بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات ہیں وزیر داخلہ
کراچی کی صورتحال بھی تشویشناک ہے،رحمن ملک،ن لیگ،جے یو آئی کے نیٹومعاہدے پر تحفظات
سینیٹ میں بلوچستان کی صورتحال پربحث کی تکمیل کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیاگیا،عید کے بعد پارلیمنٹ کوبلوچستان کے مسئلے پران کیمرہ بریفنگ دی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے بلوچستان میںبھارت اورافغانستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش کیے۔
ایوان بالا کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین صابر علی بلوچ کی زیرصدارت ہوا،وزیرداخلہ رحمن ملک نے بلوچستان کے معاملے پربحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ صوبے میں آزاد بلوچستان بنانے کی تحریک عمل پیراہے جس میں افغانستان ، بھارت برابرکے شریک ہیں ۔ انھوںنے کہاکہ بلوچستان کے حوالے سے میں نے کچھ دستاویزی ثبوت پیش کر دیے ہیںاورباقی ان کیمرہ اجلاس میںپیش کروںگا،رحمن ملک کا کہنا تھاکہ بلوچستان میں14گروپ متحرک ہیں جن کوباہرسے اسلحہ اور فنڈزملتے ہیں ،بلوچستان میں بے چینی، گڑ بڑ اور دہشت گردی امپورٹڈہے ،تخریب کاروں کے کیمپ افغانستان میں ہیں۔
گوادر بندرگاہ کو سازش کے تحت فعال نہیں ہونے دیاجا رہا ، صوبے میں لاپتہ افراد کی تعداد صرف 36 ہے، ایف سی یا پولیس کا ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا تاثر درست نہیں،تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلا کر مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے جھنڈے کو تسلیم نہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوںگے، پارلیمنٹ اتفاق رائے پیدا کرے ،بلوچستان سے فراری کیمپ اکھاڑ پھینکیں گے،کراچی کے حالات خراب کرنے میں بھی بیرونی ہاتھ ملوث ہے ۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ 2011ء میں تخریب کاری کے2334 واقعات ہوئے،ایک ہزار کیسز کی بی ایل اے نے ذمے داری قبول کی،براہمداغ بگٹی اور حربیار مری پورے بلوچستان کی نمائندگی نہیں کرتے، صوبے میں 40 فیصد پختون ہیں جنھوں نے آج تک اسلحہ نہیں اٹھایا۔ وزیرداخلہ نے بتایا کہ چمن میں ٹرک سے جو اسلحہ ملا وہ افغانستان سے آرہا تھا،قندھارمیں33 تربیتی کیمپ ہیں جہاں سے بلوچستان میں گڑبڑ ہوتی ہے،ان میں بھارت کاکردار ہے، بھارت کو بھی تحریری طور پر بتا دیا ہے۔
رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں، وہاں کے عوام ہماری مدد مانگ رہے ہیں،ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ کراچی میں سازش کے تحت حالات خراب کیے جاتے ہیں،بھارت سے کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں،ابوجندل کا اپنا بیان ہے کہ وہ بھارت کا شہری ہے اور اسے پاکستان بھیجا گیا تھا اور کراچی میں اس کا کیمپ تھا، کراچی کی صورتحال بلوچستان سے الگ نہیں،بلوچستان کی تخریب کار تنظیم کے کراچی میں لیاری کے رابطے ہیں۔
اسحاق ڈارنے کہاکہ اپوزیشن بلوچستان کے مسئلہ پرحکومت کے ساتھ ہے اور وہ ہرممکن تعاون کرے گی، بلوچستان پاکستان کاحصہ ہے اور رہیگا۔کلثوم پروین نے کہاکہ جوبلوچ پاکستان کے ساتھ ہیں حکومت انھیںملازمتیں اور ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے ۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ براہمداغ بگٹی پاکستان آئیں، انھیں لانے کیلیے جہاز بھیجیں گے۔ثناء نیوز کے مطابق نکتہ اعتراص پر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ نیٹو سپلائی کے بارے میں تحریری معاہدے کے مندر جات سے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے،یہ معاہدہ پارلیمنٹ کی سفارشات کے تحت نہیں ہوا ۔
ادھر (ن) لیگ نے بھی نیٹو سپلائی معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ظفرعلی شاہ نے کہا کہ ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ کالعدم تنظیموں کو ہتھیار بھجوائے جارہے ہیں پھر نیٹو سپلائی کی آڑمیں اسلحہ بھجوانے کی اجازت کیوں دی گئی ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت بلوچستان کے مسئلے پر اپنے لائحہ عمل کے بارے میں ٹائم فریم سے آگاہ کرے ۔ آن لائن کے مطابق متحدہ کے طاہر مشہدی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ کراچی کی صورتحال دن بدن کشیدہ ہورہی ہے،شرپسندوں کے خلاف بلاتعطل اوربلاتفریق کارروائی کی جائے ۔ بعد ازاں اجلاس غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی کردیا گیا۔
ایوان بالا کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین صابر علی بلوچ کی زیرصدارت ہوا،وزیرداخلہ رحمن ملک نے بلوچستان کے معاملے پربحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ صوبے میں آزاد بلوچستان بنانے کی تحریک عمل پیراہے جس میں افغانستان ، بھارت برابرکے شریک ہیں ۔ انھوںنے کہاکہ بلوچستان کے حوالے سے میں نے کچھ دستاویزی ثبوت پیش کر دیے ہیںاورباقی ان کیمرہ اجلاس میںپیش کروںگا،رحمن ملک کا کہنا تھاکہ بلوچستان میں14گروپ متحرک ہیں جن کوباہرسے اسلحہ اور فنڈزملتے ہیں ،بلوچستان میں بے چینی، گڑ بڑ اور دہشت گردی امپورٹڈہے ،تخریب کاروں کے کیمپ افغانستان میں ہیں۔
گوادر بندرگاہ کو سازش کے تحت فعال نہیں ہونے دیاجا رہا ، صوبے میں لاپتہ افراد کی تعداد صرف 36 ہے، ایف سی یا پولیس کا ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا تاثر درست نہیں،تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلا کر مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے جھنڈے کو تسلیم نہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوںگے، پارلیمنٹ اتفاق رائے پیدا کرے ،بلوچستان سے فراری کیمپ اکھاڑ پھینکیں گے،کراچی کے حالات خراب کرنے میں بھی بیرونی ہاتھ ملوث ہے ۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ 2011ء میں تخریب کاری کے2334 واقعات ہوئے،ایک ہزار کیسز کی بی ایل اے نے ذمے داری قبول کی،براہمداغ بگٹی اور حربیار مری پورے بلوچستان کی نمائندگی نہیں کرتے، صوبے میں 40 فیصد پختون ہیں جنھوں نے آج تک اسلحہ نہیں اٹھایا۔ وزیرداخلہ نے بتایا کہ چمن میں ٹرک سے جو اسلحہ ملا وہ افغانستان سے آرہا تھا،قندھارمیں33 تربیتی کیمپ ہیں جہاں سے بلوچستان میں گڑبڑ ہوتی ہے،ان میں بھارت کاکردار ہے، بھارت کو بھی تحریری طور پر بتا دیا ہے۔
رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں، وہاں کے عوام ہماری مدد مانگ رہے ہیں،ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ کراچی میں سازش کے تحت حالات خراب کیے جاتے ہیں،بھارت سے کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں،ابوجندل کا اپنا بیان ہے کہ وہ بھارت کا شہری ہے اور اسے پاکستان بھیجا گیا تھا اور کراچی میں اس کا کیمپ تھا، کراچی کی صورتحال بلوچستان سے الگ نہیں،بلوچستان کی تخریب کار تنظیم کے کراچی میں لیاری کے رابطے ہیں۔
اسحاق ڈارنے کہاکہ اپوزیشن بلوچستان کے مسئلہ پرحکومت کے ساتھ ہے اور وہ ہرممکن تعاون کرے گی، بلوچستان پاکستان کاحصہ ہے اور رہیگا۔کلثوم پروین نے کہاکہ جوبلوچ پاکستان کے ساتھ ہیں حکومت انھیںملازمتیں اور ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے ۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ براہمداغ بگٹی پاکستان آئیں، انھیں لانے کیلیے جہاز بھیجیں گے۔ثناء نیوز کے مطابق نکتہ اعتراص پر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ نیٹو سپلائی کے بارے میں تحریری معاہدے کے مندر جات سے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے،یہ معاہدہ پارلیمنٹ کی سفارشات کے تحت نہیں ہوا ۔
ادھر (ن) لیگ نے بھی نیٹو سپلائی معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ظفرعلی شاہ نے کہا کہ ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ کالعدم تنظیموں کو ہتھیار بھجوائے جارہے ہیں پھر نیٹو سپلائی کی آڑمیں اسلحہ بھجوانے کی اجازت کیوں دی گئی ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت بلوچستان کے مسئلے پر اپنے لائحہ عمل کے بارے میں ٹائم فریم سے آگاہ کرے ۔ آن لائن کے مطابق متحدہ کے طاہر مشہدی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ کراچی کی صورتحال دن بدن کشیدہ ہورہی ہے،شرپسندوں کے خلاف بلاتعطل اوربلاتفریق کارروائی کی جائے ۔ بعد ازاں اجلاس غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی کردیا گیا۔