہے کہ اعلیٰ فوجی قیادت اس معاملے میں اپنی رائے محفوظ رکھے گی۔
Load Next Story