صدر زرداری نے چیئرمین نیب کے خط پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیدیا
چیرمین نیب نےصدرکو 27جنوری کوخط کےذریعےآگاہ کیاتھاکہ نیب پرسپریم کورٹ کا دباؤ ہے،معاملہ حل نہ ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا
صدرآصف علی زرداری نے چیئرمین نیب ایڈمرل(ر)فصیح بخاری کے خط پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔
نیب کے سربراہ فصیح بخاری نے صدر آصف زرداری کو 27جنوری کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ نیب پر سپریم کورٹ کا دباؤ ہے، معاملہ حل نہ ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا، خط کےمتن کےمطابق چئیرمین نیب فصیح بخاری نےسپریم کورٹ کے کردارکے بارے میں اپنےتحفظات کا اظہارکرتے ہوئے لکھا تھا کہ سپریم کورٹ کےدباؤ سے نیب افسران پریشان ہیں، احکامات پر عمل کے لئے مناسب وقت نہیں دیاجاتا اورکامران فیصل کیس میں بعض میڈیا کے ذرائع خفیہ ایجنسیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔
چئیرمین نیب نے خط میں مزید لکھا تھا کہ میڈیا کے ایک سیکشن نےانہیں بدنام کرنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کو خوش کرنے کے لئےمیڈیا مہم کےذریعےان پردباؤ ڈالا جارہا ہے اس سارے عمل کو انتخابات سے پہلے دھاندلی کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے، انہوں نے لکھا تھا کہ عدالت کے تحریری اور زبانی احکامات میں فرق ہوتا ہے، انسانی حقوق پر از خود نوٹس لینے کی اہلیت حکومت کو کمزور کرنے کا کھلا لائسنس ہے ازخود نوٹسز عدالتوں میں پہلے سے تاخیر کا شکار کیسز کو مزید التوا میں ڈال سکتے ہیں اورجلد انصاف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خط میں لکھا گیا تھا کہ قانون کی روح سے معاشرے کو اخلاقی طور پر ایک معیار دینا ہوتا ہے، توہین عدالت، قانون ،میڈیا، وکلاء اور سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے عدلیہ یہ معیار تیزی سے کھو سکتی ہے۔
نیب کے سربراہ فصیح بخاری نے صدر آصف زرداری کو 27جنوری کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ نیب پر سپریم کورٹ کا دباؤ ہے، معاملہ حل نہ ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا، خط کےمتن کےمطابق چئیرمین نیب فصیح بخاری نےسپریم کورٹ کے کردارکے بارے میں اپنےتحفظات کا اظہارکرتے ہوئے لکھا تھا کہ سپریم کورٹ کےدباؤ سے نیب افسران پریشان ہیں، احکامات پر عمل کے لئے مناسب وقت نہیں دیاجاتا اورکامران فیصل کیس میں بعض میڈیا کے ذرائع خفیہ ایجنسیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔
چئیرمین نیب نے خط میں مزید لکھا تھا کہ میڈیا کے ایک سیکشن نےانہیں بدنام کرنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کو خوش کرنے کے لئےمیڈیا مہم کےذریعےان پردباؤ ڈالا جارہا ہے اس سارے عمل کو انتخابات سے پہلے دھاندلی کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے، انہوں نے لکھا تھا کہ عدالت کے تحریری اور زبانی احکامات میں فرق ہوتا ہے، انسانی حقوق پر از خود نوٹس لینے کی اہلیت حکومت کو کمزور کرنے کا کھلا لائسنس ہے ازخود نوٹسز عدالتوں میں پہلے سے تاخیر کا شکار کیسز کو مزید التوا میں ڈال سکتے ہیں اورجلد انصاف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خط میں لکھا گیا تھا کہ قانون کی روح سے معاشرے کو اخلاقی طور پر ایک معیار دینا ہوتا ہے، توہین عدالت، قانون ،میڈیا، وکلاء اور سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے عدلیہ یہ معیار تیزی سے کھو سکتی ہے۔