ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی فنکشنل مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سندھ میں عام ووٹر کنفیوژ ہوگیا ہے
متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد سندھ کی مستقبل کی سیاست کے بارے میں کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی نئے بلدیاتی ایکٹ میں ایسی ترامیم کرے گی جس سے سندھ کے لوگوں کا غم و غصہ کم ہو ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ سندھ میں نگراں حکومت کیسی ہوگی ؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا دوبارہ اتحاد قائم ہوگا ؟
جہاں تک نئے بلدیاتی ایکٹ یعنی سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس پی ایل جی اے) 2013ء میں ترمیم کا سوال ہے ۔ یہ پیپلز پارٹی کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو راضی رکھنے اور اس کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے کے لئے یہ بلدیاتی قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا تھا ۔ اس قانون کی نہ صرف پورے سندھ میں عوامی سطح پر مخالفت ہوئی بلکہ اندرون خانہ پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ، عہدیداران اور کارکنان بھی نئے بلدیاتی قانون کے مخالف تھے ۔ ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد سیاسی حلقے نئے بلدیاتی قانون میں ترمیم ہونے یا نہ ہونے کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مابین موجودہ اور مستقبل کے تعلقات کا پیمانہ قرار دے رہے ہیں ۔
ان حلقوں کا خیال ہے کہ اگر پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی کے رواں اجلاس میں بلدیاتی قانون میں ایسی ترامیم لے آتی ہے ، جو ایم کیو ایم کی مرضی کے خلاف ہوں ، تو یہ تصور کیا جائے گا کہ ایم کیو ایم نے کسی منصوبہ بندی کے تحت اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور وہ حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا کردار اد اکرے گی۔ اگر پیپلز پارٹی بلدیاتی قانون میں ترمیم نہیں کرتی ہے اور اسے جوں کا توں برقرار رکھتی ہے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے باوجود پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ہے ۔
اس سے قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں کی اس بات کو تقویت ملے گی کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایم سمجھوتے کے تحت حکومت اور اپوزیشن میں رہ کر اپنی مرضی کی نگراں حکومت قائم کریں گی ۔ ویسے بھی سندھ کی تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں بیٹھنا ایک سیاسی ڈرامہ ہے لیکن حقیقت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں کچھ دنوں میں پتہ چلے گا ۔ بلدیاتی قانون میں ترمیم نہ ہوئی تو اس سے نہ صرف یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان نہ صرف اس وقت مفاہمت موجود ہے بلکہ آئندہ بھی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد برقرار رہنے کے واضح امکانات ہیں ۔
سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان نے اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کی درخواست دے دی ہے ۔ ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 51 ہے ۔ قبل ازیں مسلم لیگ (فنکشنل) نے اپنی خاتون رکن نصرت سحر عباسی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کیلئے درخواست دی ہوئی تھی ۔ اسپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت اس رکن کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا جائے گا، جسے اکثریتی اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل ہوگی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (فنکشنل) کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ملنے کا امکان ختم ہوگیا ہے ۔ اس طرح 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت نئی نگراں حکومت کے قیام میں مسلم لیگ (فنکشنل) کا کردار ختم ہوگیا ہے اور اب اس سے مشاورت نہیں کی جائے گی ۔ اپوزیشن لیڈر ایم کیو ایم کا ہوگا ۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر نگراںحکومت کے لئے ناموں کو حتمی شکل دیں گی ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف دیگر اتحادی جماعتوں نے ایسی نگراں حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے لیکن اسے آئینی اور قانونی طور پر مسترد کرنے کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اس طرح یوں محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں نگراں حکومت اپنی تشکیل سے پہلے ہی متنازع بن سکتی ہے۔
اب تیسرا سوال یہ ہے کہ سندھ میں آئندہ سیاسی اتحاد کس طرح بنیں گے اور ایم کیو ایم مستقبل میں کس کیمپ میں جائے گی۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت نے سب سے پہلا رابطہ مسلم لیگ (فنکشنل) کی قیادت سے کیا اور اپوزیشن لیڈر کے لیے اس کی حمایت طلب کی لیکن مسلم لیگ (فنکشنل) نے ایم کیو ایم کی حمایت نہیں کی ۔ فنکشنل مسلم لیگ کے رہنما جام مدد علی نے کہا کہ فنکشنل لیگ زیادہ دن سے اپوزیشن میں ہے اس لیے اپوزیشن لیڈر ان کا حق ہے لیکن جام مدد نے یہ نہیں بتایا کہ فنکشنل مسلم لیگ بھی ساڑھے چار سال پیپلز پارٹی کی حکومت کی حلیف رہی اور مختلف وزراتوں اور مشیروں کے عہدے لینے کے ساتھ ساتھ مختلف اہم محکموں کے مزے بھی لوٹتی رہی ۔
مسلم لیگ (فنکشنل) کی قیادت کو بھی پتہ ہے کہ اب اس کا سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکتا لیکن اس نے ایم کیو ایم کی حمایت سے بھی احتراز کیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے مسلم لیگ (فنکشنل) کی قیادت کے ساتھ رابطوں میں تیزی آگئی ہے اور یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ مسلم لیگ (فنکشنل) کو سندھ کی نگراں حکومت میں اہم قلمدان دیئے جاسکتے ہیں ۔ کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ گورنر سندھ فنکشنل لیگ کا ہوسکتا ہے لیکن پیر پگارا کے لئے کسی بھی پیشکش کو قبول کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک پیپلز پارٹی نئے بلدیاتی قانون میں ترامیم نہیں کرتی ۔ سندھ اسمبلی کا رواں اجلاس آخری اجلاس ہے۔ اگر اس میں بلدیاتی قانون میں ترامیم نہ ہوئیں تو پھر یہ واضح ہوجائے گا کہ سیاسی صف بندی میں کوئی بڑی تبدیلیاں نہیں ہوں گی ۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی فنکشنل مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سندھ میں عام ووٹر کنفیوژ ہوگیا ہے اور یہ بات عوامی رائے بنتی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے اتحاد اگر سندھ میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو پھر فنکشنل مسلم لیگ اور اس کے تمام اتحادی جنرل مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کے اتحادی رہے مل جل کر پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹے ، بلدیاتی نظام میں بھی ساتھ رہے اور موجودہ حکومت کے ساڑھے چار سال بھی ساتھ رہے لیکن اچانک نفرت کی باتیں کیوں شروع ہوگئیں ؟ ان سوالات کے جوابات آئندہ چند روز میں واضح ہوں گے، ایم کیو ایم کے اعلان کے مطابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے استعفیٰ کی صورت میں گتھی سلجھ جائے گی ۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی نئے بلدیاتی ایکٹ میں ایسی ترامیم کرے گی جس سے سندھ کے لوگوں کا غم و غصہ کم ہو ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ سندھ میں نگراں حکومت کیسی ہوگی ؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا دوبارہ اتحاد قائم ہوگا ؟
جہاں تک نئے بلدیاتی ایکٹ یعنی سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس پی ایل جی اے) 2013ء میں ترمیم کا سوال ہے ۔ یہ پیپلز پارٹی کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو راضی رکھنے اور اس کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے کے لئے یہ بلدیاتی قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا تھا ۔ اس قانون کی نہ صرف پورے سندھ میں عوامی سطح پر مخالفت ہوئی بلکہ اندرون خانہ پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ، عہدیداران اور کارکنان بھی نئے بلدیاتی قانون کے مخالف تھے ۔ ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد سیاسی حلقے نئے بلدیاتی قانون میں ترمیم ہونے یا نہ ہونے کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مابین موجودہ اور مستقبل کے تعلقات کا پیمانہ قرار دے رہے ہیں ۔
ان حلقوں کا خیال ہے کہ اگر پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی کے رواں اجلاس میں بلدیاتی قانون میں ایسی ترامیم لے آتی ہے ، جو ایم کیو ایم کی مرضی کے خلاف ہوں ، تو یہ تصور کیا جائے گا کہ ایم کیو ایم نے کسی منصوبہ بندی کے تحت اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور وہ حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا کردار اد اکرے گی۔ اگر پیپلز پارٹی بلدیاتی قانون میں ترمیم نہیں کرتی ہے اور اسے جوں کا توں برقرار رکھتی ہے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے باوجود پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ہے ۔
اس سے قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں کی اس بات کو تقویت ملے گی کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایم سمجھوتے کے تحت حکومت اور اپوزیشن میں رہ کر اپنی مرضی کی نگراں حکومت قائم کریں گی ۔ ویسے بھی سندھ کی تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں بیٹھنا ایک سیاسی ڈرامہ ہے لیکن حقیقت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں کچھ دنوں میں پتہ چلے گا ۔ بلدیاتی قانون میں ترمیم نہ ہوئی تو اس سے نہ صرف یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان نہ صرف اس وقت مفاہمت موجود ہے بلکہ آئندہ بھی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد برقرار رہنے کے واضح امکانات ہیں ۔
سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان نے اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کی درخواست دے دی ہے ۔ ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 51 ہے ۔ قبل ازیں مسلم لیگ (فنکشنل) نے اپنی خاتون رکن نصرت سحر عباسی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کیلئے درخواست دی ہوئی تھی ۔ اسپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت اس رکن کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا جائے گا، جسے اکثریتی اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل ہوگی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (فنکشنل) کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ملنے کا امکان ختم ہوگیا ہے ۔ اس طرح 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت نئی نگراں حکومت کے قیام میں مسلم لیگ (فنکشنل) کا کردار ختم ہوگیا ہے اور اب اس سے مشاورت نہیں کی جائے گی ۔ اپوزیشن لیڈر ایم کیو ایم کا ہوگا ۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر نگراںحکومت کے لئے ناموں کو حتمی شکل دیں گی ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف دیگر اتحادی جماعتوں نے ایسی نگراں حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے لیکن اسے آئینی اور قانونی طور پر مسترد کرنے کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اس طرح یوں محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں نگراں حکومت اپنی تشکیل سے پہلے ہی متنازع بن سکتی ہے۔
اب تیسرا سوال یہ ہے کہ سندھ میں آئندہ سیاسی اتحاد کس طرح بنیں گے اور ایم کیو ایم مستقبل میں کس کیمپ میں جائے گی۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت نے سب سے پہلا رابطہ مسلم لیگ (فنکشنل) کی قیادت سے کیا اور اپوزیشن لیڈر کے لیے اس کی حمایت طلب کی لیکن مسلم لیگ (فنکشنل) نے ایم کیو ایم کی حمایت نہیں کی ۔ فنکشنل مسلم لیگ کے رہنما جام مدد علی نے کہا کہ فنکشنل لیگ زیادہ دن سے اپوزیشن میں ہے اس لیے اپوزیشن لیڈر ان کا حق ہے لیکن جام مدد نے یہ نہیں بتایا کہ فنکشنل مسلم لیگ بھی ساڑھے چار سال پیپلز پارٹی کی حکومت کی حلیف رہی اور مختلف وزراتوں اور مشیروں کے عہدے لینے کے ساتھ ساتھ مختلف اہم محکموں کے مزے بھی لوٹتی رہی ۔
مسلم لیگ (فنکشنل) کی قیادت کو بھی پتہ ہے کہ اب اس کا سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکتا لیکن اس نے ایم کیو ایم کی حمایت سے بھی احتراز کیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے مسلم لیگ (فنکشنل) کی قیادت کے ساتھ رابطوں میں تیزی آگئی ہے اور یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ مسلم لیگ (فنکشنل) کو سندھ کی نگراں حکومت میں اہم قلمدان دیئے جاسکتے ہیں ۔ کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ گورنر سندھ فنکشنل لیگ کا ہوسکتا ہے لیکن پیر پگارا کے لئے کسی بھی پیشکش کو قبول کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک پیپلز پارٹی نئے بلدیاتی قانون میں ترامیم نہیں کرتی ۔ سندھ اسمبلی کا رواں اجلاس آخری اجلاس ہے۔ اگر اس میں بلدیاتی قانون میں ترامیم نہ ہوئیں تو پھر یہ واضح ہوجائے گا کہ سیاسی صف بندی میں کوئی بڑی تبدیلیاں نہیں ہوں گی ۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی فنکشنل مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سندھ میں عام ووٹر کنفیوژ ہوگیا ہے اور یہ بات عوامی رائے بنتی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے اتحاد اگر سندھ میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو پھر فنکشنل مسلم لیگ اور اس کے تمام اتحادی جنرل مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کے اتحادی رہے مل جل کر پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹے ، بلدیاتی نظام میں بھی ساتھ رہے اور موجودہ حکومت کے ساڑھے چار سال بھی ساتھ رہے لیکن اچانک نفرت کی باتیں کیوں شروع ہوگئیں ؟ ان سوالات کے جوابات آئندہ چند روز میں واضح ہوں گے، ایم کیو ایم کے اعلان کے مطابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے استعفیٰ کی صورت میں گتھی سلجھ جائے گی ۔