تفتیش مزید تفتیش اور تحقیقات

جب تک کوئی بڑی توپ تحقیقات کا حکم دے نہیں دیتی، تحقیقات ہوتی ہی نہیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq February 19, 2013
[email protected]

ایک مرتبہ پی ٹی وی کے حکام اور رائٹروں کا ایک اجلاس ہو رہا تھا، دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ رائٹروں کی فیس کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور اس میں پھر کاپی رائٹ اور رائلٹی کی بھی بات چلی ...پی ٹی وی کے افسر نے کہا کہ اگر آپ غور سے کنٹریکٹ کے پیچھے لکھی ہوئی شرائط پڑھیں تو ، اس پر مرحوم اشفاق احمد کو ہم نے ٹہوکا دیا، انھوں نے کہا کہ کنٹریکٹ کی پشت پر آپ لوگوں نے باریک حروف میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہم ضرور پڑھتے، اگر کسی نے کبھی کسی ریلوے بلٹی کے پیچھے لکھی ہوئی شرائط پڑھی ہوں آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ ریلوے کی بلٹی، بجلی کے فارم داخلہ اور بل کے پیچھے والی عبارت کسی نے بھی پڑھی ہے، ایسا ہی عام طور پر اخباروں کی خبروں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے کہ لوگ خبروں میں استعمال ہونے والے الفاظ اور اصطلاحات پر کبھی دھیان ہی نہیں دیتے، صرف مطلب اخذ کر لیتے ہیں کہ اتنے مرے، اتنے زخمی ہوئے اور پھر خبر کی آخری دم پر تو کسی کی نظر ہی نہیں پڑتی کہ تفتیش جاری ہے مثلاً کل ایک چور کو پولیس نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔

ایک شخص کے ساتھ ناجائز چاقو یا پستول پکڑ لیا گیا یا خریدار اور دکان دار میں لڑائی ہوئی، دکان دار کی ناک خطرناک ہو گئی، غرض کوئی بھی خبر ہو، اس کی یہ دم ضرور لگی ہو گی تفتیش جاری ہے، چور پکڑ لیا گیا، سامان برآمد ہوا، چور نے جرم قبول کر لیا لیکن پھر بھی تفتیش جاری ہے، لیکن یہ تفتیش صرف عوام کی حد تک جاری ہوتی ہے، اگر کوئی بڑا واقعہ ہو تو پھر اس کی دم ذرا موٹی ہوتی ہے یعنی تحقیقات کا حکم دیدیا گیا، گویا جب تک کوئی بڑی توپ تحقیقات کا حکم دے نہیں دیتی، تحقیقات ہوتی ہی نہیں، ہمیں تو جب بھی تحقیقات کے حکم دینے کی خبر دکھائی پڑتی ہے تو آنکھوں کے سامنے ایک منظر ابھر آتا ہے کہ کہیں دھماکا ہو چکا ہے، لاشیں بکھری پڑی ہیں اعضاء یہاں وہاں پھیلے ہوئے ہیں حسب معمول خودکش حملہ آور کا سر بھی پڑا ہے کیوں کہ وہ جنت جانے کی جلدی میں اپنا سر ساتھ نہیں لے جا سکا، عوام زخمیوں وغیرہ کو اٹھا رہے ہیں، مدد بھی دے رہے ہیں لیکن تحقیقاتی ادارے چاروں طرف قطار بنائے الرٹ کھڑے ہیں لیکن کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگا سکتے کیوں کہ ابھی تحقیقات کا حکم نہیں دیا گیا ہے، اچانک بھونپو بجتا ہے ہٹو بچو کا سلسلہ ہوتا ہے اور پھر گاڑی سے ایک بڑی توپ اترتی ہے، سیکریٹری فوراً آگے بڑھتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں دو کاغذ دے دیتا ہے، ایک پر تحقیقات کا حکم ہوتا ہے اور دوسرے پر مذمت کا بیان ۔۔۔ ایک کاغذ تحقیقاتی اداروں کو دیا جاتا ہے اور پھر ایک دم تحقیقات شروع ہو جاتی ہے جب کہ دوسرا کاغذ اخباری نمایندوں کو دے دیا جاتا ہے ممکن ہے کہ اصل منظر ایسا نہ ہو اور تحقیقات کا حکم اور مذمت کا بیان بڑی توپ کے دفتر سے جاری ہوئے ہوں کیوں کہ بڑی توپ اپنی ناک کی پھنسی کا علاج کروانے کے لیے گئی ہوئی ہو یا اسلام آباد کی کسی ضروری میٹنگ میں منرل واٹر کی بوتل کو حاضر ناظر جان کر شرکت فرما رہی ہو لیکن جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ جب تک اس کے دفتر سے تحقیقات کا حکم صادر نہیں ہوا ہو گاڑی رکی کھڑی ہوتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے اور تحقیقاتی ادارے دھماکا ہوتے ہی تحقیق پر لگ گئی ہوں تو بڑی توپ کا ''حکم'' کس کھاتے میں دیا جاتا ہے کیوں کہ تحقیقاتی ادارے تو بنے ہی تحقیق کے لیے ہوتے ہیں۔

یہ تو تحقیقات کی بات ہوئی اب ذرا تفتیش کے معاملے میں بھی گھوڑے دوڑاتے ہیں اگرچہ یہ عوامی چیز ہے اور اکثر تھانوں میں ہوتی ہے لیکن پھر بھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی، مثلاً اکثر پولیس والے بازار سے پھلوں اور سبزیوں کے دو چار کلو نمونے، خاص طور پر رمضان میں تفتیش کے لیے لے جاتے ہیں لیکن یہ پتہ آج تک نہیں چلا کہ ان پر کیا تفتیش ہوتی ہے اور اس تفتیش کے نتائج کیا نکلتے ہیں، ہم جس بازار میں سے گزرتے ہیں، اس میں گوشت کی دکانوں سے ہر صبح چار پانچ کلو گوشت تفتیش کے لیے لے جایا جاتا ہے لیکن ہر تفتیش کے بعد نتیجہ وہی حسب معمول نکلتا ہے کہ تفتیش جاری ہے یا مزید تفتیش جاری ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تفتیش بھی دو قسم کی ہوتی ہے، ایک صرف تفتیش اور دوسری مزید تفتیش ۔۔۔ کافی سن گن لینے کے باوجود ہمیں تفتیش کے بارے میں تو کچھ ہلکی پھلکی معلومات حاصل ہو سکی ہیں کیوں کہ تفتیش بعض اوقات عین موقعے پر بھی کی جاتی ہے، خاص طور پر پھلوں کی دکانوں میں، مشروبات کے اسٹالوں پر، چائے چانوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں ان مقامات پر ہم نے کئی بار تفتیش کے مناظر دیکھے ہیں جو پھلوں، مشروبات، چائے اور کھانوں پر ہوتے ہیں لیکن یہ مزید تفتیش ایک سربستہ راز ہے یا ٹاپ سیکرٹ کہیے کیوں کہ یہ تھانوں میں نہایت رازداری سے کی جاتی ہے ایک دو مرتبہ اس مزید تفتیش کی آوازیں تو ہم نے سنی ہیں لیکن منظر نہیں دیکھے ہیں نہ جانے یہ مزید تفتیش کیسی ہو گی، لیکن آج کل سڑکوں پر جگہ جگہ جو کام چل رہا ہے اسے آپ تھری ان ون کہہ سکتے ہیں کیوں کہ یہ تفتیش، مزید تفتیش اور تحقیقات تینوں کا عطر مجموعہ ہوتی ہے آپ کسی بھی پوسٹ سے گزریں کتنی ہی مسمی اور معصومانہ شکل بنائیں اپنی پہچان کو بانس میں لٹکا کر چلیں لیکن تفتیش ہو گی اور ضرور ہو گی اور یہ تو دنیا جانتی ہے کہ تفتیش ہو یا مزید تفتیش، تحقیقات ہوں یا چیکنگ... ان سب کا پہلا اصول ہے شک کرنا لیکن ''شک'' کرنے سے مشکوک شخص صرف ''ملزم'' سمجھا جاتا ہے جسے کچھ نہ کچھ بے گناہ ہونے کا بینیفٹ بھی مل جاتا ہے، لیکن یہ جدید چیز جس کا سر نیم چیکنگ ہے اس میں شک کی گنجائش یا فائدہ بالکل نہیں ہوتا، سیدھے سیدھے ٹارگٹ کو مجرم سمجھ لیا جاتا ہے اور ''بار بے گناہی'' کو اس کے ذمے چھوڑ دیا جاتا ہے اب یہ ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت یا ہمت یا تجربہ ہے کہ وہ خود کیو ں بیگناہ ثابت کر پاتا ہے یا نہیں ورنہ مجرم تو وہ ہے ہی۔۔۔ دوسروں کا کچھ پتہ نہیں کہ ان تفتیشی مراحل میں کیا حال ہوتا ہے لیکن ہم تو اب خود بھی آہستہ آہستہ یہ باور کرنے لگے ہیں کہ آخر یہ اتنے چیک پوسٹ اور اہل تفتیش جھوٹ تو نہیں بولتے یقیناً ہم ہی مجرم ہوں گے لیکن ہمیں پتہ نہیں ہے اکثر مریضوں کو اپنے مرض کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا چنانچہ ان اداروں سے اتفاق کرتے ہوئے ہم نے خود کو مجرم مان لیا ہے اور باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
پہلے زمانے میں مجرم لوگ انڈر گراؤنڈ ہو جاتے تھے لیکن ہم ''انڈر ہاؤس'' ہو چکے ہیں کیا پتہ کہاں پر اہل تفتیش کے ہاتھ پڑ جائیں ۔۔۔ چلیے آخر میں کچھ ٹوٹے پھوٹے شعر سنیے

دھماکا اور اک کل ہو گیا تفتیش جاری ہے
یہ ایک گدھی نے گدھے سے کہا تفتیش جاری ہے
دھماکے کا جو ماسٹر مائنڈ تھا وہ آدمی تھا
کسی ماں باپ کا بیٹا بھی تھا تفتیش جاری ہے
فرار ہو گیا ہے وہ دھماکا کرنے والا
وہ اپنا سر نہیں لے جا سکا تفتیش جاری ہے
مذمت سب وزیروں نے بڑی پرزور کی ہے
حکم تحقیق کا بھی دیدیا تفتیش جاری ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں