روہنگیا مسلمان کدھر جائیں

بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں کی تعصب اور بے حسی کی وجہ سے ہی دنیا میں امن قائم نہیں ہوپا رہا ہے۔


عثمان دموہی September 10, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: تاریخی حوالوں کے مطابق روہنگیا مسلمان گزشتہ سات سو سالوں سے برما میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ 1401 سے بنگال اور مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے وہاں آباد ہوئے تھے۔ بد قسمتی سے اتنے پرانے آباد کاروں کو برمی حکومت غیر ملکی قرار دے رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اتنے پرانے آباد کاروں کو بھی کسی سرزمین سے بے دخل کیا جاسکتا ہے اور انھیں اس ملک کی شہریت سے محروم رکھا جاسکتا ہے؟

افسوس کہ برمی حکومت ایک بھی مسلمان کو برما میں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے جب کہ عالمی قوانین کے مطابق انھیں وہاں رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اب جب کہ وہ برما کو اپنا آبائی وطن بناچکے ہیں اور ان کی کئی نسلیں وہاں رہائش پذیر ہوچکی ہیں وہ اپنے آبائی وطن کوکیسے چھوڑسکتے ہیں؟

برمی حکومت کا انھیں زبردستی قتل وغارت گری کے ذریعے بے دخل کرنا ظلم کی انتہا ہے۔ برمی حکومت کا یہ اقدام سراسر اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانیت کے اصولوں کے خلاف ہے مگر وہ حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں جو مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ہونے والے ذرا سی بھی تکلیف پر پوری دنیا میں ان ممالک کے خلاف پرزور پروپیگنڈا کرتی ہیں اب وہ ان مظلوم مسلمانوں کے ظلم پرکیوں خاموش ہیں؟

یہ تنظیمیں سوڈان اور انڈونیشیا کی عیسائی اقلیت پر ضرور مہربان تھیں اور ان دونوں ممالک پر حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانا روزکا معمول تھا اور انھوں نے بالآخر عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر جنوبی سوڈان اور تیمورکے نام سے دو نئے عیسائی ممالک کے قیام کی راہ ہموار کردی تھی گو کہ اس نظریے کے تحت فلسطین اورکشمیر کے مسلمانوں کو بھی آزادی ملنا چاہیے مگر ان کی آزادی سے مسلسل چشم پوشی برتی جارہی ہے۔

اسی تعصب کا روہنگیا مسلمان بھی شکار ہیں۔ ان پر ڈھائے جانے والے ظلم اور سفاکیت پر برمی حکومت کی حقیقی مذمت نہیں کی جارہی ہے، وہاں کی بدھ دہشت گرد تنظیموں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جارہی جب کہ کشمیریوں کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنے والی تنظیم حزب المجاہدین پر ضرور پابندی لگادی گئی ہے۔

بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں کی تعصب اور بے حسی کی وجہ سے ہی دنیا میں امن قائم نہیں ہوپا رہا ہے۔ ہر طرف بے چینی ، خوف، عدم استحکام اور ظلم کا دور دورہ ہے۔ امریکا جیسی سپر پاور بھی تعصب کا شاہکار بن چکی ہے، اب ایسے ماحول میں دنیا میں کیسے ظلم اور بربریت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مسلمانوں پر کچھ زیادہ ہی دشمنوں جیسا سلوک کیا جارہاہے۔

اب تعصب اتنا بڑھ چکا ہے کہ خود پوپ فرانسس یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں پر محض اس لیے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے سراسر سامراجی ممالک ذمے دار ہیں لیکن ان ممالک کو سر چڑھانے کے اصل قصور وار خود مسلمان ممالک ہیں گو کہ مسلم ممالک کی تعداد ساٹھ ہے مگر تمام ہی معاشی بد نظمی کا شکار ہیں اور جدید ٹیکنالوجی سے دور ہونے کی وجہ سے ان ممالک کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔

وہ ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں اور اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں جب کہ مسلم ممالک کے مسائل اور مصائب اپنی جگہ بدستور موجودہ ہیں جنھیں حل کرنے میں سامراجی ممالک کوکوئی دلچسپی نہیں ہے وہ مسلم ممالک جو ان سامراجی ممالک کے احکام کو نہیں بجالائے ان کا انھوں نے حشر نشر کردیا ہے کچھ نافرمان ممالک جو ابھی تک بچے ہوئے ہیں لگتا ہے ان کا بھی جلد یا بدیر حشر نشر کردیا جائے گا۔ عراق، لیبیا، شام، افغانستان، صومالیہ اور یمن وہ ممالک ہیں جو ان کے حکم سے اجتناب برت رہے تھے۔ انھوں نے انھیں ایسا تلخ مزہ چکھایا کہ اب یہ برسوں تک سر نہیں اٹھاسکیںگے۔

بڑی طاقتیں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کا تو بہت غم مناتے ہیں وہ ان مظالم کو ''ہولوکاسٹ'' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ادھر برما میں ہولوکاسٹ سے کہیں زیادہ ظلم مسلمانوں پر ڈھایا جارہاہے مگر وہ اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھارہے یہ تو خیر مسلمانوں کے ساتھ غیروں کا رویہ ہے خود اپنوں کا بھی رویہ ایسا ظالمانہ اور کافرانہ ہے کہ جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ مانا کہ حسینہ واجد کی حکومت ہے مگر انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے۔ وہ برمی مسلمانوں سے دشمنوں جیسا برتاؤ کررہی ہیں کیا انھیں نہیں معلوم کہ یہ مسلمان بنگال کے ہی مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے برما میں آباد ہوئے تھے۔ چنانچہ بنگلادیش میں داخل ہونا ان کا حق بنتا ہے مگر وہ انھیں اپنی سرحد میں داخل نہیں ہونے دینا چاہتیں۔

بنگلادیشی فوج ان کے حکم پر ان مظلوم مسلمانوں پر گولیاں چلاکر انھیں اپنی سرحد میں داخل ہونے سے روک رہی ہے۔ تازہ خبر کے مطابق اب بنگلہ دیشی فوج نے سرحد پر بارودی سرنگیں بچھادی ہیں ۔اس کے باوجود یہ مسلمان زبردستی بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں گو کہ اب ترک صدر اردوان بنگلہ دیشی حکومت کو کھلی آفر دے چکے ہیں کہ وہ ان پناہ گزینوں کا تمام خرچ خود برداشت کریںگے تب بھی بنگلہ دیشی حکومت ان مظلوموں کے داخلے میں مشکلات پیدا کررہی ہے یہ ان کے ساتھ کھلا ظلم ہے۔

اس وقت آنگ سان سوچی اور حسینہ واجد میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے دونوں ہی خواتین ان مسلمانوں کی دشمن بن کر منظر عام پر آئی ہیں جہاں تک آنگ سان سوچی کا تعلق ہے وہ برمی فوج اور بدھ غنڈوں کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی نہ صرف تردید کررہی ہیں بلکہ قتل عام کے واقعات کو مضحکہ خیز قرار دے رہی ہیں۔ ان کے اس سفید جھوٹ اور ظلم سے چشم پوشی پر یورپی میڈیا نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔ برطانوی اخبارگارڈین نے ان سے نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں کئی اسلامی ممالک نے او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس ادارے کی ناکامی سے بدظن ہوکر ملیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا ''اوہ آئی سی'' یعنی کہ وہ ایک رسمی سا بے وقعت ادارہ ہے انھیں یہ اس لیے کہنا پڑا کہ جب وہ ملیشیا کے وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو عالم اسلام کی جانب سے انھیں اس ادارے کا سربراہ بنانے کا پرزور مطالبہ کیا گیا تھا۔

دراصل مہاتیر اپنے ملک کے ایک کامیاب وزیراعظم رہ چکے تھے انھوں نے اپنی محنت، دیانت اور ذہانت سے اپنے ملک کو ترقی کی معراج پر پہنچادیا تھا لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اگر اس ادارے کے سربراہ بن گئے تو وہ ایسے ایک فعال اور موثر ادارہ بنادیں گے۔ روہنگیا مسلمان بھی ان ہی مظلوم و مجبور لوگوں میں شامل ہیں۔ افسوس کہ یہ ادارہ ان مسلمانوں کے لیے اب تک کچھ نہیں کرسکا ہے بہر حال اس ادارے کو اب اپنی پرانی روش ترک کرکے اور بڑی طاقتوں کے چنگل سے نکل کر اپنی متعین مقاصد کے حصول کے لیے جد وجہد کرنا وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔

امید ہے کہ او آئی سی کا جلد ہی اجلاس منعقد کیا جائے گا اور روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا مستقل حل نکالنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو بھی روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیںگے۔ حکومت پاکستان اگر روہنگیا مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کرسکتی تو کم سے کم برمی سفیر کو طلب کرکے اپنا احتجاج تو ضرور ریکارڈ کرادے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں