عمران خان با عزت بری
در اصل اس کیس میں بھی اور باقی بھی بہت سارے کیسوں میں زیادہ قصور وار مواقع ہوتے ہیں
DHAKA:
اگر کیس ہمارے پاس آ جائے تو ہم عمران خان کو گلالئی کیس میں باعزت بری کر دیں گے کیونکہ ہماری عدالت میں ''شواہد و دلائل'' یعنی ثبوتوں اور گواہوں کے بجائے جذبات و احساسات اور مجبوریوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھیے، اگر ایک آدمی رنڈوا بھی ہو اور کچھ کرنے کی عمر بھی گزرتی جا رہی ہو، اوپر سے اتنے سارے ذہنی بکھیڑے بھی ہوں تو گھر بار کی فکر لازماً کرے گا، ٹھیک ہے پاکستان کو نیا بنانے کا کام بھی کم امپارٹنٹ نہیں ہے لیکن خود کو دولہا بنانے کی بھی تو آرزو ہوتی ہے، کوئی کب تک دل پر پتھر کی بلکہ برف کی سل رکھ کر بیٹھا رہ سکتا ہے۔
عالم غبار وحشت مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیال ''طرہ'' لیلیٰ کر ے کوئی
اور پھر جب ''مواقع'' بھی اتنے پرکشش ہوں۔ آپ سے کیا پردہ ہم بھی ان مواقع کی صرف تصاویر دیکھ کر، باوجود ''ڈیٹ ایکسپائر'' ہونے کے باغ و بہار ہو جاتے ہیں۔ عمران خان تو پھر بھی ابھی تو ''میں جوان'' ہوں کے مرحلے میں ہیں، ایسے میں کوئی اگر قطعی جائز اور معقول طریقے سے کسی ''مواقع'' کو ''لو می'' کہہ دے تو اس میں بُرا کیا ہے۔ لیکن پتہ نہیں دنیا کو کیا ہو گیا ہے۔ ہر پرندہ اڑتا رہتا ہے لیکن ''بٹیر'' اُڑے تو ہنگامہ ہو جاتا ہے۔ سب کریں تو اچھا ہم کریں تو ''سالا کیریکٹر ڈھیلا ہے''
چنانچہ ہماری عدالت میں جناب عمران خان کو باعزت بری کیا جاتا ہے، اس ہدایت کے ساتھ کے کب تک اذانوں پر گزارہ جیسے تیسے بھی ہو، اپنا گھر بسا ہی دو تا کہ تمہارے جملہ حقوق محفوظ ہو کر ادھر اُدھر نہ چھلکا کریں۔
خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں بیش کہ بانگ برآمد فلاں نماند
در اصل اس کیس میں بھی اور باقی بھی بہت سارے کیسوں میں زیادہ قصور وار مواقع ہوتے ہیں ''مواقع'' نہ ہوں تو بازار میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو حاصل کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن ''مواقع'' کے بجائے ''موانع'' حاصل ہو جاتے ہیں اور جب ''مواقع'' موجود ہوں اور ''موانع'' کہیں ادھر ادھر ہوگئے ہوں تو۔
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں
اور پاکستان میں تو آپ جانتے ہیں کہ باقی کچھ ہو نہ ہو ''مواقع'' بہت و بسیار ہوتے ہیں، وہ بھی ''موانع'' کے بغیر یعنی گلشن بے خار سمجھ لیجیے۔ ایسا کونسا مقام ہے جہاں مواقع ہی مواقع نہ ہوں، حکومت بھی ہمیشہ باہر کے سرمایہ داروں کو مدعو کرتی رہتی ہے کہ تشریف لائیے مواقع فراہم کرنا ہمارا کام ہے، یاں ہم مواقع پیدا کیے ہوئے بلکہ سجائے ہوئے رکھے ہیں آپ صرف تشریف لاکر ہاتھ بڑھا لیجیے جو آگے بڑھ کر تھام لے مینا اسی کی ہے۔
انھی مواقع پر تبصرہ کرتے ہوئے قہر خداوندی چشم گل چشم کا کہنا ہے اور حیرت انگیز طور پر علامہ بریانی عرف برڈ فلو نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ اگر پاکستان کا کوئی باشندہ آخرت میں شکایت کرے کہ مجھے موقع نہیں ملا تو اسے سخت سزا دی جائے گی، اس ناروا جھوٹ بولنے پر کیونکہ یہاں لیڈری، وزیری، چوری، ڈاکہ زنی حتیٰ کہ دن دھاڑے ہر کسی کو لوٹنے کے مواقع حاصل ہیں۔ حتیٰ کہ عوام کالانعام کو بھی خود کشی کرنے ، صبر کا پھل جی بھر کر کھانے اور بھیک مانگنے کے ہزاروں مواقع دستیاب ہیں۔
سوری یہ مواقع کا لفظ اتنا لذیذ اور ہمیں عزیز ہے کہ پھسل جانا لازم ہو جاتا ہے۔ ورنہ اصل میں ہم ان مواقع پر بات کرنا چاہتے ہیں جو ہر کسی کو مل جاتے ہیں لیکن وہ اس سے فائدہ اٹھانے میں دیر کر دیتا ہے یا ٹھکرا دیتا ہے۔
اب یہ جس ''موقع'' کی ہم بات کر رہے ہیں جس سے جناب عمران خان نے فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے، فرض کر لیجیے ورنہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ واقعی انھوں نے ''موقع'' سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی یا ''موقع'' نے خود موقع کو سازگار سمجھتے ہوئے خوامخواہ ایک بہترین موقع کو گنوا دیا، اسی لیے تو ہم نے عمران خان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کر دیا ہے کیونکہ اس میں ایک بہت بڑا ''کنگ سائز'' کا شک یہ ہے کہ آخر موقع کو موقع ملا تو اس نے اسے ضایع کیوں کر دیا جب کہ موقع نہایت ہی سنہرا بھی لگ رہا تھا۔ موقع کو زندگی میں کبھی نہ کبھی دو بول پڑھوانے کا موقع لازماً آنا تھا اور آنا ہے تو متوقع خاتون اول بننے سے زیادہ موزوں اور کونسا موقع ہو سکتا تھا۔ یہ بات ہمارے گلے سے بالکل اُتر نہیں رہی ہے کہ آخر اس میں قباحت، برائی یا نقصان کیا تھا۔
کوئی کہے کہ شب مہہ میں کیا برائی ہے
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
اس کیس پر ہم نے بہت غور کیا بلکہ غور کے حوض میں کافی غوطے مارے تب کہیں جا کر گوہر مقصود ہاتھ آیا اور وہ یہ ہے کہ اس میں کچھ نا دیدہ عوامل بھی ہوتے ہیں جس پر ہم براہ راست تو ٹارچ نہیں گھما سکتے لیکن چند کہاوتوں اور اقوال و امثال کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
مشہور قول زرین ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے اور ہمارے خیال میں یہ قول زرین ادھورا ہے ہر مرد کے پیچھے ''عورت'' تو فطری بات ہے کیونکہ ''ماں'' تو ہر کسی کی ہوتی ہے جس سے زیادہ بڑا معمار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
لیکن قول زرین کا باقی حصہ لوگ شاید اس لیے سنسر کر دیتے ہیں کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں بلکہ ''بے پردہ'' لوگوں کے نام آ جاتے ہیں اور وہ ٹکڑا یہ ہے کہ اکثر کامیاب مردوں کے آگے بھی ایک عورت کو کامیابی کے لیے بطور سیڑھی کے استعمال کرتے ہیں جن میں اکثر ان خواتین کے ماں باپ یا بھائی یا شوہر ہوتے ہیں چاہے وہ ملالئی ہو یا گلالئی یا نرگس یا مدھوبالا۔
صرف نرگس اور مدھو بالا کا کیس اتنا دردناک ہے کہ نرگس نے اپنی ماں جدن بائی اور مدھوبالا نے اپنے باپ عطا ء اللہ کی وجہ سے زندگی کا کوئی سکھ نہیں پایا تھا کیونکہ وہ سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے اور بھی ہزاروں مثالیں ہیں۔