نادرا مراکز میں عملے کی فرعونیت عوام کہاں جائیں

اب انٹرویو کے نام پر شناختی کارڈ بنوانے والوں کی تذلیل اور توہین کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

اب انٹرویو کے نام پر شناختی کارڈ بنوانے والوں کی تذلیل اور توہین کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستانی شہریوں کے شناختی کارڈ بنانے والے ادارے ''نادرا'' میں سرکاری ملازمین کی جانب سے سائلین کے ساتھ فرعونیت والا سلوک ریاست کےلیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہاں آنے والے افراد کی تذلیل و توہین، نادرا ملازمین کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے اور وہ خود کو ایسا بادشاہ سمجھتے ہیں جس کا فرمان اور فیصلہ حرفِ آخر ہوتا ہے۔


ایک بادشاہ نے اپنے عوام کے صبر کا امتحان لینے کا سوچا اور ایک شہر سے دوسرے شہر آنے جانے والے پل پر ٹیکس لگادیا۔ عوام نے دبے دبے غم و غصے کا مظاہرہ لیکن بادشاہ کے خلاف کھل کر کچھ کہنے کی ہمت کسی میں نہ ہوئی اور سب چپ چاپ ٹیکس دینے لگے۔ کچھ روز بعد بادشاہ نے ٹیکس دگنا کردیا۔ عوام کو شدید غصہ آیا اور انہوں نے ظلم پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بادشاہ نے فوج سے کہا کہ نہ صرف ٹیکس وصول کرو بلکہ عوام کے سر پر ایک ایک جوتا بھی مارو۔ کچھ روز بعد عوام کا ایک نمائندہ وفد بادشاہ سے ملنے آیا۔ بادشاہ نے پوچھا کیا بات ہے؟ وفد نے کہا بادشاہ سلامت، سپاہیوں کی تعداد بڑھادی جائے، رش زیادہ ہوتا ہے لیکن فوجیوں کی تعداد کم ہے جس کی وجہ سے جوتے کھانے والوں کی قطار بہت لمبی ہوجاتی ہے اور لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔

ایسا ہی کچھ معاملہ اس وقت نادرا کے دفاتر میں بھی پیش آرہا ہے۔ نادرا کا عملہ سائلین کے ساتھ انتہائی بدسلوکی سے پیش آرہا ہے۔ یہاں تک کہ خواتین ہوں یا معمر افراد، کسی کا احترام نہیں کیا جارہا۔

شناختی کارڈ بنوانے جائیں تو لمبی قطار لگی ہوتی ہے۔ ایک واقف کار نے بتایا کہ تین مرتبہ ایسا ہوا کہ کئی گھنٹے بعد جب اس کا نمبر آیا تو عملے نے کہا کہ وقت ختم ہوگیا، کل آنا۔ پہلے تو نادرا کے دفاتر میں کوائف کا اندراج، تصویر کھینچنا اور انگلیوں کے نشانات لیے جاتے تھے۔ اب انٹرویو کے نام پر نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں عوام کی تذلیل کی جارہی ہے۔ انٹرویو لینے والوں کو شتر بے محار اختیارات دے دیئے گئے ہیں کہ وہ کوئی بھی بے بنیاد اعتراض لگا کر کسی کا فارم بھی مسترد کرسکتے ہیں۔

انٹرویو لینے والے شخص کا جب دل چاہتا ہے، وہ کرسی سے اٹھ کر آدھے آدھے گھنٹے کےلیے غائب ہوجاتا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب شکایت کرنے کا طریقہ دریافت کرنے جائیں تو وہاں بھی کوئی افسر عموماً موجود ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر موجود ہو بھی تو زیادہ سے زیادہ انٹرویو لینے والے کو ''ذرا دیکھ لینا'' کہہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ آن لائن شکایت درج کرائی جائے تو اس پر کوئی کارروائی ہی نہیں کی جاتی۔

راقم نے انٹرویو لینے والے کی عورتوں اور بوڑھوں سے بدتمیزی کا مشاہدہ بچشمِ خود کیا ہے۔ لوگ اس لیے چپ چاپ سہہ لیتے ہیں کہ کہیں شناختی کارڈ ہی نہ بن سکے۔

نیا کارڈ بنوانے میں درپیش مشکلات کا ذکر تو بہت بعد کی بات ہے، پرانے شناختی کارڈ کی تجدید بھی تقریباً ناممکن بنادی گئی ہے۔ ایک دوست اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کرانے گیا۔ اس کے والد اور والدہ کا کارڈ بھی بنا ہوا تھا مگر اس پر یہ اعتراض لگادیا گیا کہ والد کے شناختی کارڈ میں پیدائش انڈیا کی درج ہے۔


لوگوں سے مختلف دستاویزات منگوا کر کئی کئی چکر لگوائے جاتے ہیں اور ان کا وقت اور توانائی ضائع کیے جاتے ہیں؛ اور انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔

نادرا اپنی غلطیوں کی ذمہ داری عوام پر تھوپ دیتا ہے۔ ایک وکیل نے بتایا کہ نادرا نے ایک خاتون کو تین شناختی کارڈ جاری کردیئے۔ خاتون نے نادرا کے دفتر جاکر مسئلہ بیان کیا تو عملے نے تینوں شناختی کارڈ ضبط کرلیے اور نیا کارڈ بنوانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا کہا۔ اب انہیں عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے کئی ماہ ہوگئے ہیں لیکن تاحال مسئلہ حل نہیں ہوا۔ خاتون کے بچوں کی عمر 18 سال ہوگئی لیکن ان کا کارڈ صرف اس لیے نہیں بن رہا کہ والدہ کے کارڈ پر اعتراض لگا ہوا ہے اور معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے۔ تو جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، تب تک بچوں کا کارڈ نہیں بنے گا۔

عدالت میں نادرا سے متعلق سیکڑوں مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ وکیل صرف ایک روز عدالت آتا ہے، ایسے میں کتنے مقدمات حل ہوسکیں گے۔ عدالت سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوپاتا۔

ایک واقف کار نے بتایا کہ وہ شناختی کارڈ بنوانے گیا تو اس سے پوچھا کہ کتنے بہن بھائی ہو۔ اس نے بتایا تو عملے نے کہا کہ کیا تمہاری دو مائیں ہیں۔ نادرا کا عملہ سائلین سے اسی تضحیک آمیز لہجے میں بات کرتا ہے۔ جاننے والوں کے شناختی کارڈ قطارکے بغیر بنوادیئے جاتے ہیں جب کہ عام لوگوں کو گھنٹوں انتظار کرایا جاتا ہے۔

لوگ خون کے آنسو پیتے ہیں، ایسے میں کبھی کبھار کوئی ردعمل بھی سامنے آجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں کچھ لوگوں نے نادرا کے عملے کی زیادتیوں سے تنگ آکر کراچی سائٹ کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی تو انہیں گرفتار کرلیا گیا جب کہ عملے نے کام بند کردیا۔

سچ تو یہ ہے کہ حقیقی سائلین کے لیے شناختی کارڈ کا حصول انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے جب کہ رشوت کے عوض جعلی شناختی کارڈ بننے کا عمل تاحال جاری و ساری ہے۔

حکام کو سوچنا چاہیے کہ قومی شناختی کارڈ عوام کی بنیادی ضرورت ہے جس کے بننے میں حکومت کا خود اپنا فائدہ ہے کہ تمام آبادی اس کے ریکارڈ میں آرہی ہے۔ لیکن اس عمل کو مشکل بناکر درحقیقت وہ نہ صرف خود کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ عوام میں ریاست سے نفرت کو پروان چڑھا رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن یہ لاوا پھٹ پڑے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story