ہمارے پاس اختیارات نہیں

اختیارات کی اس کشمکش میں سندھ حکومت یا شہری حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن خمیازہ صرف شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

بقرعید گزرنے کے کئی دن بعد بھی کراچی کے بیشتر علاقوں میں آلائشیں سڑرہی ہیں اور ان سے اٹھنے والا تعفن شہریوں کےلیے اذیت کا باعث بنا ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

عید الاضحیٰ کے بعد سے پر لطف دعوتوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ کہیں بار بی کیو تو کہیں بھنواں گوشت اور طرح طرح کے لذیذ اور چٹ پٹے کھانے۔ ابھی دو دن پہلے ہی دوست نے بار بی کیو پر مدعو کیا اور جب دوست کے گھر پہنچا تو اس کے علاقے کا منظر دیکھ کر ابکائی سی آنے لگی۔

دل چاہا کہ فوراً واپس بھاگ جاؤں کیونکہ ابلتے گٹر اور آلائشوں نے میرا استقبال کیا۔ چاروں طرف گٹر ابلنے کے باعث پانی جمع تھا جس میں سے لوگوں کا آنا جانا دشوار تھا۔ صفائی نہ ہونے کے باعث پورے علاقے میں عید کے بعد جمع ہونے والے کچرے اور آلائشوں نے علاقے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ابتر صورتحال دیکھنے کے بعد فوراً خیال آیا کہ بلدیہ عظمیٰ کے کسی نمائندے سے رابطہ کیا جائے لیکن پھر خیال آیا کہ بقول میئر وسیم اختر، ان کے پاس تو اختیارات ہی نہیں۔

گزشتہ کئی دنوں سے کراچی کی شہری حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت کے مابین جاری چپقلش نے شہر قائد کا حلیہ بگاڑ کر رکھا ہوا ہے۔ بقرعید کو گزرے ایک ہفتے سے زیادہ ہوچکا ہے لیکن آلائشیں اور گزشتہ دنوں بارش کے نتیجے میں جمع ہونے والے پانی کو نکالنے کےلیے کوئی انتظام نہیں کیا جاسکا۔ کراچی کے بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں اب بھی آلائشیں سڑرہی ہیں اور ان میں سے اٹھنے والا تعفن شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بنا ہوا ہے۔ اگر کسی کو یقین نہ ہو تو کورنگی ایکسپریس وے سے متصل محمود آباد کا پل دیکھ لے جہاں اب ابھی گائے کی سری پڑی ہوئی ہے لیکن انتظامیہ نہ جانے کہاں غائب ہے۔

عید الاضحیٰ سے چند دن پہلے ہونے والی بارش نے شہری انتظامیہ کی کارکردگی اور صوبائی حکومت کے انتظامات، دونوں کی قلعی ایک ساتھ کھول کر رکھ دی۔ عید سے پہلے ہونے والی اس بارش کے اثرات آج بھی کراچی کے بیشتر علاقوں میں نظر آئیں گے جہاں اب بھی پانی جمع ہے اور رہائشیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن مجال ہے جو میئر کراچی یا پھر وزیر بلدیات میں سے ایک کے بھی کان پر جوں رینگی ہو۔

نوبت ایں جا رسید کہ شہر میں بارش پر شہری حکومت نے فوج سے مدد طلب کرلی جب کہ وزیر بلدیات نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ بارش کا پانی نکالنے کی ضرورت نہیں، پانی خود بخود نکل جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو جناب وزیر بلدیات! آپ کو بھی وزیر بننے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی وزارت کے کام بھی خود بخود ہوجائیں گے۔

اختیارات کی جاری اس کشمکش میں نہ تو نقصان سندھ حکومت کا ہورہا ہے اور نہ ہی شہری حکومت کا لیکن اس کا خمیازہ صرف اور صرف شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ میئر کراچی کے پاس شاید اب ایک ہی جملہ رہ گیا ہے: ''ہمارے پاس اختیارات نہیں'' اور سندھ حکومت بھی اس کا لگا بندھا جواب ہی دے رہی ہے: ''معاملہ اختیارات کا نہیں، شہری حکومت کے پاس تمام اختیارات ہیں۔''

دونوں فریق یہ جملے ادا کرکے سمجھتے ہیں کہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہوگئے لیکن کراچی کو اختیارات کی اس جنگ نے جس عذاب میں جھونک دیا ہے، اس کا سدباب انتہائی ضروری ہے۔


ابھی چند ماہ قبل چیئرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض نے اعلان کیا تھا کہ وہ بغیر کسی سے پیسے لیے پورے شہر کی صفائی ستھرائی کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے درخواست تک کی کہ اور کہا کہ ہمیں بتایا جائے شہر میں کہاں کہاں صفائی کروانی ہے تاکہ ہماری ٹیمیں وہاں جاکر صفائی کرسکیں۔ تاہم انہیں صرف حکومت سندھ کے جواب کا انتظار ہے۔

یہی نہیں بلکہ چیئرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض کی جانب سے ضلع وسطی میں 18 روزہ صفائی مہم چلائی گئی اور بحریہ ٹاؤن کی جانب سے شہر کی صفائی ستھرائی کے لیے 10 ارب روپے تک کی معاونت فراہم کرنے کا کہا گیا۔ اس کام کےلیے باقاعدہ میئر کراچی کے ساتھ ''کلین کراچی'' معاہدے پر دستخط بھی ہوئے لیکن جب اپنوں ہی کو اپنا گھر صاف کرنے کی فکر نہیں تو پرائے کیوں اس میں حصہ ڈالیں گے۔

جب سے میئر کراچی نے عہدہ سنبھالا ہے، سوائے اختیارات کا رونا رونے کے شاید ہی کوئی اور کام کیا ہو۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد میئر کراچی وسیم اختر نے شہر کے 6 اضلاع میں 100 روزہ صفائی مہم کا آغاز کیا لیکن صفائی تو دور کی بات، کچرا بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ 100 روز میں شہر صاف کرنے کے بڑے بڑے دعوے ہوا میں ہی اڑگئے اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہی ملے۔

دوسری جانب شہر میں جاری ترقیاتی کاموں کے باعث سڑکوں کی ابتر صورتحال نے شہریوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ مانا کہ ترقیاتی کام بھی ضروری ہیں اور اس کے لیے تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن حکام بالا کے لیے ضروری ہے کہ ترقیاتی کام تک متبادل راستوں کا اعلان بھی کیا جائے تاکہ ٹریفک جام اور حادثات سے بچا جاسکے۔

شہر قائد کی تو ہر بات ہی نرالی ہے۔ یہاں الٹی گنگا بہتی ہے اور شہر میں جاری ترقیاتی کاموں پر بھی شہریوں کو مدتوں تک مصیبت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال کے طور پر کراچی بورڈ آفس سے اورنگی ٹاؤن 10 نمبر تک جانے والی سڑک کا حال دیکھ لیا جائے کہ جگہ جگہ گڑھوں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑک نے شہریوں کا جینا دو بھر کردیا ہے؛ اور یہ صورتحال گزشتہ ڈیڑھ سال سے ہے۔ یہ کسی ایک سڑک کی صورتحال نہیں بلکہ شہر میں ایسی بے شمار سڑکیں ہیں جہاں سے روزانہ ہزاروں لوگ گزرتے ہیں اور روز ان تمام مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

آخر ان تمام حالات کا ذمہ دار ہے کون؟ کیونکہ جب کراچی آپریشن کی بات ہو یا یہاں امن و امان اور معشیت کی بہتر صورتحال کا کریڈٹ لینا ہو تو ہر جماعت آگے ہوتی ہے لیکن مشکلات کے سد باب یا ان کی ذمہ داری لینے کےلیے کوئی آگے نہیں آتا۔ اس شہر کے باسیوں نے بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والوں اور وی وی آئی پی موومنٹ کے نام پر روڈ بند کرانے والوں کو اپنے مسائل حل کرنے کےلیے ووٹ دیئے ہیں نہ کہ اختیارات کا رونا رونے کے لیے۔

اور اگر اختیارات نہیں تو بہتر ہے کہ استعفیٰ دیکر گھر بیٹھا جائے کیونکہ صرف بیانات سے نہ تو اختیارات ملیں گے نہ ہی عوام کے مسائل اور مشکلات حل ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story