ہم کتنے بے رحم ہیں

ہر سال لاکھوں افراد آلودہ اور زہریلے پانی کے استعمال سے بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں

کیا ہم اپنے کرۂ ارض کو وہ اہمیت دیتے ہیں، جو اس کا حق ہے؟ کیا ہم اس سے محبت کرتے ہیں؟ کیا ہم اس کے فطری حسن کو برقرار رکھنے کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا ہم اس کے قدرتی ماحول کی قدرو قیمت سے آگاہ ہیں اور اس کا تحفظ کرنے کا عزم ہمارے اندر موجود ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں ماحولیاتی توازن کتنی تیزی سے بکھر رہا ہے اور بڑھتے ہوئے عدم توازن کو نہ روکا گیا تو زندگی کا خاتمہ یقینی ہے؟

ان سوالات کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان معاملات پر غور و فکر کرتے ہیں اور اپنے کرۂ ارض کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فطرت کا اصول ہے توازن۔ فطرت توازن برقرار رکھتی ہے۔ اس توازن کو انسان نے اپنی مداخلت بے جا سے برہم کرنے کی کوشش کی اور آج موسمیاتی تبدیلی کا مظہر ہمارے سامنے ہے۔ تیزی سے بدلتے موسم سب کچھ بدل رہے ہیں۔

سطح سمندر میں اضافہ یا سیلاب ہو، طوفان یا شدید بارشیں، خشک سالی یا گلیشیئر کا پگھلنا، صاف پانی کی کمی ہو یا تیزی سے پھیلتی ہوئی سنگین بیماریاں، یہ سارے مظاہر ہم اپنی آنکھوں سے نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کے شدید منفی اثرات ہماری زندگیوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ ماحول کا تحفظ عام شہری سے لے کر ہماری اشرافیہ اور پالیسی ساز اداروں کے ساتھ اربوں روپے کمانے والی قومی اور کثیرالقومی کمپنیوں کی ترجیح میں شامل ہی نہیں ہے۔ پاکستان بالخصوص موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہورہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سیلاب، خشک سالی غیر معمولی بارشیں اور گرمی کی شدید لہر اور آلودہ پانی سے ملک کو اب تک اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں صاف پانی کے ذخائر شدید متاثر ہورہے ہیں اور ان میں تیزی سے کمی آتی جارہی ہے۔ دنیا کی باشعور قومیں اور پالیسی ساز زمینی اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے کے کے ساتھ انھیں آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کررہے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے ملک کا پانی خطرناک حد تک آلودہ او رزہریلا ہوچکا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا پانی زندگی کو ختم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد آلودہ اور زہریلے پانی کے استعمال سے بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان میں سے ہزاروں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

زیادہ المناک بات یہ ہے کہ ہر سال 2 لاکھ سے زیادہ معصوم بچے ڈائیریا کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ملک کے شہریوں کو جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ان میں 80 فیصد بیماریوں کا تعلق آلودہ پانی کے استعمال سے ہوتا ہے۔ ملک کی آبادی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس تیزی کے ساتھ پانی کی کمیابی او رآلودگی کا مسئلہ بھی شدید سے شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر غالباً حیرت ہوگی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں پانی، نکاسی آب اور صفائی کی صورتحال دنیا میں سب سے بدترین ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان لاکھوں بچوں اور مجبور انسانوں کی بے وقت ہلاکت کی ذمے داری کیا ہم پر عائد نہیں ہوتی ہے جو صرف اس لیے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ وہ پانی کی شکل میں ایک رقیق اور سیال زہر اپنے حلق میں انڈیلنے پر مجبور تھے؟ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، گزشتہ سال ہی کی بات ہے جب پارلیمنٹ میں ایک سروے رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے 24 مختلف اضلاع کے 2 ہزار 8 سو گاؤں میں موجود پانی کے 80 فیصد ذرایع آلودہ ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان، پشاور، کوئٹہ ، حیدرآباد سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فلٹر پلانٹ جو لگے تھے وہ فرسودہ ہوچکے ہیں، فلٹر شدہ پانی کے نمونوں کا تجزیہ کرایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی کتنا ''صاف'' اور پینے کے قابل ہے۔


سپریم کورٹ کے حکم پر بنائے گئے عدالتی واٹر کمیشن نے کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، کوٹری اور دیگر شہروں کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد عدالت میں جو رپورٹ جمع کرائی اس میں ہولناک انکشافات سامنے آئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد لوگ انسانی زندگی کے لیے انتہائی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ انسانی غلاظت، قصابوں کا کوس، اسپتالوں کا فضلہ، گھروں کا فضلہ اور فیکٹریوں کا زہریلا کیمیکل پینے کے پانی میں براہ راست ڈالا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹھٹھہ میں 75 فیصد، جام شورو میں 36، ٹنڈو محمد خان میں 30، ٹنڈوالہیار میں 23، لاڑکانہ میں 88 اور میرپور میں 33 فیصد لوگ گٹر او رانسانی غلاظت ملا ہوا پانی پیتے ہیں۔

واٹر کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت کے لیے معروف سوئس ادارے فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ایکواٹک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ''ایواگ'' کی جانب سے تحقیقی رپورٹ سامنے آئی جس میں یہ ہولناک انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کے تقریباً 8 کروڑ80 لاکھ افراد ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں زیر زمین پانیوں میں سنکھیا (آرسینک) شامل ہے۔ ان علاقوں میں سنکھیا کی مقدار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیارات سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک لیٹر پانی میں سنکھیا کی مقدار زیادہ سے زیادہ 10 مائیکرو گرام ہونی چاہیے جب کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کے لیے تجویز کردہ سنکھیا کی مقدار 50 مائیکرو گرام فی لیٹر تک ہے۔

جدید سائنسی ماڈلز کے ذریعے کی گئی اس تحقیق میں پاکستان کے بارہ سو مختلف مقامات سے زیر زمین پانی کے نمونوں کو اکٹھا کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مشرقی حصوں خصوصاً لاہور اور حیدرآباد کے زیر زمین پانی میں سنکھیا کی مقدار مقررہ کردہ حد 50 مائیکرو گرام سے کہیں زیادہ جب کہ جنوبی علاقہ جات کے زیر زمین پانی میں 200 مائیکرو گرام فی لیٹر کی خوفناک حد تک پائی گئی۔ اندازے کے مطابق پاکستان کے 70 فیصد افراد زیر زمین پانی پر انحصار کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں رہائش پذیر آبادی کی کثیر تعداد نے زیر زمین پانی کے استعمال میں اضافہ کردیا ہے۔ بھارت کے دریائے گنگا اور بنگلہ دیش کے دریائے برھما پترا کے اطراف میں موجود زیر زمین پانی میں بھی سنکھیا کے نمونے پائے گئے ہیں جب کہ دریائے سندھ کے ساتھ میدانی علاقوں میں رہائش پذیر 5 سے 6 کروڑ افراد بھی وہ پانی استعمال کررہے ہیں جس میں حکومت پاکستان کی مقرر کردہ حد سے کہیں زیادہ مقدار میں سنکھیا موجود ہے۔

رپورٹ کے مرکزی مصنف اور ایواگ کے سربراہ جول پڈروسکی کہتے ہیں کہ وادی سندھ میں موجود تمام کنوؤں کے پانیوں کے معیار کو جانچنے کی ضرورت ہے کیونکہ حالیہ نتائج انتہائی پریشان کن ہیں۔ ان معتبر ترین قومی اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ سامنے آنے پر جس میں بتایا گیا کہ ملک کے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی ہیں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔ آزاد میڈیا سے لے کر ماحول کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیمیں، سول سوسائٹی، اشرافیہ پالیسی ساز سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سب خاموش ہیں۔

کیا ستم ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کے سامنے صرف دو انتخاب رکھے: آلودہ اور زہریلا پانی پیو اور بیماریوں کا شکار ہوکر مرجاؤ اور اگر یہ قبول نہیں ہے تو پیاسے رہو، اپنے بچے اور بزرگوں کو پیاسا رکھو۔ انھیں پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجانے دو، سب باری باری موت کے گھاٹ اتر جاؤ۔ ماحول اور فطرت سے یہ بے اعتنائی اور سنگدلانہ لا تعلقی کا رویہ ہم کب ختم کریں گے؟ ہم کتنے بے رحم ہیں! خود سے نہ اپنے بچوں سے اور نہ آیندہ آنے والی نسلوں سے ہمیں کوئی محبت ہے۔
Load Next Story