تاریخ ساز شخصیت
بابائے قوم آخری دَم تک ملک و ملت کی تعمیر میں مصروف عمل رہے
1948بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا۔ اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی اور تن دہی سے گزاری مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمل آرام کی ضرورت تھی نہایت ہنگامہ خیز سال تھے۔
قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائد اعظم نظر انداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے۔ اسی لیے آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین اور اس پر عملہ درآمد کو یقینی بنانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کرنا اور پھر ان کے تدارک کے لیے اقدامات، قومی معیشت کا فروغ و استحکام ، نظام تعلیم موثر بنانا، سرحدوں کا دفاع، آئین ساز اسمبلی، سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف ان کے فرائض سے آگاہ کرنا بلکہ ان کو یہ باور کرانا کہ قوم ان سے کیا توقعات رکھتی ہے۔ ان تمام امور سے قائد اعظم نے حتی المقدور عہدہ برا ہونے کی بھرپور کوشش کی۔
بہ قول پروفیسر شریف المجاہد تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے فوراً بعد ہی پیش آنے والے تباہ کن اور ہول ناک بحرانوں میں بھی محض اس لیے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائد اعظم امور مملکت کے نگران تھے۔
پاکستان کے عوام کو ان پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے جو زبردست عقیدت و محبت تھی، قائد اعظم نے اسی کو بروئے کار لاکر اپنی قوم کو درپیش مشکلات و مصائب سے نمٹنے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔ آزادی نے عوام کے سینوں میں حب الوطنی کے جن جذبات کو بھڑکایا تھا ان کی حرارت اور توانائی کا رُخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔
1948 میں 25 مئی کو آپ ڈاکٹروں کے مشورے پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیات کا سلسلہ جاری رہا۔ 29 جون کو آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے اور پھر کام میں لگ گئے، نتیجتاً صحت مزید گرگئی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر 7جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے مگر آپ کی علالت اتنی سنگین صورت اختیار کرگئی کہ ڈاکٹروں نے فوری طور پر زیارت منتقل کردیا جو کوئٹہ کے مقابلے میں نسبتاً سرد مقام ہے۔
زیارت میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی اور آپ اکثر و بیش تر اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اور اپنے عملے کے ارکان سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔ ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے، جو اس وقت قائد اعظم کے معالج تھے، اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے: ''جب میں 17جولائی کو قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مسہری پر دراز تھے۔ جسم نحیف اور کم زور لیکن چہرہ باوقار اور پر جلال، آنکھوں میں بلا کی چمک اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ۔ وہ بہت کم زور ہوگئے تھے، رخسار کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں اور گال اندر کی طرف دھنس گئے تھے۔ بیماری کی وجہ سے رنگ اور زیادہ نکھر آیا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔
ایک شاعر یا فلسفی کی طرح چہرے کی جھریاں ان کے گہرے مطالعے اور تدبر کی باریکیوں کو نمایاں کررہی تھیں۔ بیماری کے باوجود وہ روزانہ صبح شیو بنواتے اور صبح ساڑھے چھے بجے چائے پیتے۔ ہم نے اصرار کیا کہ اگر آپ سو رہے ہوں تو بہتر ہے کہ آپ کو نہ اٹھایا جائے کیوں کہ آپ کے لیے آرام اور نیند اشد ضروری ہے۔ قائد اعظم جواباً مسکرادیے اور فرمانے لگے ''صحت کے لیے زندگی بھر کے اصول ترک نہیں کیے جاسکتے۔''
زیارت میں قائد اعظم کے قیام اور بیماری کے بارے میں آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ''مائی برادر'' میں خاصی تفصیلات درج کی ہیں جو بہت اہم اور معلومات افزا ہیں۔ زیارت میں محترمہ فاطمہ جناح پورے انہماک سے قائد اعظم کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔
قیام پاکستان کی پہلی سال گرہ قریب تھی لیکن قائد اعظم اپنی علالت کے سبب سال گرہ کی تقریبات میں شرکت سے معذور تھے۔ اس موقعے پر آپ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا ''پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ دنیا کی ایک عظیم ترین مسلمان ریاست ہے۔ اس کو سال بہ سال ایک نمایاں کردار ادا کرنا ہے اور ہم جیسے آگے بڑھتے جائیں گے ہمیں ایمان داری ، مستعدی اور بے غرضی کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا ہوگی۔''
زیارت میں قیام کے دوران قائد اعظم کا بلڈ پریشر خاصا گرگیا اور پیروں پر ورم آگیا تھا، چناں چہ آپ کو ڈاکٹروں کے مشورہ پر زیارت سے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔ قائد اعظم کے ایک اور معالج کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب "With The Quaid-i-Azam During His Last Days" میں لکھا: '' پانچ ہفتہ کی تسلی بخش صحت کے بعد 3 ستمبر کو آپ کی حرارت بڑھ گئی۔ حرارت کا یوں اچانک بڑھ جانا بہت تشویش ناک تھا چنانچہ ہم نے بڑی احتیاط سے ان کا معائنہ کیا لیکن پھر بھی بخار کا سبب دریافت نہ کرسکے۔''
9ستمبر کو کرنل الٰہی بخش نے معائنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا مگر محترمہ فاطمہ جناح نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور برابر طبیعت کی بحالی کی آرزو مند رہیں۔ 10ستمبر کو ڈاکٹروں کے مشورہ پر محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو کراچی لے جانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ چناں چہ 11ستمبر کو آپ کا طیارہ سوا چار بجے ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔ قائد اعظم کو ایک اسٹریچر پر لٹا کر بذریعہ ایمبولینس گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا۔ رات تقریباً ساڑھے نو بجے آپ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ چند منٹ کے بعد کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر مستری گورنر جنرل ہاؤس پہنچ گئے۔ اس وقت قائد اعظم پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبض کی رفتار بھی غیر مسلسل تھی۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد انجکشن لگایا مگر حالت بگڑتی چلی گئی۔ دس بج کر 25منٹ پر فخر قوم، بطل جلیل، اسلامیان پاکستان کا ناخدا، عزم و استقلال، فراست اور ذہانت کا پیکر ہمیشہ کے لیے اﷲ کی رحمت میں پہنچ گیا۔
قائد اعظم بلا شبہہ ہندوستان کی جدید تاریخ کے معمار تھے۔ ایک تاریخ ساز شخصیت ۔ ایک ایسی شخصیت جس کی عصر حاضر میں کوئی اور دوسری مثال نہیں ملتی۔ بقول سرجنی نائیڈو جناح عصر حاضر کی سب سے سربر آوردہ اور جاذب نظر شخصیت تھے۔ قائد اعظم کے انتقال کو نصف صدی سے زاید عرصہ ہو چکا ہے مگر آج بھی ان کی شخصیت اپنے سیاسی کردار کے آئینے میں سماجی علوم کے ماہرین کے لیے ایک اہم ترین شخصیت ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی تفہیم کے بغیر ہندوستان کی جدید تاریخ کا ابلاغ یقیناً ناممکن ہے۔
قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائد اعظم نظر انداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے۔ اسی لیے آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین اور اس پر عملہ درآمد کو یقینی بنانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کرنا اور پھر ان کے تدارک کے لیے اقدامات، قومی معیشت کا فروغ و استحکام ، نظام تعلیم موثر بنانا، سرحدوں کا دفاع، آئین ساز اسمبلی، سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف ان کے فرائض سے آگاہ کرنا بلکہ ان کو یہ باور کرانا کہ قوم ان سے کیا توقعات رکھتی ہے۔ ان تمام امور سے قائد اعظم نے حتی المقدور عہدہ برا ہونے کی بھرپور کوشش کی۔
بہ قول پروفیسر شریف المجاہد تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے فوراً بعد ہی پیش آنے والے تباہ کن اور ہول ناک بحرانوں میں بھی محض اس لیے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائد اعظم امور مملکت کے نگران تھے۔
پاکستان کے عوام کو ان پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے جو زبردست عقیدت و محبت تھی، قائد اعظم نے اسی کو بروئے کار لاکر اپنی قوم کو درپیش مشکلات و مصائب سے نمٹنے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔ آزادی نے عوام کے سینوں میں حب الوطنی کے جن جذبات کو بھڑکایا تھا ان کی حرارت اور توانائی کا رُخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔
1948 میں 25 مئی کو آپ ڈاکٹروں کے مشورے پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیات کا سلسلہ جاری رہا۔ 29 جون کو آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے اور پھر کام میں لگ گئے، نتیجتاً صحت مزید گرگئی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر 7جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے مگر آپ کی علالت اتنی سنگین صورت اختیار کرگئی کہ ڈاکٹروں نے فوری طور پر زیارت منتقل کردیا جو کوئٹہ کے مقابلے میں نسبتاً سرد مقام ہے۔
زیارت میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی اور آپ اکثر و بیش تر اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اور اپنے عملے کے ارکان سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔ ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے، جو اس وقت قائد اعظم کے معالج تھے، اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے: ''جب میں 17جولائی کو قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مسہری پر دراز تھے۔ جسم نحیف اور کم زور لیکن چہرہ باوقار اور پر جلال، آنکھوں میں بلا کی چمک اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ۔ وہ بہت کم زور ہوگئے تھے، رخسار کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں اور گال اندر کی طرف دھنس گئے تھے۔ بیماری کی وجہ سے رنگ اور زیادہ نکھر آیا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔
ایک شاعر یا فلسفی کی طرح چہرے کی جھریاں ان کے گہرے مطالعے اور تدبر کی باریکیوں کو نمایاں کررہی تھیں۔ بیماری کے باوجود وہ روزانہ صبح شیو بنواتے اور صبح ساڑھے چھے بجے چائے پیتے۔ ہم نے اصرار کیا کہ اگر آپ سو رہے ہوں تو بہتر ہے کہ آپ کو نہ اٹھایا جائے کیوں کہ آپ کے لیے آرام اور نیند اشد ضروری ہے۔ قائد اعظم جواباً مسکرادیے اور فرمانے لگے ''صحت کے لیے زندگی بھر کے اصول ترک نہیں کیے جاسکتے۔''
زیارت میں قائد اعظم کے قیام اور بیماری کے بارے میں آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ''مائی برادر'' میں خاصی تفصیلات درج کی ہیں جو بہت اہم اور معلومات افزا ہیں۔ زیارت میں محترمہ فاطمہ جناح پورے انہماک سے قائد اعظم کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔
قیام پاکستان کی پہلی سال گرہ قریب تھی لیکن قائد اعظم اپنی علالت کے سبب سال گرہ کی تقریبات میں شرکت سے معذور تھے۔ اس موقعے پر آپ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا ''پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ دنیا کی ایک عظیم ترین مسلمان ریاست ہے۔ اس کو سال بہ سال ایک نمایاں کردار ادا کرنا ہے اور ہم جیسے آگے بڑھتے جائیں گے ہمیں ایمان داری ، مستعدی اور بے غرضی کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا ہوگی۔''
زیارت میں قیام کے دوران قائد اعظم کا بلڈ پریشر خاصا گرگیا اور پیروں پر ورم آگیا تھا، چناں چہ آپ کو ڈاکٹروں کے مشورہ پر زیارت سے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔ قائد اعظم کے ایک اور معالج کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب "With The Quaid-i-Azam During His Last Days" میں لکھا: '' پانچ ہفتہ کی تسلی بخش صحت کے بعد 3 ستمبر کو آپ کی حرارت بڑھ گئی۔ حرارت کا یوں اچانک بڑھ جانا بہت تشویش ناک تھا چنانچہ ہم نے بڑی احتیاط سے ان کا معائنہ کیا لیکن پھر بھی بخار کا سبب دریافت نہ کرسکے۔''
9ستمبر کو کرنل الٰہی بخش نے معائنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا مگر محترمہ فاطمہ جناح نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور برابر طبیعت کی بحالی کی آرزو مند رہیں۔ 10ستمبر کو ڈاکٹروں کے مشورہ پر محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو کراچی لے جانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ چناں چہ 11ستمبر کو آپ کا طیارہ سوا چار بجے ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔ قائد اعظم کو ایک اسٹریچر پر لٹا کر بذریعہ ایمبولینس گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا۔ رات تقریباً ساڑھے نو بجے آپ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ چند منٹ کے بعد کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر مستری گورنر جنرل ہاؤس پہنچ گئے۔ اس وقت قائد اعظم پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبض کی رفتار بھی غیر مسلسل تھی۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد انجکشن لگایا مگر حالت بگڑتی چلی گئی۔ دس بج کر 25منٹ پر فخر قوم، بطل جلیل، اسلامیان پاکستان کا ناخدا، عزم و استقلال، فراست اور ذہانت کا پیکر ہمیشہ کے لیے اﷲ کی رحمت میں پہنچ گیا۔
قائد اعظم بلا شبہہ ہندوستان کی جدید تاریخ کے معمار تھے۔ ایک تاریخ ساز شخصیت ۔ ایک ایسی شخصیت جس کی عصر حاضر میں کوئی اور دوسری مثال نہیں ملتی۔ بقول سرجنی نائیڈو جناح عصر حاضر کی سب سے سربر آوردہ اور جاذب نظر شخصیت تھے۔ قائد اعظم کے انتقال کو نصف صدی سے زاید عرصہ ہو چکا ہے مگر آج بھی ان کی شخصیت اپنے سیاسی کردار کے آئینے میں سماجی علوم کے ماہرین کے لیے ایک اہم ترین شخصیت ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی تفہیم کے بغیر ہندوستان کی جدید تاریخ کا ابلاغ یقیناً ناممکن ہے۔