فیصلے کسی کو خوش یا حساب برابر کرنے کیلیے نہیں دیتے چیف جسٹس
تمام اداروں کو اپنی ذمے داریاں آئین کے تحت ادا کرنا چاہئیں، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم فیصلے کسی کو خوش کرنے یا حساب برابر کرنے کیلیے نہیں دیتے بلکہ انصاف کرنے کیلیے دیتے ہیں۔
نئے عدالتی سال کے آغاز پر سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے خطاب میں جمہوریت کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ہم سب پر لازم ہے کہ جمہوریت کا تحفظ کریں، کیونکہ جمہوریت مسلمہ طور پر ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، جب بھی کوئی اتھارٹی یا ریاست کا عہدیدار آئین وقانون کی خلاف ورزی کرے گا تو عدلیہ کو اس پر عدالتی جائزے کا اختیار حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی انتہائی قابلیت اور فہم و فراست کے ساتھ عوام اور آئین کی خدمت کرتے ہیں، ہم نہ تو کسی کو خوش کرنے اور نہ حساب برابر کرنے کیلیے فیصلے دیتے ہیں، ہمارا مقصد صرف انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عدالیہ کی آزادی کیلیے ضرروی ہے کہ جج ہر قسم کے اثر و رسوخ سے آزاد ہوں، وہ نہ تو انتظامی اثر لے اور نہ ہی ایسے افراد اور اتھارٹیز کا اثر لے جن کے ہاتھوں میں اختیار اور طاقت ہو۔ آئین و قانون کی خلاف ورزی مطلق العنانیت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے جس سے بری حکمرانی اور ناانصافی پیدا ہوتی ہے اور نا انصافی شہریوں کی بنیادی حقوق سے انکار کا موجب بنتی ہے جس سے پورے معاشرے میں افرا تفری پھیل جاتی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر از خود نوٹس لیے گئے، گزشتہ ایک سال کے دوران انسانی حقوق سیل کے ذریعے29 ہزار 657 شکایات کو نمٹایا گیا، ججز نے چھٹیوں کا بیشتر وقت بھی کام میں گزارا، چھٹیاں قربان کرنے کے باوجود زیرالتوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا، 31 اگست2016کو زیر التوا مقدمات کی تعداد30 ہزار871 تھی، ایک سال کے دوران 13 ہزار 667 مقدمات نمٹائے گئے لیکن اس دوران لاہور رجسٹری میں5 ہزار611، کراچی میں ایک ہزار292، پشاور رجسٹری میں595 جبکہ کوئٹہ میں 518 نئے مقدمات دائر ہوئے،31 اگست2017 تک زیرالتوا مقدمات کی تعداد36 ہزار 692 ہوگئی ہے۔
اپنے خطاب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی نے کہا کہ آزادی کے 70 سال بعد بھی ہم بدقسمتی سے کرپشن، مذہبی انتہا پسندی، مذہبی منافرت سے لڑنے کے ریاستی انکار سے نبرد آزما ہیں، اقلیتوں سے یکساں سلوک، ریاست کی جانبداری، عوام کو سماجی اور معاشی انصاف کی عدم فراہمی کا سامنا ہے جبکہ ابھی تک ہماری افواج اپنے حلف کے اصل مفہوم اور سویلین بالادستی کے آئینی اصول کو سمجھنے میں مسلسل ناکام ہیں۔
پاناما کیس کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے رشید رضوی نے کہا عمران خان بنام نواز شریف و دیگر کیسز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو غیر صادق اور غیر امین قرار دیکر نااہل کیا گیا، اس ضمن میں ابھی نظر ثانی درخواست کا فیصلہ ہونا باقی ہے تاہم اس ضمن میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں بحث جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کی عظمت منتخب نمائندے کے کنڈکٹ اور عزت سے مشروط ہے، پاناما کیس کی تحقیقاتی جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے ممبران کی شمولیت نے بھی معاملہ متنازع کیا ہے۔
رشید رضوی نے اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری ایجنسیز کو سیاسی کیسز میں شامل کرنے سے نہ صرف ملٹری فورسز بلکہ عدالت پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں، بار یہ یقین نہیں رکھتی کہ موجودہ حکومت کے خلاف صرف پاک فوج کے افسران ہی آزاد اور ایماندارانہ تحقیقات کرسکتے ہیں، بار سویلین بالادستی کے جمہوری او آئینی نظریہ کیلیے پر عزم ہے۔
نئے عدالتی سال کے آغاز پر سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے خطاب میں جمہوریت کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ہم سب پر لازم ہے کہ جمہوریت کا تحفظ کریں، کیونکہ جمہوریت مسلمہ طور پر ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، جب بھی کوئی اتھارٹی یا ریاست کا عہدیدار آئین وقانون کی خلاف ورزی کرے گا تو عدلیہ کو اس پر عدالتی جائزے کا اختیار حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی انتہائی قابلیت اور فہم و فراست کے ساتھ عوام اور آئین کی خدمت کرتے ہیں، ہم نہ تو کسی کو خوش کرنے اور نہ حساب برابر کرنے کیلیے فیصلے دیتے ہیں، ہمارا مقصد صرف انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عدالیہ کی آزادی کیلیے ضرروی ہے کہ جج ہر قسم کے اثر و رسوخ سے آزاد ہوں، وہ نہ تو انتظامی اثر لے اور نہ ہی ایسے افراد اور اتھارٹیز کا اثر لے جن کے ہاتھوں میں اختیار اور طاقت ہو۔ آئین و قانون کی خلاف ورزی مطلق العنانیت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے جس سے بری حکمرانی اور ناانصافی پیدا ہوتی ہے اور نا انصافی شہریوں کی بنیادی حقوق سے انکار کا موجب بنتی ہے جس سے پورے معاشرے میں افرا تفری پھیل جاتی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر از خود نوٹس لیے گئے، گزشتہ ایک سال کے دوران انسانی حقوق سیل کے ذریعے29 ہزار 657 شکایات کو نمٹایا گیا، ججز نے چھٹیوں کا بیشتر وقت بھی کام میں گزارا، چھٹیاں قربان کرنے کے باوجود زیرالتوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا، 31 اگست2016کو زیر التوا مقدمات کی تعداد30 ہزار871 تھی، ایک سال کے دوران 13 ہزار 667 مقدمات نمٹائے گئے لیکن اس دوران لاہور رجسٹری میں5 ہزار611، کراچی میں ایک ہزار292، پشاور رجسٹری میں595 جبکہ کوئٹہ میں 518 نئے مقدمات دائر ہوئے،31 اگست2017 تک زیرالتوا مقدمات کی تعداد36 ہزار 692 ہوگئی ہے۔
اپنے خطاب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی نے کہا کہ آزادی کے 70 سال بعد بھی ہم بدقسمتی سے کرپشن، مذہبی انتہا پسندی، مذہبی منافرت سے لڑنے کے ریاستی انکار سے نبرد آزما ہیں، اقلیتوں سے یکساں سلوک، ریاست کی جانبداری، عوام کو سماجی اور معاشی انصاف کی عدم فراہمی کا سامنا ہے جبکہ ابھی تک ہماری افواج اپنے حلف کے اصل مفہوم اور سویلین بالادستی کے آئینی اصول کو سمجھنے میں مسلسل ناکام ہیں۔
پاناما کیس کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے رشید رضوی نے کہا عمران خان بنام نواز شریف و دیگر کیسز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو غیر صادق اور غیر امین قرار دیکر نااہل کیا گیا، اس ضمن میں ابھی نظر ثانی درخواست کا فیصلہ ہونا باقی ہے تاہم اس ضمن میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں بحث جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کی عظمت منتخب نمائندے کے کنڈکٹ اور عزت سے مشروط ہے، پاناما کیس کی تحقیقاتی جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے ممبران کی شمولیت نے بھی معاملہ متنازع کیا ہے۔
رشید رضوی نے اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری ایجنسیز کو سیاسی کیسز میں شامل کرنے سے نہ صرف ملٹری فورسز بلکہ عدالت پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں، بار یہ یقین نہیں رکھتی کہ موجودہ حکومت کے خلاف صرف پاک فوج کے افسران ہی آزاد اور ایماندارانہ تحقیقات کرسکتے ہیں، بار سویلین بالادستی کے جمہوری او آئینی نظریہ کیلیے پر عزم ہے۔