چراغ جلاتے رہیں گے
غیرانسانی واقعات کا ارتکاب کرنے والے جو بہت فخر سے ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ان ہی کا کیا دھرا ہے۔
بحیرہ عرب کا ہلکورے لیتا ہوا پانی لکڑی کے بنے ہوئے عرشے اور دور دراز تک پھیلی ہوئی بیچ لگژری کی عمارت کو چھوتا ہے۔ سبزہ زار پر نم گیریوں کے نیچے کتابوں کی عارضی دکانیں ہیں جن کے گرد عاشقان ادب کا جمگھٹا ہے۔ انگریزی، اردو اور سندھی کتابوں کے ڈھیر ہیں۔ دل انھیں خریدنے کے لیے مچلتا ہے لیکن جیب اجازت نہیں دیتی۔ اس کے باوجود کتابیں بک رہی ہیں ۔ کنیزے مراد کا تازہ ناول جو انھوں نے لکھنو کی گنگا جمنی تہذیب اور اس کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست ہوس سے بچانے کے لیے جان سے گزر جانے والی حضرت محل کے بارے میں لکھا ہے ۔ اس کی تقریب اجرا کراچی کے جشن ادب میں ہورہی ہے۔ میں جب دکان تک پہنچتی ہوں تو وہ فروخت ہوچکا اور مجھ سمیت بہت سے لوگ ناکام ونامراد لوٹتے ہیں۔ سب کے نام اور موبائل نمبر لکھے جارہے ہیں، ہفتے بھر بعد جب اس ناول کی دوسری کھیپ آجائے گی تو ہمیں بتادیا جائے گا۔ کنیزے مراد صحافی ہیں۔ بیروت، بنگلہ دیش اور ایتھوپیا میں جنگی نامہ نگار بھی رہیں۔ انقلاب ایران کا بیان لکھا۔ اس سے پہلے بھی کئی ناول لکھ چکی ہیں۔ ان کا پہلا ناول 'داستان ایک ترک شہزادی کی' اپنی ماں کے بارے میں تھا، جو تحلیل ہوتی ہوئی سلطنت عثمانیہ کی ترک شہزادی تھی۔ سلطان مراد پنجم کی پوتی جس نے ایک ہندوستانی نواب زادے سے شادی کی۔ ایک محل سے اڑ کر دوسرے محل کے پنجرے میں قید ہونے والی شہزادی جب اس صورتحال سے سمجھوتا نہ کرسکی تو واپس چلی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ، پیرس پر نازی جرمنی کاقبضہ ہوچکا تھا۔ شہزادیوں سے جب سلطنت اور دھن دولت چھنتی ہے تو ان پر کیا گزرتی ہے۔ اپنی ماں کی یہ دل فگار داستان کنیزے مراد نے بہت محبت سے فرانسیسی میں لکھی، چھپتے ہی اس ناول نے انھیں بامِ شہرت پر پہنچا دیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ ہوا اور وہ بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کنیزے کے اس ناول کے چند ابواب کا میں نے ترجمہ کیا۔ وہ شایع ہوکر بہت مقبول ہوئے اور اب انھوں نے حضرت محل پر لکھا ہے۔ واجد علی شاہ کے دربار کی ایک رقاصہ جو واجد پیا کی ملکہ اور ولی عہد کی ماں بنی۔ اس رقاصہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کو دو برس تک ناکوں چنے چبوائے اور جب سب ساتھی جان سے گزر گئے یا صاحبان طبل و علم کے ساتھ جا کھڑے ہوئے تب بھی حضرت محل نے ہتھیار نہیں رکھے اور لڑتی ہوئی نیپال کے جنگلوں میں نکل گئی اور وہیں پیوند خاک ہوئی۔اپنی زمین سے وفاداری کرنے والی اس رقاصہ کے پیروں کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ کیوں نہ ہو۔
امینہ سید اور آصف فرخی کے زیر اہتمام ہونے والے اس جشن ادب میں فلسطین، ہندوستان، انگلستان، فرانس اور کئی دوسرے ملکوں کے لکھنے والے شامل تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گلوبلائزیشن کے اور نیو امپریل ازم کے ستم سہے ہیں۔ ان میں وہ باپ تھا جس کا نام عزل دین ابولایش تھا۔ غزہ میں رہنے والے اس ادیب کی تین بیٹیاں اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ان پر گریہ و ماتم کرتا رہتا لیکن اس نے طے کیا کہ وہ دوسری لڑکیوں اور لڑکوں کو اسرائیل کے ظلم و ناانصافی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے قلم سے لڑتا رہے گا۔
اس جشن میں سیاست ادب کے قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی، اس کے مہمان خاص، برطانوی پارلیمنٹ کے رکن جارج گیلوے کی شعلہ بیانی نے لوگوں کے دلوں کو گرمادیا۔ وہ صاحب جو بلٹ پروف شیشے کے پیچھے بیٹھ کر ہمارے چیف الیکشن کمشنر پر مسلسل کیچڑ اچھال رہے ہیں اور مداری کی طرح تماشا دکھا رہے ہیں، کاش وہ یہ دیکھتے کہ ہم سب کے بہت پیارے فخر الدین جی ابراہیم حفاظتی انتظامات اور کسی پروٹوکول کے بغیر ادیبوں اور ادب دوستوں کے اس ہجوم میں آئے اور سامعین میں بیٹھ گئے۔ نجم سیٹھی اور منیب فاروق کی کاٹ دار باتیں سنتے رہے اور سیٹھی صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے رہے کہ لوگ اگر پابندی سے ہر پانچ برس بعد انتخابات میں حصہ لیں گے اور جمہوری عمل کو آگے بڑھائیں گے تو فوج ہو یا کوئی اور طاقتور ادارہ، کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ ان کے جمہوری حقوق پر ڈاکا ڈال سکے۔
ادب انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، اس لیے وہ لوگ بھی اس میں نمایاں تھے جن کی زندگی انسانوں کے جمہوری اور سماجی حقوق کے لیے لڑتے گزر گئی مگر پھر بھی ایک خاص سوچ رکھنے والوں کی طرف سے ان کے حصے میں دشنام اور الزام ہی آئے۔ جناب آئی اے رحمان اور عاصمہ جہانگیر اس محفل میں شرکت کے لیے لاہور سے بہ طور خاص آئے تھے۔ عاصمہ نے مجھے دیکھا تو گلے لگ گئیں۔ وہ سیکولر ازم اور انسان دوستی پر بات کرنے آئی تھیں۔ انھوں نے اچھا کیا کہ یہ بات کھل کر کہہ دی کہ انھیں نگراں وزیر اعظم بننے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ عاصمہ ہمارے ان جری اور دبنگ لوگوں میں ہیں جنہوں نے شعور سنبھالنے کے بعد سے اب تک ہر روز پاکستانیوں کے لیے انصاف طلب کیا اور اس کی سزا سہی ہے۔
اس جشن میں ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں چاروں صوبوں سے شاعرات اور شاعروں نے شرکت کی۔ اس کی صدارت کشور ناہید نے کی اور نظامت فاطمہ حسن کے حصے میں آئی۔ اب بہت دنوں سے شہر میں شعری نشستیں نہیں ہوتیں جس کا سبب قتل و غارت گری کا وہ المناک اور تباہ کن دائرہ ہے جس نے ہم سب کو دہشت زدہ کردیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلی دوپہر یا اگلی شام کون سا خوں رنگ منظر دکھائے گی۔ اس حوالے سے دیکھیے تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور اس کا ساتھ دینے والے برطانوی، جرمنی، فرانسیسی ، اطالوی اداروں کے حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے جنہوں نے لہولہان کراچی میں ادب اور ادیبوں کا ایک گلستاں آباد کیا۔
تین دن کے اندر جب لگ بھگ 100 مکالمے ہورہے ہوں تو ان سب میں شامل ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لیے میں آپ سے بس چند محفلوں کا ہی تذکرہ کروں گی۔ آپ ہی سوچیں کہ جب ایک ہال میں حسینہ معین، نور الہدیٰ شاہ اور امجد اسلام امجد اپنے چاہنے والوں سے کھری کھری باتیں کررہے ہوں، دوسری طرف عارفہ سیدہ زہرا اپنے خیال کی روانی اور جولانی دکھا رہی ہوں ۔ کہیں شمیم حنفی غالب اور منٹو پر بولتے ہوں اور دانش کے موتی رولتے ہوں، انتظار حسین کی کہانیاں دل موہ رہی ہوں۔ دلی سے آنے والے 'دانش' اور' دارین' منٹو کی زندگی پر دو گھنٹے تک داستان سرائی یوں کریں کہ منٹو کی زندگی کا ایک ایک لمحہ آنکھوں کے سامنے کھنچ جائے۔ انگریزی ناول نگار اپنی اپنی فتوحات کے قصے سناتے ہوں اور سننے والے سر دھنتے ہوں۔ ڈاکٹر مبارک علی تاریخ کی کڑواہٹوں پر گفتگو کرتے ہوں، نگار نذر، لکیروں سے ہنستی ہنساتی اور سوچنے پر مجبور کرتی ہوں، ذکیہ سرور کہانی لکھنے کا ہنر سکھاتی ہوں، افتخار عارف اپنی شاعری سے دلوں کو فتح کرتے ہوں اور عطا الحق قاسمی اور انور مسعور اپنی پُرلطف باتوں سے محفل کو زعفران زار کرتے ہوں۔ ایسی محفلوں کے اگر 51 لوگوں کا ذکر ہوگا تو لازماً 151 کا تذکرہ رہ جائے گا۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ مجھے لفظوں کی حدود میں رہنا ہے۔ چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ وہ محفل جس میں گلزار صاحب کو بھی باتیں کرنی تھیں، وہ آسٹن، ٹیکساس سے آئے ہوئے کامران اژدر علی، امجد اسلام امجد، شکیل عادل زادہ اور اس خاکسار کی باتوں تک محدود رہیں۔ گلزار صاحب ہوتے تو کیا لطف آتا ۔ ان کے نہ آنے کے غم میں آصف نورانی اداس بلبل دکھائی دے رہے تھے، انھیں گلزار صاحب سے لمبی چوڑی گفتگو کرنی تھی اور وہ موقع ہاتھ سے جاتا رہا تھا۔
یہ جشن جاری تھا کہ کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے معصوم و بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی خبر آئی۔ ہم سب ہی دہشت زدہ ہوئے، دل گرفتہ ہوئے۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ اس سانحے کے بعد کیسا جشن اور کہاں کا جشن۔ میں نے عرض کیا کہ آپ بجا کہتے ہیں لیکن کوئٹہ، پشاور، کراچی یا دوسرے شہروں میں ان ہولناک اور غیرانسانی واقعات کا ارتکاب کرنے والے جو بہت فخر سے ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ان ہی کا کیا دھرا ہے، وہ دراصل یہی چاہتے ہیں کہ فکر و خیال کے سوتے خشک ہوجائیں اور ہم سب خوفزدہ ہوکر ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں لیکن ہم ہتھیار کیسے ڈال سکتے ہیں۔ ہم روشن فکر کے چراغ جلاتے رہیں گے۔ وہ ہمارے سماج کو قبرستان بنانے کے درپے ہیں اور ہم رواداری اور انسان دوستی کے خیالات نئی نسل کے ذہن میں کاشت کرتے رہیں گے اور وہ گلستاں آباد کریں گے جس کی خوشبو اور رنگا رنگی نئی دنیائیں آباد کرے گی۔ ہم لفظوں کا جادو جگائیں گے اور یہی لفظ خون کی ندیاں پار کرجائیں گے۔ ہزاروںبرس سے خیالات و افکار جیتتے آئے ہیں، جنگ و جدال اور قتل قتال کرنے والے آخر کار ہار جاتے ہیں۔ ہلاکو لاکھوں کتابوں کی راکھ سے دجلہ کا پانی سیاہ کردیتا ہے لیکن کتابیں اپنی راکھ سے پھر جنم لیتی ہیں اور جیت جاتی ہیں۔