سوگ کی فضا میں تحلیل ہوتی سیاسی سرگرمیاں۔۔۔

دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کراچی میں حقیقی معنوں میں سیاسی سرگرمیوں کب شروع ہوں گی۔


Iqbal Khursheed February 19, 2013
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان انتخابات سے قبل علیحدگی نے کئی سوال پیدا کردیئے ہیں۔ فوٹو : فائل

SUKKUR: انتخابات کی آمد آمد ہے۔ ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ تجزیے اور تبصرے کیے جارہے ہیں۔

مبصرین اندازے لگا رہے ہیں، مستقبل بین پیش گوئی کر رہے ہیں، البتہ کراچی کی صورت حال کچھ حد تک مختلف ہے۔ بے شک گذشتہ چند دنوں میں شہر قائد کے سیاسی منظر میں ڈرامائی تبدیلیاں آئیں، البتہ چند عوامل کے باعث منظر پر چھائی دھند نہیں چھٹ سکی۔

ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد سیاسی میدان میں اچانک ہل چل پیدا ہوئی۔ ماہرین نے اس فیصلہ کا جائزہ لیا۔ ایم کیو ایم کے نمایندوں نے اس کے اسباب بیان کیے، پیپلز پارٹی کے ترجمان نے اس بحران کے حل کی امید ظاہر کی، مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، یہ واضح نظر آنے لگا کہ فاصلے گھٹنے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے ایک حلقے کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان بڑھتے فاصلے سیاسی محاذ پر تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی ہو۔ ماضی میں بھی کئی ایسے مواقع آئے، مگر ہر بار مذاکرات کے ذریعے اِس مسئلے کا حل تلاش کر لیا گیا، لیکن اِس بار دوریاں مٹنے کے امکانات خاصے کم ہیں۔ انتخابات میں چند ہی ماہ رہ گئے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی جماعت کے لیے اتحادی کا ''ٹیگ'' مضر ثابت ہوسکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ میدان میں اترا جائے۔ اِس نقطۂ نظر سے متحدہ کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔

چند سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ متحدہ نے یہ فیصلہ کرنے میں خاصا وقت صَرف کیا، الیکشن سر پر آچکے ہیں، ایسے میں اتحادی کی شناخت سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں، خصوصاً مسلم لیگ ن نے بھی اِس فیصلہ پر خاصی تنقید کی ہے۔ پیپلزپارٹی کا ردعمل ''نیم گرم'' رہا۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کی راہیں جدا ہوچکی ہیں۔ متحدہ اور پیپلزپارٹی کے درمیان بڑھتے فاصلوں کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، اور انتخابات انھیں قریب لائیں گے یا ان فاصلوں کو مزید بڑھادیں گے؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔

سیاسی میدان آنے والے ڈرامائی تبدیلیوں کے باوجود اس وقت کراچی میں انتخابی گہماگہمی نظر نہیں آرہی۔ الیکشن کی تیاریوں سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا الزامات پر زور ہے۔ جماعت اسلامی کو ووٹر لسٹوں اور حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے۔ وہ فوج کی زیرنگرانی الیکشن کا انعقاد چاہتی تھی۔ اے این پی بھی خاموشی نظر آتی ہے۔ اس کی موجودہ سیاسی سرگرمیاں کا مرکز خیبرپختون خواہ کا علاقہ ہے۔ پی پی کی توجہ بھی کراچی سے زیادہ اندرون سندھ پر مرکوز ہے۔ تحریک انصاف نے گذشتہ کچھ عرصے میں خود کو کراچی کی سطح پر فعال کیا، البتہ حالیہ دنوں میں اُس کی سرگرمیوں میں ماضی والی تیزی نظر نہیں آرہی۔ مسلم لیگ ن کی توجہ بھی اندرون سندھ پر مرکوز ہے، اُس کی توپوں کا رخ پی پی کی جانب ہے۔ اس صورت حال کے باعث ہمیں کراچی میں اس طرز کی سیاسی سرگرمیاں نظر نہیں آرہی، جیسی ہم اندرون سندھ اور ملک کے دیگر شہروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں، مگر سب سے بڑا سبب شہر کے بگڑتے ہوئے حالات ہیں، جنھوں نے شہر قائد کی باسیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

کراچی میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو، جب جنازے نہ اٹھتے ہوں۔ کبھی کسی سیاسی کارکن کی ہلاکت، کبھی کسی مذہبی راہ نما کا قتل۔ عام شہری بھی محفوظ نہیں۔ اس قسم کے واقعات کے بعد مختلف علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو جلد ہی پرتشدد رنگ اختیار کر جاتا ہے۔ سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، گاڑیاں جلائی جاتی ہیں، پتھرائو ہوتا ہے۔ اِن افسوس ناک واقعات کے زندگی معطل ہوجاتا ہے۔

گذشتہ چند روز سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو نشانے بنائے جانے کے افسوس ناک واقعے خلاف ملک دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ مظاہرین نے شہر کی اہم سڑکوں پر دھرنا دیا، جس کی وجہ سے ٹریفک معطل ہوگیا۔ دھرنے کا یہ سلسلہ اتنا منظم تھا کہ روزمرہ کے معمولات شدید متاثر ہوئے، یہی سبب ہے کہ کراچی میں گذشتہ تین روز سے جزوی ہڑتال کی صورت حال ہے۔

سیاست دانوں، خصوصاً ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی۔ ایم کیو ایم نے سوگ کا اعلان کیا، جس کے شہری، تجارتی اور سیاسی سرگرمیوں معطل ہوگئیں، تاجروں نے دکانیں بند رکھیں۔ اس دوران سانحۂ کوئٹہ کے متاثرین سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے مختلف سیاسی و مذہبی تنظیموں کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں۔

اس وقت کراچی میں سوگ کا ماحول ہے۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کراچی میں حقیقی معنوں میں سیاسی سرگرمیوں کب شروع ہوں گی۔ آیندہ انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی بھی ضرورت ہے، مگر اس ضمن میں تاحال کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں