فلاح انسانیت کا اسلامی تصور
خدمت کی بہت سی صورتیں وہ ہیں جن کے لیے آپ کو صرف فنی مہارت استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی
ISLAMABAD:
انسانیت کو اس کائنات کا تاجدار بنایا گیا ہے، دنیا کی ہر چیز اس کی خدمت میں مصروف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے اس نے سمندر کی گہرائیوں اور فضا کی بلندیوں کو فتح کرلیا ہے۔ لیکن وہ جس قدر عظیم ہے اسی قدر محتاج و ضرورت مند بھی ہے، اسے ہر کام میں اپنے جیسے انسانوں کی ضرورت پیش آتی ہے، گیہوں کی دو روٹیاں، چند گز کپڑے اور سر چھپانے کی جو جگہ بھی اسے میسر آئی ہے اس میں کتنے ہی لوگوں کی جدوجہد اور کاوش شامل ہوتی ہے۔ اسی لیے تو ہر مذہب میں خلق خدا کی خدمت کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔
اسلام میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کی بندگی اور کسی انسان کی مدد کو ایک درجے میں رکھا گیا ہے۔ اسی لیے اگر کوئی بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پائے تو ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھلانا مقرر کیا گیا ہے۔ گویا بھوکے کو کھانا کھلانا روزے جیسی عبادت میں شامل ہے۔
نماز اہم ترین عبادت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ روزے کے بارے میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔ حج کے بارے میں ارشاد ہے کہ جیسے اسلام پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اسی طرح حج بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ لیکن بہتر انسان کے مصداق کون شخص ہے؟ اس کے بارے میں حضورؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سب سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہو، جو زیادہ روزے رکھتا ہو، جس نے متعدد حج کیے ہوں بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ گویا انسانی خدمت کو ترجیحی حیثیت دی ہے، اس کا نفع دوسروں تک پہنچتا ہے۔
قرآن نے اس امت کو خیر امت قرار دیا اور اس کا سبب یہی بتایا کہ یہ امت صرف اپنے نفع کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے نفع کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ انھیں اچھے کاموں کی طرف بلائے اور برے کاموں سے بچائے۔ اسی طرح آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔
رسول کریمؐ کی زندگی اس کا بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے اس گراں بار ذمے داری کی وجہ سے کچھ گھبراہٹ محسوس کی، گھر تشریف لائے تو غم گسار شریک حیات ام المومنین سیدہ خدیجہؓ نے کیفیت سن کر آپؐ کو تسلی دی اور اس موقع پر آپؐ کی پانچ خصوصی صفات کا ذکر فرمایا، ایک یہ کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور رشتوں کا لحاظ کرتے ہیں، دوسرے آپ محتاج و نادار لوگوں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ہیں، تیسرے آپ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، چوتھے آپ مہمان نوازی کرتے ہیں، پانچواں کہیں پر کوئی مصیبت آجائے اور یہ مصیبت اس کی غلطی کا نتیجہ نہ ہو تو اس کی مدد فرماتے ہیں۔
غور کیجیے کہ یہ پانچوں اوصاف خدمت خلق کے نمونے ہیں۔ اس میں حسن سلوک بھی ہے، بدنی تعاون بھی ہے اور مالی اعانت بھی۔ اگر حضرت خدیجہؓ کے اس ارشاد کی روشنی میں سیرت نبویؐ کا مطالعہ کیا جائے تو پوری حیات نبوی خدمت خلق کا ماڈل نظر آتی ہے۔
جب ہم خدمت خلق کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے صرف مسلمانوں کی یا انسانوں کی خدمت ہی مراد نہیں ہوتی بلکہ پوری خلق خدا کی عبادت اس میں شامل ہے۔ اسلام میں خدمت کا نہایت وسیع تصور ہے۔
رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا اور سخت پیاسا تھا، وہ ایک کنوئیں میں اترا اور پانی پی کر باہر آیا، اس نے باہر دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے بے قرار ہے چنانچہ پھر دوبارہ کنوئیں میں واپس آگیا اپنے موزوں میں پانی بھر کر واپس لایا اور کتے کو پلایا۔ اسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ گویا انسان تو انسان اللہ کی کسی بھی مخلوق کی خدمت انسان کے لیے پروانہ نجات بن سکتی ہے۔ اسی کا اثر تھا کہ مسلمانوں میں مختلف ضرورتوں کے لیے اوقاف قائم کرنے کا مزاج پیدا ہوا۔
علما، مسافروں، بیواؤں کی عیادت اور تیمار داری کرنے والوں کی بھی، اسی طرح چراگاہیں وقف کی گئیں، پرندوں کی خوراک کے لیے خصوصی باغ وقف کیے گئے اور پینے کے پانی وغیرہ کے لیے مسلمانوں نے جو خدمات انجام دیں اس کی تو مستقل تاریخ ہے، کیونکہ رسول اللہؐ کا اسوہ ان کے سامنے تھا، ان کے ذہن میں حضورؐ کا ارشاد تھا کہ ''جو خود آسودہ ہو کر سوئے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔''
انھیں اپنے نبی کی یہ بات یاد تھی کہ اگر تمہارے لگائے ہوئے درخت سے پرندہ کھا لے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ ان کے سامنے حضورؐ کی یہ تلقین تھی کہ جب تم سفر کرو اور کوئی ہرا بھرا علاقہ آجائے تو جانور کو چرنے کا موقع دو۔ یہ حقیقت بھی ان کے سامنے تھی کہ جب کوئی انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس سے عمل کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسی علمی خدمت چھوڑ کر جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ کوئی صدقہ جاریہ چھوڑ کر جائے جس کا نفع جمع ہو یا اس کے پیچھے اس کی صالح اولاد ہو جو اس کے حق میں دعاگو رہتی ہو۔
خدمت خلق کے تمام کام ایسے نہیں جن میں پیسوں ہی کی ضرورت ہو، کبھی زبان کے دو بول سے بھی خدمت خلق ہوسکتی ہے، کبھی فنی مہارت کے ذریعے بھی خدا کی کوئی خدمت کی جاسکتی ہے، کبھی معمولی محنت کے ذریعے مخلوق کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے، کبھی معمولی مدد کے ذریعے اللہ کے بندوں تک نفع رسائی ہوسکتی ہے۔
اگر انسان چاہے اور اس کو گنجائش میسر ہو تو نسبتاً زیادہ پیسے خرچ کرکے صدقہ جاریہ کا کوئی کام انجام دے سکتا ہے۔ کوئی ایسا طالب علم جو تعلیم سے ہمت ہار چکا ہو، اس کا حوصلہ بڑھائیں، کسی مریض کو محبت کے دو جملے کہہ دیں، کسی شخص کو اچھے کام پر مبارکباد دیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں، تو ان صورتوں میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوگا، لیکن ہوسکتا ہے کہ آپ کا یہ عمل اس کے روشن مستقبل کی ضمانت بن جائے۔ یہ بھی خدمت خلق کی ایک صورت ہے۔
اسی طرح بعض اوقات آپ کی معمولی کوشش سے کسی نوجوان کو روزگار حاصل ہوسکتا ہے، کسی طالب علم کو داخلہ مل سکتا ہے، کسی بیمار کا مفت یا کم خرچ پر علاج ہوسکتا ہے، کسی لڑکی یا لڑکے کے لیے مناسب رشتہ فراہم ہوسکتا ہے، نیز کسی خاندان کا اختلاف آپ کی تھوڑی سی کوشش کے ذریعے دور ہوسکتا ہے۔ یہ سب خدمت خلق ہی کی اشکال ہیں۔
خدمت کی بہت سی صورتیں وہ ہیں جن کے لیے آپ کو صرف فنی مہارت استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی، مثلاً آپ ڈاکٹر ہیں تو طے کرلیں کہ روزانہ پانچ فیصد غریب مریضوں کو بغیر فیس کے دیکھیں گے یا ہفتے میں ایک دن ایسے مریضوں کو دیکھیں گے۔ اگر آپ وکیل ہیں تو ایک دن مفت قانونی مشورے کے لیے نکال لیجیے۔ آپ ٹیچر ہیں تو کچھ غریب بچوں کو ٹیوشن پڑھا دیجیے گا۔ آپ اپنے طور پر سڑک پر بہتے ہوئے نل کی مرمت کرسکتے ہیں، جس سے اللہ کے بہت سے بندوں کو راحت پہنچے گی۔
اسی طرح خدمت خلق کی بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں پیسوں کی ضرورت ہے نہ کسی مہارت کی، معمولی محنت اور حسن سلوک کے ذریعے آپ اسے انجام دے سکتے ہیں، جیسے آپ راستہ چلتے ہوئے وزنی سامان اٹھانے میں کسی کی مدد کر دیجیے، آپ ٹرین یا بس وغیرہ میں اپنے ساتھی مسافروں کا سامان چڑھانے اور اتارنے میں مددگار ہوجائیں۔ غرض کہ بہت سے میدان ہیں جن میں خدمت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔