حضرت سیدنا عثمان غنی ؓکی سخاوت و بصیرت
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کروگے، ہدایت پاجاؤگے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ کے تمام اصحابؓ پیکرِ صدق و صفا، ہدایت کا سرچشمہ اور ظلمت کے اندھیرے میں روشنی کا وہ عظیم مینار ہیں، جن سے زمانہ ہدایت پاتا ہے۔ تمام صحابۂ کرامؓ قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کے لیے پیکرِ رُشد و ہدایت ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: '' میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کروگے، ہدایت پاجاؤگے۔''
حضرت عثمان غنیؓ کو اللہ تعالیٰ نے جن عظیم صفات سے مُتصف فرما کر صحابہ میں ممتاز فرمایا، وہ اُن ہی کا حصہ ہے۔ حیا کا ایسا پیکر تھے کہ فرشتے بھی آپؓ سے حیا کرتے تھے۔ آپؓ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی۔ حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
'' اے عثمانؓ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اور جو ظاہر کیے اور وہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں۔''
ایامِ جاہلیت میں بھی آپؓ کا خاندان غیر معمولی وجاہت و حشمت کا حامل تھا۔ اُمیہ بن عبد شمس کی طرف نسبت کے سبب آپؓ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے۔ بنوہاشم کے بعد شرف و سیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اللہ ﷺ سے جاملتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی نانی رسول اللہ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں، اس رشتے سے آپ رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتے دار تھے۔
آپؓ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں، جس نے اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحب زادی سیدہ رقیہؓ کا نکاح آپؓ کے ساتھ کردیا اور پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی۔ حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی سیدہ ام کلثوم ؓ کو حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں دے دیا۔ حضرت سیدہ ام کلثومؓ کے وصال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں، تو میں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمانؓ کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی۔''
حضرت مرہ بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا، اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا، آپؐ نے فرمایا: ''یہ شخص اُس دن (یعنی فتنوں کے دور میں) ہدایت پر ہوگا۔ '' میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ (ترمذی )
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے۔ مستقبل کے لیے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے۔ صدقات و خیرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کا بڑا اجر و ثواب ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے، اللہتعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے، جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے۔'' (البقرہ)
صحابۂ کرامؓ صدق و اخلاص، وفاشعاری و جاں نثاری کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹا دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی متاعِ حیات کا بیش بہا خزانہ بنالیتے ہیں، یہی جذبہ حضرت عمر فاروقؓ و حضرت علیؓ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ سیدنا عثمان غنیؓ ہر مشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظر آتے ہیں۔ صحابۂ کرام ؓجو صدق و وفا کا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے، ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں۔ مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنیؓ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا، حضر ت ابوبکرؓ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہتعالیٰ تم پر (رزق ) کشادہ فرما دے گا۔ اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار اونٹ گندم اور اشیائے خورونوش کے منگوائے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمانؓ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، آپؓ گھر سے باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ چادر آپؓ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔ آپؓ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لیے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا، ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں، آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کر دیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں۔ آپؓ نے فرمایا، اندر آؤ، پس وہ اندر داخل ہوئے، تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمانؓ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: اگر میں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے؟ اُنہوں نے کہا: دس پر بارہ ، آپؓ نے فرمایا: کچھ اور بڑھاؤ، اُنہوں نے کہا: دس پر چودہ۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، اُنہوں نے کہا: دس پر پندرہ، آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، اُنہوں نے کہا: اِس سے زیادہ کون دے گا، جب کہ ہم مدینے کے تاجر ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، ہر درہم پر دس درہم تمہارے لیے زیادہ ہیں؟ اُنہوں نے کہا: نہیں، پھر آپؓ نے فرمایا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجاؤ کہ (یہ تمام مال) میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا۔
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے، آپؐ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرما تھے، آپؐ جلدی میں تھے اور آپؐ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی، نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان میری رغبت آپؐ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنت کی ایک حور سے فرما دیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں۔''
( اِزالۃ الخفا، جلد2، صفحہ:224 )
حضرت عثمان غنیؓ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ آذربائیجان، آرمینیا، طرابلس، الجزائر اور مراکش فتح ہوئے۔ آپؓ نے بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص کو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا۔ طبرستان میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے۔ فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا۔ حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت کے آخری حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سر اٹھالیا۔ کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سیکڑوں اقوام آباد تھیں، فطری طور پر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجود تھے، نتیجتاً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا، جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔ اِسی سازش کے نتیجے میں بصرہ، کوفہ اور مصر سے تقریباً دو ہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کے لیے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے اور حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو چالیس روز تک جاری رہا۔ باغیوں نے اشیائے خور و نوش کے سارے راستے بند کردیے۔ حضرت ام حبیبہؓ نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اللہ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بھی جان نثاروں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے گھر میں موجود تھے۔ محاصرے کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے عرض کی کہ آپؓ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے، ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیں، مکہ حرم ہے، وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیا کہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی خلافت کی بقا کے لیے مسلمانوں کا خون بہائے، دوسری صورت کا جواب دیا کہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسول ﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔ ( مسند امام احمد بن حنبل )
حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں۔ آپؓ نے اُنہیں منع فرما دیا۔ حضرت عثمانؓ کا محاصرہ کرنے والے دو ہزار سے بھی کم افراد تھے اور حضرت عثمانؓ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جاں نثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے۔ آخری وقت تک یہ سب آپ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑ دیں گے۔ لیکن آپؓ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی۔ آپؓ کا ایک ہی جواب تھا: ''میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا۔''
جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ35 ہجری کو حضرت عثمانؓ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں: عثمان جلدی کرو، ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا۔
(طبقات ابن سعد)
بیدار ہوکر آپؓ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپؓ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا۔ اس وقت آپ قرآن مجید سورۂ بقرہ کی آیت 137 (تمہارے لیے اللہ کافی ہے اور اللہتعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے) کی تلاوت فرما رہے تھے۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام، کہ آپ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لیے مدینے کی سرزمین اور مسلمانوں کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا۔ جان نثار آپؓ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ نے اجازت نہ دی۔
شہید کا خون جس جگہ گرتا ہے، وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ کسی کا خون کربلا کی سرزمین پر گرا، کسی کا اُحد کی گھاٹیوں میں، کسی کی شہادت گاہ میدانِ بدر۔ یہ مقامات اُن شہدا کی شہادت کی گواہی دیں گے لیکن اے عثمان غنیؓ آپ کے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے۔ روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایا جائے گا جیسا کہ اپنی موت کے وقت وہ دنیا سے گیا، کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا، کوئی سجدہ کرتے ہوئے، آپؓ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپؓ قرآن پڑھتے ہوئے اٹھیں گے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: '' میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کروگے، ہدایت پاجاؤگے۔''
حضرت عثمان غنیؓ کو اللہ تعالیٰ نے جن عظیم صفات سے مُتصف فرما کر صحابہ میں ممتاز فرمایا، وہ اُن ہی کا حصہ ہے۔ حیا کا ایسا پیکر تھے کہ فرشتے بھی آپؓ سے حیا کرتے تھے۔ آپؓ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی۔ حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
'' اے عثمانؓ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اور جو ظاہر کیے اور وہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں۔''
ایامِ جاہلیت میں بھی آپؓ کا خاندان غیر معمولی وجاہت و حشمت کا حامل تھا۔ اُمیہ بن عبد شمس کی طرف نسبت کے سبب آپؓ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے۔ بنوہاشم کے بعد شرف و سیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اللہ ﷺ سے جاملتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی نانی رسول اللہ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں، اس رشتے سے آپ رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتے دار تھے۔
آپؓ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں، جس نے اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحب زادی سیدہ رقیہؓ کا نکاح آپؓ کے ساتھ کردیا اور پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی۔ حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی سیدہ ام کلثوم ؓ کو حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں دے دیا۔ حضرت سیدہ ام کلثومؓ کے وصال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں، تو میں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمانؓ کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی۔''
حضرت مرہ بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا، اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا، آپؐ نے فرمایا: ''یہ شخص اُس دن (یعنی فتنوں کے دور میں) ہدایت پر ہوگا۔ '' میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ (ترمذی )
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے۔ مستقبل کے لیے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے۔ صدقات و خیرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کا بڑا اجر و ثواب ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے، اللہتعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے، جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے۔'' (البقرہ)
صحابۂ کرامؓ صدق و اخلاص، وفاشعاری و جاں نثاری کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹا دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی متاعِ حیات کا بیش بہا خزانہ بنالیتے ہیں، یہی جذبہ حضرت عمر فاروقؓ و حضرت علیؓ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ سیدنا عثمان غنیؓ ہر مشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظر آتے ہیں۔ صحابۂ کرام ؓجو صدق و وفا کا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے، ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں۔ مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنیؓ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا، حضر ت ابوبکرؓ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہتعالیٰ تم پر (رزق ) کشادہ فرما دے گا۔ اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار اونٹ گندم اور اشیائے خورونوش کے منگوائے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمانؓ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، آپؓ گھر سے باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ چادر آپؓ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔ آپؓ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لیے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا، ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں، آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کر دیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں۔ آپؓ نے فرمایا، اندر آؤ، پس وہ اندر داخل ہوئے، تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمانؓ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: اگر میں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے؟ اُنہوں نے کہا: دس پر بارہ ، آپؓ نے فرمایا: کچھ اور بڑھاؤ، اُنہوں نے کہا: دس پر چودہ۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، اُنہوں نے کہا: دس پر پندرہ، آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، اُنہوں نے کہا: اِس سے زیادہ کون دے گا، جب کہ ہم مدینے کے تاجر ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: اور بڑھاؤ، ہر درہم پر دس درہم تمہارے لیے زیادہ ہیں؟ اُنہوں نے کہا: نہیں، پھر آپؓ نے فرمایا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجاؤ کہ (یہ تمام مال) میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا۔
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے، آپؐ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرما تھے، آپؐ جلدی میں تھے اور آپؐ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی، نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان میری رغبت آپؐ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنت کی ایک حور سے فرما دیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں۔''
( اِزالۃ الخفا، جلد2، صفحہ:224 )
حضرت عثمان غنیؓ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ آذربائیجان، آرمینیا، طرابلس، الجزائر اور مراکش فتح ہوئے۔ آپؓ نے بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص کو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا۔ طبرستان میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے۔ فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا۔ حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت کے آخری حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سر اٹھالیا۔ کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سیکڑوں اقوام آباد تھیں، فطری طور پر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجود تھے، نتیجتاً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا، جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔ اِسی سازش کے نتیجے میں بصرہ، کوفہ اور مصر سے تقریباً دو ہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کے لیے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے اور حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو چالیس روز تک جاری رہا۔ باغیوں نے اشیائے خور و نوش کے سارے راستے بند کردیے۔ حضرت ام حبیبہؓ نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اللہ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بھی جان نثاروں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے گھر میں موجود تھے۔ محاصرے کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے عرض کی کہ آپؓ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے، ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیں، مکہ حرم ہے، وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیا کہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی خلافت کی بقا کے لیے مسلمانوں کا خون بہائے، دوسری صورت کا جواب دیا کہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسول ﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔ ( مسند امام احمد بن حنبل )
حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں۔ آپؓ نے اُنہیں منع فرما دیا۔ حضرت عثمانؓ کا محاصرہ کرنے والے دو ہزار سے بھی کم افراد تھے اور حضرت عثمانؓ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جاں نثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے۔ آخری وقت تک یہ سب آپ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑ دیں گے۔ لیکن آپؓ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی۔ آپؓ کا ایک ہی جواب تھا: ''میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا۔''
جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ35 ہجری کو حضرت عثمانؓ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں: عثمان جلدی کرو، ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا۔
(طبقات ابن سعد)
بیدار ہوکر آپؓ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپؓ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا۔ اس وقت آپ قرآن مجید سورۂ بقرہ کی آیت 137 (تمہارے لیے اللہ کافی ہے اور اللہتعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے) کی تلاوت فرما رہے تھے۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام، کہ آپ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لیے مدینے کی سرزمین اور مسلمانوں کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا۔ جان نثار آپؓ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ نے اجازت نہ دی۔
شہید کا خون جس جگہ گرتا ہے، وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ کسی کا خون کربلا کی سرزمین پر گرا، کسی کا اُحد کی گھاٹیوں میں، کسی کی شہادت گاہ میدانِ بدر۔ یہ مقامات اُن شہدا کی شہادت کی گواہی دیں گے لیکن اے عثمان غنیؓ آپ کے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے۔ روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایا جائے گا جیسا کہ اپنی موت کے وقت وہ دنیا سے گیا، کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا، کوئی سجدہ کرتے ہوئے، آپؓ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپؓ قرآن پڑھتے ہوئے اٹھیں گے۔