امن کیسے ہو

بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت میں حقائق سامنے آئے کہ سیاسی کارکنوں کے اغوااورمسخ شدہ لاشوں میں سرکاری ادارے ملوث ہیں۔

tauceeph@gmail.com

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پھر بم دھماکا ہوگیا۔ مرنے والے افراد کی تعداد ماضی کے دھماکے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوگئی۔ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد بھی دہشت گردی نہ رک سکی مگر اب بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار مگسی نے اپنی انتظامیہ کی ناکامی کا اقرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں بے گناہ افراد کی ہلاکت سے ان کا دل رو رہا ہے۔ اس سے بلوچستان کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اسی طرح گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں عوامی نیشنل پارٹی کے تحت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں طے ہوا کہ امن کے لیے طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ اے پی سی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین اور قوانین کے تابع امن کے لیے مذاکرات ضروری ہیں۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے کوئٹہ کے دھماکے پر کہا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ طالبان اس دھماکے میں ملوث نہ ہوں، کسی تیسرے فریق نے اپنے مخصوص مفاد کے لیے یہ دھماکا کرایا ہو۔ گزشتہ پانچ برسوں سے اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں میں بتایا جاتا رہا ہے کہ سر گرم عمل کالعدم تنظیم کا ایک حصہ ہزارہ برادری کی نسل کشی کررہا ہے۔عملاً ہزارہ برادری کو سب مار رہے ہیں۔

یہ بھی اطلاعات ہیں ہزارہ برادری سے ان کی قیمتی جائیدادیں سستے داموں ہتھیانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ہزارہ برادری کے لوگ اپنی املاک سستے داموں فروخت کرکے اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے ٹھکانے کوئٹہ کے مضافاتی پہاڑیوں اور مستونگ کے علاقے میں قائم ہیں۔ مستونگ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا علاقہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان گزشتہ پانچ برسوں سے مختلف ایجنسیوں کے ذریعے کنٹرول ہوتا رہا ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے بار بار یہ الزام لگایا تھا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار صرف کوئٹہ تک محدود ہے۔

بلوچستان کے باقی علاقے فرنٹیئر کانسٹیبلری کنٹرول کرتی ہے۔ بلوچ قوم پرستوں کی تحریک نے زور پکڑا اور سیاسی کارکن لاپتہ ہونے لگے تو یہ الزام لگایا گیا کہ ایف سی سیاسی کارکنوں کو اغوا کرنے میں ملوث ہے۔ جب سپریم کورٹ نے بلوچستان میں ازخود بدامنی کیس کی سماعت کی تو یہ حقائق سامنے آئے کہ سیاسی کارکنوں کے اغوا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں میں سرکاری ادارے ملوث ہیں۔ لہٰذا انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اس کا نوٹس لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایف سی کے بلوچستان سے نکالنے کا مطالبہ میڈیا کا موضوع بن گیا مگر دوسری طرف کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی۔ ہر ہفتے خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزارہ برادری کی نسل کشی پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے توجہ نہیں دی بلکہ بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا رہا کہ یہ صوبائی حکومت کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹروں، اقلیتی فرقوں کے افراد اور وکیلوں کے اغوا برائے تاوان کا ایک خوفناک سلسلہ شروع ہوا۔


یہ محسوس ہونے لگا کہ بلوچستان میں ریاست ختم ہوچکی ہے۔ یوں ہر طرف انارکی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ ماہ ہزارہ برادری نے بلوچستان کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ جب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف جنوری کی ایک سرد رات میں ہزارہ برادری سے مذاکرات کے لیے گئے اور برادری کے عمائدین سے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے مطالبے پر بات چیت کی اور دھرنا دینے والے سوگواروں سے لاشوں کی تدفین کے لیے کہا تو ہزارہ براداری کے ایک رہنما نے ٹی وی چینلز کے سامنے بلوچستان کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے سے دستبردار ہونے سے انکار کیا۔ یوں اب پھر اس سانحے کے بعد یہ مطالبہ پیش کیا جائے گا۔

جب ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد امریکا اور اتحادی فوجوں نے طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کی اور جنرل پرویز مشرف اس جنگ میں شریک ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پرانی پالیسی کو برقرار رکھا۔ ملا عمر سمیت کئی دیگر طالبان رہنماؤں کو کوئٹہ اور اطراف کے علاقوں میں پناہ دی گئی۔ نیٹو کے کمانڈر کابل میں اور امریکی سفیر کوئٹہ اور اطراف کے علاقوں میں طالبان کی Safe Haven ہونے کا الزام لگاتے رہے۔ اس طرح مقامی انتہاپسند گروہ طالبان کے اس نیٹ ورک سے منسلک ہوگئے اور پولیس انتظامیہ اور سویلین انٹیلی جنس نیٹ ورکس ان معاملات سے لاتعلق ہوگئے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد جب بلوچ قوم پرستوں میں بغاوت بڑھی، قوم پرستوں کے ایک انتہاپسند گروہ نے گوریلا جنگ کو نجات کا راستہ سمجھا تو پھر اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کے باقی علاقوں کا نظام بھی سنبھال لیا۔ مختلف ایجنسیوں کے متضاد مفادات نے صوبے کو خوفناک تباہی کا شکار کردیا۔

جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے بلوچستان میں حالات معمول پر لانے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروںکو پہنچ گئے، یوں ڈیرہ بگٹی میں بھی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی۔ مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی یہ کوشش بھی زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ بلوچستان میں دوسرے صوبوں سے آنے والے افراد قتل ہونے لگے اور دوسری طرف سیاسی کارکنوں کی لاشیں ملنے اور فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رک نہ سکا۔ یوں حکومت کی ناکامی پر کوئی بحث نہیں رہی۔ جب گزشتہ ماہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ کیا گیا تو ایف سی کو پولیس کے اختیارات دیے گئے۔ ایف سی نے دو پولیس افسروں کو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مافیا کے کارندوں کو عیاں کیا، مگر باقی نظام بدستور رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری کے مہینے میں دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں رک گئیں مگر اب پھر ایک خوفناک واقعے میں 80 سے زائد افراد کی ہلاکتوں سے ثابت ہوا کہ صورتحال ویسی ہی ہے۔

بلوچستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی کو روکنے اور بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی ضروری ہے۔ یہ حکمت عملی اس وقت وضع ہوسکتی ہے جب تمام ادارے امن قائم کرنے کے نکتے پر متفق ہوں۔ اس کے ساتھ ہی امن کے لیے طالبان سمیت تمام منحرف گروہوں سے مذاکرت ہونے چاہئیں، اگر تمام عسکری اور سویلین اداروں نے امن قائم کرنے کے ایک نکتے پر اتفاق کیا تو پھر انتہاپسندوں کے خلاف عملی اقدامات ہوں گے۔ یوں سب سے پہلے کوئٹہ کو اسلحے سے پاک زون قرار دینے کے لیے آپریشن ضروری ہوگا۔ اس طرح کوئٹہ سمیت بلوچستان میں امن قائم ہوسکے گا۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ اگر بلوچستان میں اسلحہ اور گولہ بارود کی نقل وحمل کو روکا جائے تو کراچی میں بھی امن و امان بہتر ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ صدر زرداری اور ان کے ماتحت دیگر قومی ادارے موجودہ دور حکومت میںبلوچستان میں امن کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار نہیں کرسکے۔ کیا انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت یہ مقصد حاصل کرسکے گی؟ اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story