طالبان سے مذاکرات کے لئے سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے
ملک کی 24 سیاسی جماعتیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر متفق ہو گئی ہیں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تدارک کے لئے قومی حکمت عملی وضع کرنے کی خاطر عوامی نیشنل پارٹی کے زیر انتظام وفاقی دارالحکومت کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں 24 سیاسی جماعتیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر متفق ہو گئی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی گزشتہ 5 سال سے صوبہ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار ہے، اے این پی کے کئی مرکزی رہنمائوں پر سنگین نوعیت کے خودکش حملے ہو چکے ہیں اور بعض رہنما ان حملوں میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اے این پی اور طالبان کے درمیان اختلافات کئی سالوں سے شدت اختیار کرتے آئے ہیں اے این پی کی قیادت نے انتخابات کے انعقاد سے چند ماہ پہلے اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور گزشتہ دو ماہ کی کوششوں کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے ایک اتفاق رائے کے حصول کے لئے نمائندہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایک چھت تلے جمع کیا، دہشت گردی اور انتہا پسندی بلا شبہ ملک کا سب سے بڑا اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور اس دہشت گردی کی لہر نے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا ہے اس سنگین چیلنج سے نپٹنے کے لئے اے این پی کی قیادت کی کال پر 24 سے زائد سیاسی جماعتوں کا سیاسی اختلافات اور وابستگیوں کو پس پشت ڈال کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا بلاشبہ ایک صحت مند روایت ہے۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے کل جماعتی کانفرنس میں بوجہ شرکت نہیں کی اور یہ دونوں جماعتیں اپنے اصولی موقف پر ڈٹی رہیں، کانفرنس کے میزبان اور اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کو ملک کا بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اہم مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا، عوام کا مستقبل محفوظ بنانا ہو گا، یہ کانفرنس ایک نقطہ آغازہے، سیاسی مبصرین 24 سیاسی جماعتوں کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی تجویز پر اتفاق رائے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سفارشات پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے ابھی تک اس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے پر طالبان کا جو ردعمل آیا ہے وہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، کانفرنس میں شریک قومی سیاستدان اس امر پر متفق تھے کہ خون آلود دامن خون سے نہیں دھویا جا سکتا۔
امن مذاکرات سے یہ دھبے دھوئے جا سکتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کانفرنس میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان، راجہ ظفر الحق اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری جنرل ظفر اقبال جھگڑا جبکہ پیپلز پارٹی کی نمائندگی جہانگیر بدر اور وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کی، فاٹا میں گرینڈ جرگہ کی امن کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا گیا ہے، بعض سیاسی جماعتیں کل جماعتی کانفرنس کے عام انتخابات سے دو ماہ قبل انعقاد پر اے این پی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں اور یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار کے مزے لوٹنے والی جماعت اے این پی کی قیادت کو گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا خیال تک نہیں آیا، اب جبکہ اسمبلیوں کی مدت تکمیل کے قریب تر آ گئی ہے اور اے این پی کے قائدین کو انتخابی مہم کے دوران اپنے حلقوں کی جانب رجوع کرنا ہے تو خودکش حملوں سے بچنے کے لئے طالبان سے مذاکرات کرنے کی حمایت کا اعلان کر دیا گیا ہے، بعض حلقے اس کانفرنس کو اے این پی کی آئندہ انتخابی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں، لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش صورتحال کے باعث تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو آئندہ انتخابات کے دوران انتخابی مہم میں سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں اور اس وجہ سے سیاسی قائدین میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، سیاسی اور انتخابی ایجنڈے سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو سیاسی قوتوں کا اس اہم مسئلہ پر قومی اتفاق رائے کا قیام ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔
پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان 5 سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے قریب تر ہے، قومی اسمبلی کا 50 واں اور آخری اجلاس جاری ہے اور یہ آخری اجلاس آئینی طور پر ایام پورے کرنے کے لئے طلب کیا گیا ہے، 16 مارچ کو اسمبلیاں آئینی مدت کی تکمیل پر از خود تحلیل ہو جائیں گی، اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 3 روز کے اندر اندر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر مشاورت کا عمل مکمل کرنا ہے اور زیادہ سے زیادہ 7 دنوں میں نگراں سیٹ اپ کے قیام پر مشاورت کو مکمل کرنا ضروری ہے، آئینی ترمیم کی روشنی میں اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے دو دو نام نگراں وزیر اعظم کے لئے دیئے جائیں گے ،ان چار ناموں میں سے ایک پر دونوں فریقین نے اتفاق رائے کرنا ہے۔ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے اتوار کے روز پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں یہ بات کہی ہے کہ اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے لئے دو نام فائنل کرنے کے بعد یہ عوام کے سامنے رکھے جائیں گے۔
اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کی طرف سے شارٹ لسٹ کئے گئے دو ناموں میں سے ایک پر اتفاق رائے کر سکتی ہیں اور حکومت اپوزیشن کے تجویز کردہ دو ناموں میں سے ایک پر اتفاق کر سکتی ہے، انتخابی عمل کا دورانیہ 90 کے بجائے 60 روز کرنے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہونا باقی ہے، حکومت اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ ایک ہی دن اسملیاں تحلیل کرنے کی کنجی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے پاس ہے، چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس کے دوران انتخابی مہم کا دورانیہ 60 روز کرنے کے حق میں ٹھوس اور مدلل دلائل پیش کئے ہیں جن سے کوئی سیاسی جماعت انکار نہیں کر سکتی، چوہدری نثار علی خان کے بقول ملک کی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال تشویشناک ہے، 90 روز کی طویل انتخابی مہم کی وجہ سے دہشت گردی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، 90 روز کی طویل انتخابی مہم کے باعث انتخابی اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
زبوں حال معاشی صورتحال کے باعث آئندہ منتخب ہونے والی حکومت کو بجٹ سازی کیلئے وقت نہیں ملے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اگر حکومت نے مذکورہ بالاہ تلخ حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم کا دورانیہ 60 روز نہ کیا تو پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں ایک ماہ کی تاخیر کر دی جائے گی یہ دوسرے لفظوں میں پیپلز پارٹی کے لئے ایک دھمکی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حتمی فیصلہ کیاکیا جاتا ہے۔ چار سال 11 ماہ تک اقتدار کے ایوان میں براجمان رہنے اور بلا شرکت غیرے تمام مراعات سے حسب توفیق استفادہ کرنے کے بعد ایم کیو ایم خیر سے اپوزیشن میں آ گئی ہے، حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسمبلیوں کی تحلیل سے چند دن بیشتر ایم کیو ایم کے اس اعلان پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) نے تو ایم کیو ایم کو اپوزیشن جماعت نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ نگراں حکومت کے لئے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی میں ایم کیو ایم کو شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ اعلان کر دیا ہے کہ ایم کیو ایم سے اپوزیشن جماعتیں نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر مشاورت نہیں کریں گی۔
فلسطین کے صدر کے اعزاز میں صدر آصف علی زرداری کی طرف سے دیئے گئے ظہرانہ میں قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کی شرکت پر تبصرے کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ نگراں وزیر اعظم محمود خان اچکزئی ہو سکتے ہیں، صدر آصف علی زرداری نے انہیں غیر معمولی پروٹوکول دیا، نگراں وزیر اعظم بنانے کے حوالے سے جب ان سے استفسار کیاگیا تو محمود اچکزئی نے بلا تامل کہا کہ اس موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔
عوامی نیشنل پارٹی گزشتہ 5 سال سے صوبہ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار ہے، اے این پی کے کئی مرکزی رہنمائوں پر سنگین نوعیت کے خودکش حملے ہو چکے ہیں اور بعض رہنما ان حملوں میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اے این پی اور طالبان کے درمیان اختلافات کئی سالوں سے شدت اختیار کرتے آئے ہیں اے این پی کی قیادت نے انتخابات کے انعقاد سے چند ماہ پہلے اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور گزشتہ دو ماہ کی کوششوں کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے ایک اتفاق رائے کے حصول کے لئے نمائندہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایک چھت تلے جمع کیا، دہشت گردی اور انتہا پسندی بلا شبہ ملک کا سب سے بڑا اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور اس دہشت گردی کی لہر نے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا ہے اس سنگین چیلنج سے نپٹنے کے لئے اے این پی کی قیادت کی کال پر 24 سے زائد سیاسی جماعتوں کا سیاسی اختلافات اور وابستگیوں کو پس پشت ڈال کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا بلاشبہ ایک صحت مند روایت ہے۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے کل جماعتی کانفرنس میں بوجہ شرکت نہیں کی اور یہ دونوں جماعتیں اپنے اصولی موقف پر ڈٹی رہیں، کانفرنس کے میزبان اور اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کو ملک کا بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اہم مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا، عوام کا مستقبل محفوظ بنانا ہو گا، یہ کانفرنس ایک نقطہ آغازہے، سیاسی مبصرین 24 سیاسی جماعتوں کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی تجویز پر اتفاق رائے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سفارشات پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے ابھی تک اس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے پر طالبان کا جو ردعمل آیا ہے وہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، کانفرنس میں شریک قومی سیاستدان اس امر پر متفق تھے کہ خون آلود دامن خون سے نہیں دھویا جا سکتا۔
امن مذاکرات سے یہ دھبے دھوئے جا سکتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کانفرنس میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان، راجہ ظفر الحق اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری جنرل ظفر اقبال جھگڑا جبکہ پیپلز پارٹی کی نمائندگی جہانگیر بدر اور وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کی، فاٹا میں گرینڈ جرگہ کی امن کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا گیا ہے، بعض سیاسی جماعتیں کل جماعتی کانفرنس کے عام انتخابات سے دو ماہ قبل انعقاد پر اے این پی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں اور یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار کے مزے لوٹنے والی جماعت اے این پی کی قیادت کو گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا خیال تک نہیں آیا، اب جبکہ اسمبلیوں کی مدت تکمیل کے قریب تر آ گئی ہے اور اے این پی کے قائدین کو انتخابی مہم کے دوران اپنے حلقوں کی جانب رجوع کرنا ہے تو خودکش حملوں سے بچنے کے لئے طالبان سے مذاکرات کرنے کی حمایت کا اعلان کر دیا گیا ہے، بعض حلقے اس کانفرنس کو اے این پی کی آئندہ انتخابی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں، لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش صورتحال کے باعث تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو آئندہ انتخابات کے دوران انتخابی مہم میں سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں اور اس وجہ سے سیاسی قائدین میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، سیاسی اور انتخابی ایجنڈے سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو سیاسی قوتوں کا اس اہم مسئلہ پر قومی اتفاق رائے کا قیام ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔
پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان 5 سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے قریب تر ہے، قومی اسمبلی کا 50 واں اور آخری اجلاس جاری ہے اور یہ آخری اجلاس آئینی طور پر ایام پورے کرنے کے لئے طلب کیا گیا ہے، 16 مارچ کو اسمبلیاں آئینی مدت کی تکمیل پر از خود تحلیل ہو جائیں گی، اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 3 روز کے اندر اندر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر مشاورت کا عمل مکمل کرنا ہے اور زیادہ سے زیادہ 7 دنوں میں نگراں سیٹ اپ کے قیام پر مشاورت کو مکمل کرنا ضروری ہے، آئینی ترمیم کی روشنی میں اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے دو دو نام نگراں وزیر اعظم کے لئے دیئے جائیں گے ،ان چار ناموں میں سے ایک پر دونوں فریقین نے اتفاق رائے کرنا ہے۔ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے اتوار کے روز پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں یہ بات کہی ہے کہ اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے لئے دو نام فائنل کرنے کے بعد یہ عوام کے سامنے رکھے جائیں گے۔
اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کی طرف سے شارٹ لسٹ کئے گئے دو ناموں میں سے ایک پر اتفاق رائے کر سکتی ہیں اور حکومت اپوزیشن کے تجویز کردہ دو ناموں میں سے ایک پر اتفاق کر سکتی ہے، انتخابی عمل کا دورانیہ 90 کے بجائے 60 روز کرنے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہونا باقی ہے، حکومت اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ ایک ہی دن اسملیاں تحلیل کرنے کی کنجی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے پاس ہے، چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس کے دوران انتخابی مہم کا دورانیہ 60 روز کرنے کے حق میں ٹھوس اور مدلل دلائل پیش کئے ہیں جن سے کوئی سیاسی جماعت انکار نہیں کر سکتی، چوہدری نثار علی خان کے بقول ملک کی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال تشویشناک ہے، 90 روز کی طویل انتخابی مہم کی وجہ سے دہشت گردی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، 90 روز کی طویل انتخابی مہم کے باعث انتخابی اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
زبوں حال معاشی صورتحال کے باعث آئندہ منتخب ہونے والی حکومت کو بجٹ سازی کیلئے وقت نہیں ملے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اگر حکومت نے مذکورہ بالاہ تلخ حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم کا دورانیہ 60 روز نہ کیا تو پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں ایک ماہ کی تاخیر کر دی جائے گی یہ دوسرے لفظوں میں پیپلز پارٹی کے لئے ایک دھمکی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حتمی فیصلہ کیاکیا جاتا ہے۔ چار سال 11 ماہ تک اقتدار کے ایوان میں براجمان رہنے اور بلا شرکت غیرے تمام مراعات سے حسب توفیق استفادہ کرنے کے بعد ایم کیو ایم خیر سے اپوزیشن میں آ گئی ہے، حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسمبلیوں کی تحلیل سے چند دن بیشتر ایم کیو ایم کے اس اعلان پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) نے تو ایم کیو ایم کو اپوزیشن جماعت نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ نگراں حکومت کے لئے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی میں ایم کیو ایم کو شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ اعلان کر دیا ہے کہ ایم کیو ایم سے اپوزیشن جماعتیں نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر مشاورت نہیں کریں گی۔
فلسطین کے صدر کے اعزاز میں صدر آصف علی زرداری کی طرف سے دیئے گئے ظہرانہ میں قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کی شرکت پر تبصرے کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ نگراں وزیر اعظم محمود خان اچکزئی ہو سکتے ہیں، صدر آصف علی زرداری نے انہیں غیر معمولی پروٹوکول دیا، نگراں وزیر اعظم بنانے کے حوالے سے جب ان سے استفسار کیاگیا تو محمود اچکزئی نے بلا تامل کہا کہ اس موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔