گرینڈ الائنس کی تشکیل کا امکان حکومت پریشان

اپوزیشن جماعتیں بالائی سندھ میں ایسا گرینڈ الائنس تشکیل دینے جا رہی ہیں جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ ن کے درمیان قربتیں پیپلز پارٹی کیلئیے خطرہ بن سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

سکھر سمیت بالائی سندھ میں سیاسی سرگرمیوں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کے دورہ سندھ کے موقع پر معروف سیاسی شخصیات کی مسلم لیگ میں شمولیت سے حکم راں جماعت کو آئندہ انتخابات میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بالائی سندھ میں پیپلزپارٹی اور اس کی سابق اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کا ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا ہونا اِس جانب اشارہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بالائی سندھ میں ایسا گرینڈ الائنس تشکیل دینے جا رہی ہیں، جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

گذشتہ ایک سال کے دوران مسلم لیگ نواز نے بالائی سندھ میں ایسے سیاست دانوں اور قوم پرست جماعتوں سے رابطوں کو فروغ دیا ہے، جو صوبے کی سیاست میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ میاں نوازشریف، سید غوث علی شاہ اور دیگر ذمے داران نے حکم راں جماعت کا ووٹ بینک توڑنے اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے جہاں سردار ممتاز بھٹو، ماروی میمن، سید ظفر علی شاہ، لیاقت علی جتوئی کو پارٹی میں شامل کیا، وہیں مسلم لیگ فنکشنل، جمعیت علمائے اسلام اور قوم پرست جماعتوں کی ہم دردیاں بھی حاصل کیں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو توقع ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ فنکشنل، جے یو آئی اور ن لیگ کے درمیان مضبوط اتحاد قائم ہوگا، جس سے پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک کو خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

گذشتہ دنوں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے دورۂ سندھ کے موقع پر حکم راں جماعت اور صدر مملکت آصف علی زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، کراچی میں لاشیں گرنا معمول بن چکا ہے، نیا بلدیاتی نظام عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے والے حکم رانوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔ پانچ سالہ دور اقتدار حکم رانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے اقتدار کا لالچ نہیں، انھیں فقط اپنے مفادات عزیز ہیں، بعض قوتیں ملک میں عام انتخابات ملتوی کروانا چاہتی ہیں، مگر ایسا ہوگا نہیں۔ اُنھوں نے جلسے کے دوران متعدد مرتبہ عوام سے استفسار کیا کہ کیا وہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ کیا انھیں دو وقت کی روٹی ملتی ہے؟ بجلی، گیس اور پانی ہے؟ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے سندھ میں ڈاکو راج ختم کر کے کراچی میں امن قائم کیا۔ ہمارے دور اقتدار میں سندھ میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق میاں صاحب کے دورۂ سندھ کے موقع پر حکم راں جماعت سے تعلق رکھنے والے متعدد ناراض سیاست دانوں سے رابطہ کیا گیا ہے۔

جُوں جُوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں، اپوزیشن جماعتیں کی سرگرمیاں تیز ہوتی جارہی ہیں۔ اُن کی جانب سے عوام کو حکومت میں شامل جماعتوں کو وہ وعدے یاد دلائے جارہے ہیں، جو اُنھوں نے الیکشن سے قبل عوام سے کیے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ منتخب نمائندوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے، اُن میں سے بیش تر پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ منہگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ یہ صورت حال حکم راں جماعت کے لیے پریشان کن ہوسکتی ہے۔ نگراں حکومت کے قیام کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں مزید تیزی کی توقع ہے۔


جمعیت علمائے اسلام بھی خاصی فعال نظر آتی ہے، جس کی جانب سے عام انتخابات میں سکھر کی قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں کے لیے متوقع امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ جے یو آئی ضلع سکھر کی مجلس عاملہ اور انتخابی بورڈ کا اہم اجلاس جامعہ اسلامیہ معارف القرآن والحدیث، پنوعاقل میں ضلعی امیر مولانا عبدالقیوم ہالیجوی کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 198سے جے یو آئی کے سینئر راہ نما آغا سید ایوب شاہ (متبادل امیدوار آغا محمد ہارون) اور حلقہ این اے 199سے جے یو آئی کے ضلعی امیر مولانا عبدالقیوم ہالیجوی (متبادل امیدوار ضلعی جنرل سیکریٹری مولانا محمد صالح انڈھڑ) انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 1پر امیر مفتی سعود افضل ہالیجوی، پی ایس 2 پر حاجی عبدالغنی کھوسو، پی ایس 3 پر مولانا غلام اللہ، پی ایس 4 پر حافظ غلام مصطفی برڑوکو نام زد کیا گیا ہے۔ جے یو آئی نے اپنے تنظیمی یونٹ کے ذمے داروں کو بھی انتخابات کی بھرپور تیاریوں کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

اب بات کرتے ہیں جماعت اسلامی کی۔ یوں تو جماعت اسلامی کے کارکنان کافی عرصے سے فعال ہیں، مگر آئندہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں، ٹارگیٹ کلنگ، دہشت گردی اور بھتا خوری کو بنیاد بناتے ہوئے فوج کی زیر نگرانی ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے لیے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے شروع کردہ مہم کے نتائج کو اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔ احتجاجی مظاہروں، علامتی بھوک ہڑتال اور دھرنوں میں عام کارکنان کے برعکس جماعت کے ذمے داران زیادہ تعداد میں نظر آئے، جو اِس جانب اشارہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانا جماعت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کی جانب سے، چیف الیکشن کمشنر کی واضح یقین دہانی کے باوجود، ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے عمل میں ہونے والی مبینہ بے قاعدگیوں اور فوج کی عدم شمولیت کے خلاف دھرنا دیا، جس میں ضلعی راہ نما پروفیسر مسعود علی خان اور حزب اللہ جکھرو سمیت مختلف اپوزیشن جماعتوں کے راہ نمائوں نے شرکت کی۔ راہ نمائوں کا کہنا تھا کہ آج کراچی کے عوام کو دہشت گردی، ٹارگیٹ کلنگ، بھتا خوری اور بدامنی کی اذیت کا سامنا ہے۔ صنعت کار کراچی سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ حکم راں، عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں۔

جماعت کی جانب سے عام انتخابات کے لیے ضلع سکھر کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرست مجلس شوریٰ کو ارسال کردی گئی ہے۔ آئندہ چند روز میں صوبائی قیادت اس حوالے سے اعلان کرے گی۔ جے یو آئی اور مسلم لیگ فنکشنل کی سرگرمیاں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ پیپلزپارٹی کا گڑھ کہلانے والے ضلع سکھر انتخابی نتائج 2008 سے مختلف ہوں گے۔ متحدہ کو بھی شہری علاقوں میں کام یابی کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔

اس وقت ن لیگ کی مکمل توجہ اندرون سندھ پر مرکوز ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نگراں سیٹ اپ سے قبل مسلم لیگ ن کی سندھ کی اپوزیشن جماعتوں، خصوصاً پیر سائیں پگارا سے رابطوں کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں اور توقع ہے کہ اس عمل میں فنکشنل لیگ اور جے یو آئی مرکزی کردار ادا کریں گی۔
Load Next Story