یونیفارم
مدت قدیم سے پولیس کی یونیفارم جرائم پیشہ کے لیے خوف کی علامت تھی۔
لباس کے حوالے سے اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو سلائی اور رنگوں کے لحاظ سے اور اگر دنیا کے مختلف ملکوں کے اپنے رسم و رواج اور پہناوے شمار کرنے لگیں تو انسان کا متنوع مزاج اور شوق حیران کن نظر آتا ہے لیکن صرف یونیفارم ہی کو پیش نظر رکھ لیں تو ''قومی انگریزی اردو لغت'' کے مطابق Uniform کا مطلب ہم شکل ہم رنگ اور ہم وضع بنتا ہے۔
یونیفارمز کے بھی متنوع اور ایک دوسرے سے مختلف رنگ اور ڈیزائن ہیں۔ صبح اسکول کالج کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں جاتے دیکھیں تو رنگ برنگے پھولوں پر نظر پڑتی ہے۔ لڑکے پتلون قمیض میں اور لڑکیاں کرتے شلوار میں ملبوس چہچہاتے ہوئے تیزی سے اسکولوں کالجوں میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔ اب سے تیس چالیس سال قبل صرف انگلش میڈیم اسکولوں کے بچوں کو یونیفارم پہنے دیکھا جاتا تھا جب کہ سرکاری اور غرباء کے اسکولوں کی کوئی یونیفارم نہیں ہوتی تھی۔ لیکن زمانہ بدلا ہے تو اب تقریباً ہر اسکول کے طلباء کی اپنی اسکول یونیفارم لازمی ہو گئی ہے۔
یہ ایک اچھی تبدیلی ہے، اسے ترقی کی علامت کہنے میں کوئی حرج نہیں، کپڑے اور سلائی کی کوالٹی البتہ مالی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اب تو سلی سلائی اسکول یونیفارم کی دکانیں بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے طالب علموں کے والدین کو سہولت میسر ہو گئی ہے۔
جو لوگ اسپورٹس کا شوق رکھتے ہیں وہ کسی پلے گراؤنڈ میں چلے جائیں یا ٹیلیویژن اسکرین پر کھیل کا لطف اٹھائیں تو انھیں کھلاڑی بھی الگ الگ لباس یعنی اپنی مخصوص یونیفارم پہنے کھیلتے ملیں گے۔ یونیفارم کی وجہ سے انھیں اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو فاصلے سے پہچان لینے اور مخالف سے مقابلہ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یورپ، امریکا، برطانیہ وغیرہ میں تو شوق کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسٹیڈیم میں داد دینے اور میچ دیکھنے والے تماشائی اپنی اپنی ٹیم والا یونیفارم پہن کر بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی ان کا کھلاڑی کامیابی حاصل کرتا ہے پورا پنڈال نعروں اور گانوں سے گونج اٹھتا ہے اور ٹیلیویژن پر کھیل دیکھنے والوں کا بھی لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب سکوائش اور ہاکی کے پاکستانی کھلاڑی دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتے تھے جب کہ کرکٹ کی دنیا میں اب بھی لوگ عمران خان، جاوید میانداد، حفیظ کاردار، وقار یونس، حنیف محمد، انضمام الحق اور وسیم اکرم کو ورلڈکلاس کرکٹرز سمجھتے ہیں۔ اسپورٹس نہ صرف تفریح اور فٹنس کا بہترین ذریعہ ہے، کرائم کنٹرول میں بھی مثبت نتائج دینے میں مددگار سمجھی جاتی ہے۔
صفائی کو چونکہ نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اس لیے پنجاب کے دارالحکومت میں ترکی کو دیے گئے صفائی کے ٹھیکیدار نے شہر کی صفائی پر مامور اپنے ملازمین کو یونیفارم میں ملبوس رہنے کی سختی سے ہدایت کر رکھی ہے تا کہ ان سے کام لینے میں آسانی رہے۔ اسی لیے پیلے رنگ کی اسٹرائپس والے لباس پہنے ورکر بجائے وارڈنز کی طرح سست روی یا گروپ بازی میں وقت Kill کرنے کے پھرتی سے کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگاتے نظر آئیں گے۔ لوگوں کو پیلی اسٹرائپس والے ورکرز جو تندہی سے کام کرتے نظر آتے ہیں یہ ان کی یونیفارم ہی کا کمال ہے۔
آپ بڑے ہوٹلوں، میگا اسٹورز اور اسی طرح کے کاروباری اداروں کو دیکھ لیں ان کی انتظامیہ نے اپنے ورکروں کو ان کے عہدوں اور ذمے داریوں کے مطابق یونیفارمز میں ملبوس رکھا ہوتا ہے تا کہ کلائنٹس یا کسٹمرز کی خاطر خواہ دیکھ بھال کی جا سکے۔ بینکوں میں ڈکیتی کی وارداتوں کے بعد سے وہاں مسلح گارڈ سیکیورٹی یونیفارم پہنے موجود ہوتے ہیں۔ وکلاء کی یونیفارم تو ساری دنیا میں سیاہ کوٹ اور سیاہ گاؤن ہوتا ہے۔ اگر کسی اسپتال میں سفید یونیفارم خاص ڈریس میں ملبوس خاتون کو دیکھیں تو یہ نرسنگ اسٹاف ہو گی۔
ملک کی سمندری، فضائی اور زمینی حفاظت کے لیے سفید وردی پہنے نیوی، نیلی یونیفارم میں ایئرفورس اور خاکی وردی میں آرمی جوان ملیں گے۔ ان تینوں مسلح افواج کی یونیفارمز ان کے جسموں پر ناپ کے مطابق سجی ہوتی ہیں۔ ان کی شرٹیں اور پتلونیں بتاتی ہیں کہ وہ چاک و چوبند اور ہر وقت ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان تینوں فورسز کی یونیفارمز با آواز بلند ہمت بہادری پھرتی اور ہمہ وقت چیلنج قبول کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔ ان تینوں فورسز کے جوان جب وردی میں ہوں تو ان کی چال میں بھی تمکنت اور فتح یابی جھلکتی ہے۔
ہماری پولیس فورس کی ذمے داریوں میں ٹریفک کنٹرول قیام امن اور جرائم کے سدباب کے سلسلے میں ہر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ پولیس اور صوبائی سطح پر انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی ہوتی ہے۔ ان کے نیچے پولیس کے DSP, ASP، انسپکٹر، سب انسپکٹر، ASI اور کنسٹیبل اپنے اپنے علاقے میں فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان تمام کی عہدے کی شناخت کے لیے یونیفارم ہوتی ہے۔ ان کے لباس میں اس عہدیدار کا رعب شناخت انفرادیت اور قانون و امن کے قیام کے لیے یونیفارم کا دبدبہ ہوتا ہے۔ غیر قانونی حرکت کرنے والا پولیس کی یونیفارم سے مرعوب ہو جاتا ہے۔
مدت قدیم سے پولیس کی یونیفارم جرائم پیشہ کے لیے خوف کی علامت تھی۔ گزشتہ چند ماہ سے اچانک پولیس یونیفارم تبدیل کر کے کالر والی شرٹ کی جگہ بنیان نما کرتہ اور پتلون کی جگہ بغیر کریز کے پاجامہ نما پینٹ لا کر کسی کی انقلابی سوچ نے پولیس کا رعب اور دبدبہ ختم کر دیا ہے۔ اب اگر آپ کسی کنسٹیبل یا ایس ایچ او کو سامنے سے آتا دیکھیں تو شک پڑتا ہے ایک ڈھیلا ڈھالہ شخص سلیپنگ سوٹ پہنے سیدھا بیڈروم سے نکل کر چلا آ رہا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں اور ہر شعبے میں یونیفارم کی ایک شناخت اور اس سے آگے ایک پیغام اور تعارف ہوتا ہے۔ موجودہ تبدیل شدہ پولیس یونیفارم پر عوامی رائے تو ایک طرف رہی، پولیس والے بھی شاید خوش نہیں ہیں۔
یونیفارمز کے بھی متنوع اور ایک دوسرے سے مختلف رنگ اور ڈیزائن ہیں۔ صبح اسکول کالج کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں جاتے دیکھیں تو رنگ برنگے پھولوں پر نظر پڑتی ہے۔ لڑکے پتلون قمیض میں اور لڑکیاں کرتے شلوار میں ملبوس چہچہاتے ہوئے تیزی سے اسکولوں کالجوں میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔ اب سے تیس چالیس سال قبل صرف انگلش میڈیم اسکولوں کے بچوں کو یونیفارم پہنے دیکھا جاتا تھا جب کہ سرکاری اور غرباء کے اسکولوں کی کوئی یونیفارم نہیں ہوتی تھی۔ لیکن زمانہ بدلا ہے تو اب تقریباً ہر اسکول کے طلباء کی اپنی اسکول یونیفارم لازمی ہو گئی ہے۔
یہ ایک اچھی تبدیلی ہے، اسے ترقی کی علامت کہنے میں کوئی حرج نہیں، کپڑے اور سلائی کی کوالٹی البتہ مالی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اب تو سلی سلائی اسکول یونیفارم کی دکانیں بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے طالب علموں کے والدین کو سہولت میسر ہو گئی ہے۔
جو لوگ اسپورٹس کا شوق رکھتے ہیں وہ کسی پلے گراؤنڈ میں چلے جائیں یا ٹیلیویژن اسکرین پر کھیل کا لطف اٹھائیں تو انھیں کھلاڑی بھی الگ الگ لباس یعنی اپنی مخصوص یونیفارم پہنے کھیلتے ملیں گے۔ یونیفارم کی وجہ سے انھیں اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو فاصلے سے پہچان لینے اور مخالف سے مقابلہ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یورپ، امریکا، برطانیہ وغیرہ میں تو شوق کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسٹیڈیم میں داد دینے اور میچ دیکھنے والے تماشائی اپنی اپنی ٹیم والا یونیفارم پہن کر بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی ان کا کھلاڑی کامیابی حاصل کرتا ہے پورا پنڈال نعروں اور گانوں سے گونج اٹھتا ہے اور ٹیلیویژن پر کھیل دیکھنے والوں کا بھی لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب سکوائش اور ہاکی کے پاکستانی کھلاڑی دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتے تھے جب کہ کرکٹ کی دنیا میں اب بھی لوگ عمران خان، جاوید میانداد، حفیظ کاردار، وقار یونس، حنیف محمد، انضمام الحق اور وسیم اکرم کو ورلڈکلاس کرکٹرز سمجھتے ہیں۔ اسپورٹس نہ صرف تفریح اور فٹنس کا بہترین ذریعہ ہے، کرائم کنٹرول میں بھی مثبت نتائج دینے میں مددگار سمجھی جاتی ہے۔
صفائی کو چونکہ نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اس لیے پنجاب کے دارالحکومت میں ترکی کو دیے گئے صفائی کے ٹھیکیدار نے شہر کی صفائی پر مامور اپنے ملازمین کو یونیفارم میں ملبوس رہنے کی سختی سے ہدایت کر رکھی ہے تا کہ ان سے کام لینے میں آسانی رہے۔ اسی لیے پیلے رنگ کی اسٹرائپس والے لباس پہنے ورکر بجائے وارڈنز کی طرح سست روی یا گروپ بازی میں وقت Kill کرنے کے پھرتی سے کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگاتے نظر آئیں گے۔ لوگوں کو پیلی اسٹرائپس والے ورکرز جو تندہی سے کام کرتے نظر آتے ہیں یہ ان کی یونیفارم ہی کا کمال ہے۔
آپ بڑے ہوٹلوں، میگا اسٹورز اور اسی طرح کے کاروباری اداروں کو دیکھ لیں ان کی انتظامیہ نے اپنے ورکروں کو ان کے عہدوں اور ذمے داریوں کے مطابق یونیفارمز میں ملبوس رکھا ہوتا ہے تا کہ کلائنٹس یا کسٹمرز کی خاطر خواہ دیکھ بھال کی جا سکے۔ بینکوں میں ڈکیتی کی وارداتوں کے بعد سے وہاں مسلح گارڈ سیکیورٹی یونیفارم پہنے موجود ہوتے ہیں۔ وکلاء کی یونیفارم تو ساری دنیا میں سیاہ کوٹ اور سیاہ گاؤن ہوتا ہے۔ اگر کسی اسپتال میں سفید یونیفارم خاص ڈریس میں ملبوس خاتون کو دیکھیں تو یہ نرسنگ اسٹاف ہو گی۔
ملک کی سمندری، فضائی اور زمینی حفاظت کے لیے سفید وردی پہنے نیوی، نیلی یونیفارم میں ایئرفورس اور خاکی وردی میں آرمی جوان ملیں گے۔ ان تینوں مسلح افواج کی یونیفارمز ان کے جسموں پر ناپ کے مطابق سجی ہوتی ہیں۔ ان کی شرٹیں اور پتلونیں بتاتی ہیں کہ وہ چاک و چوبند اور ہر وقت ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان تینوں فورسز کی یونیفارمز با آواز بلند ہمت بہادری پھرتی اور ہمہ وقت چیلنج قبول کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔ ان تینوں فورسز کے جوان جب وردی میں ہوں تو ان کی چال میں بھی تمکنت اور فتح یابی جھلکتی ہے۔
ہماری پولیس فورس کی ذمے داریوں میں ٹریفک کنٹرول قیام امن اور جرائم کے سدباب کے سلسلے میں ہر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ پولیس اور صوبائی سطح پر انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی ہوتی ہے۔ ان کے نیچے پولیس کے DSP, ASP، انسپکٹر، سب انسپکٹر، ASI اور کنسٹیبل اپنے اپنے علاقے میں فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان تمام کی عہدے کی شناخت کے لیے یونیفارم ہوتی ہے۔ ان کے لباس میں اس عہدیدار کا رعب شناخت انفرادیت اور قانون و امن کے قیام کے لیے یونیفارم کا دبدبہ ہوتا ہے۔ غیر قانونی حرکت کرنے والا پولیس کی یونیفارم سے مرعوب ہو جاتا ہے۔
مدت قدیم سے پولیس کی یونیفارم جرائم پیشہ کے لیے خوف کی علامت تھی۔ گزشتہ چند ماہ سے اچانک پولیس یونیفارم تبدیل کر کے کالر والی شرٹ کی جگہ بنیان نما کرتہ اور پتلون کی جگہ بغیر کریز کے پاجامہ نما پینٹ لا کر کسی کی انقلابی سوچ نے پولیس کا رعب اور دبدبہ ختم کر دیا ہے۔ اب اگر آپ کسی کنسٹیبل یا ایس ایچ او کو سامنے سے آتا دیکھیں تو شک پڑتا ہے ایک ڈھیلا ڈھالہ شخص سلیپنگ سوٹ پہنے سیدھا بیڈروم سے نکل کر چلا آ رہا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں اور ہر شعبے میں یونیفارم کی ایک شناخت اور اس سے آگے ایک پیغام اور تعارف ہوتا ہے۔ موجودہ تبدیل شدہ پولیس یونیفارم پر عوامی رائے تو ایک طرف رہی، پولیس والے بھی شاید خوش نہیں ہیں۔