آہ ڈاکٹر محمد علی شاہ
کئی نامور کھلاڑیوں کے ناموں کی سڑکیں منسوب کرنے والے کے نام پر کوئی بڑی اور اہم شاہراہ شہر کراچی میں ہونی چاہیے۔
یہ واقعہ ہے 1982 کا، ہماری اماں کی عمر 80 سال ہو چکی تھی، ہمارے ابا کا انتقال ایک سال پہلے 1981 میں ہوا تھا۔ اماں اپنی زندگی کے ساتھی کے چلے جانے کا دکھ اٹھائے وقت گزار رہی تھیں۔ اماں نے بہت سخت زندگی گزاری تھی، قدم قدم پر مصائب و آلام کا سامنا رہا اور اماں نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر ابا کے بعد وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگی تھیں۔ بے حد متحرک ہماری اماں ٹھہر سی گئی تھیں، بہت زیادہ بولنے والی، اب خاموش رہنے لگی تھیں۔ ایک دن خیالوں میں گم تھیں کہ اماں کا پاؤں پھسلا اور کولہے کے بل گر گئیں۔
ڈاکٹر کو بلایا، ایکسرے کروایا تو پتہ چلا کہ کولہے کے اندر گھومنے والی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اس حادثے کی اطلاع بھائی حبیب جالبؔ کو دی گئی۔ اسی روز وہ بذریعہ ہوائی جہاز لاہور سے کراچی آ گئے اور اماں کو ڈاکٹر طارق سہیل صاحب کے اسپتال میڈی کیئر سینٹر لے گئے۔ یہ اسپتال ان دنوں شہید ملت روڈ پر ہوا کرتا تھا جو اب جناح میڈیکل کالج بن چکا ہے۔ اس زمانے میں میڈی کیئر شہر کا بڑا پرائیویٹ اسپتال سمجھا جاتا تھا۔ ملک کے بڑے اور معروف اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اس اسپتال میں بیٹھتے تھے۔ بچوں کے خاص معالج ڈاکٹر غفار بلو، دل کے معالج ڈاکٹر حشمت، آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر محمد علی شاہ و دیگر۔ ڈاکٹر طارق سہیل، جالبؔ صاحب کے بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اماں کو اپنے اسپتال میں داخل کر لیا اور کیس ڈاکٹر محمد علی شاہ کے سپرد کر دیا۔
ڈاکٹر محمد علی شاہ نے اماں کا معائنہ کیا اور بتایا کہ ان کے کولہے کے حصے کا آپریشن کر کے مصنوعی کولہے کا جوائنٹ لگایا جائے گا۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ صاحب نے میڈی کیئر اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں اماں کے کولہے کا جوائنٹ لگایا اور چند دن اسپتال میں رکھ کر فارغ کر دیا۔ اسی دوران ڈاکٹر شاہ نے ہم گھر والوں کو یہ بتایا کہ آپریشن اسی معیار کا ہوا ہے جیسا کہ لندن یا امریکا کے کسی بڑے اسپتال میں ہوتا ہے۔
اسپتال سے فارغ ہوتے وقت ڈاکٹر محمد علی شاہ نے اپنی ڈیزائن کردہ لوہے کے پائپ کی بنی ہوئی واکر (Walker) دی جس کے سہارے اماں چلتی تھیں۔ اس تمام Treatment کا ہم سے ایک پیسہ نہیں لیا گیا۔ ڈاکٹر طارق سہیل صاحب نے اسپتال فری کیا، ڈاکٹر محمد علی شاہ صاحب نے آپریشن فری کیا، ان کے ساتھ دیگر ڈاکٹرز سب نے ہم سے کچھ نہیں لیا۔
ڈاکٹر محمد علی شاہ کا اے او کلینک اس وقت تک قائم نہیں ہوا تھا، مگر ڈاکٹر صاحب کا نام مشہور ہو چکا تھا۔ ہماری اماں اس کے بعد تقریباً پانچ سال زندہ رہیں اور اپنی عمر کے یہ آخری سال انھوں نے چلتے پھرتے گزارے، اماں کو اﷲ نے اپاہج ہونے سے بچا لیا اور وہ کسی کے سہارے کی محتاج نہ ہوئیں۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ یوں ہمارے محسن ہیں کہ انھوں نے بلا معاوضہ ہماری اماں کا آپریشن کیا تھا۔ ایک بار کراچی آرٹس کونسل میں ڈاکٹر صاحب کی بیگم سے میری ملاقات ہوئی، تو میں نے اماں کے آپریشن کا واقعہ ان کو سنایا۔ واقعہ سن کر وہ بولیں ''جالبؔ صاحب کی والدہ کے لیے ڈاکٹر صاحب کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔''
ڈاکٹر محمد علی شاہ فقیرانہ مزاج رکھتے تھے اور اﷲ نے بھی انھیں اپنے فضل و کرم سے بے پناہ نواز رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں ایسے ایسے معجزانہ آپریشن کیے ہیں کہ جن کی تفصیلات سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور بس اﷲ ہی یاد آ جاتا ہے، اﷲ نے ان کے ہاتھوں میں بڑی شفا رکھی تھی، اور وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتے تھے، اس وقت ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے، ایک شخص کا ایکسیڈنٹ میں ہاتھ بری طرح کچلا گیا اور انگلیاں کٹ کے الگ ہو گئیں، مریض کو ڈاکٹر محمد علی شاہ صاحب کے اے او کلینک لایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اﷲ کا نام لے کر آپریشن شروع کر دیا۔ دوران آپریشن پتا چلا کہ مریض کی کٹی ہوئی انگلیاں جائے حادثہ پر ہی پڑی رہ گئی ہیں، لوگ جائے حادثہ کی طرف دوڑے اور انگلیاں لے کر اسپتال پہنچے، ڈاکٹر صاحب نے کٹی ہوئی انگلیاں اچھی طرح دھوئیں اور پھر انگلیاں ہاتھ کے ساتھ جوڑ دیں، اﷲ کے فضل و کرم سے انگلیاں صحیح جڑ گئیں اور ہاتھ کے ساتھ کام کرنے لگیں، بتائیے! یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسے ہی معجزانہ آپریشنز سے ڈاکٹر محمد علی شاہ کی زندگی بھری پڑی تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں ہزاروں آپریشن کیے اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام درج ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے 67 سال عمر پائی، مگر وہ کام کام اور بس کام کرتے رہے۔ کامیاب اور بڑے انسانوں کی طرح انھوں نے اپنا رستہ کبھی نہیں بدلا۔ اور جس رستے پر اﷲ نے انھیں ڈال دیا تھا وہ دائیں بائیں دیکھے بغیر اسی راستے پر آخری سانس تک چلتے رہے۔ ہائے! کیا اﷲ کا نظام ہے کہ ایسے پیارے لوگ بھی اتنی جلدی دنیا چھوڑ جاتے ہیں، اور میں اگلا جملہ لکھتے لکھتے رک گیا ہوں اور بس یہی لکھوں گا کہ یہ اﷲ کے فیصلے ہیں، اﷲ کی رضا اﷲ ہی جانے۔
ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی شغل بھی ضرور ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کا بھی ایک شغل تھا ''کرکٹ''۔ ڈاکٹر صاحب دل بہلانے کے لیے کرکٹ کھیلتے بھی تھے اور کھلاتے بہت تھے۔ کرکٹ کے میدان میں بھی انھوں نے اپنی انفرادیت قائم رکھی۔ اپنے والد کے نام سے کرکٹ کا اسٹیڈیم قائم کیا۔ اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں ٹورنامنٹ ہوئے، یوں ہونہار کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کے مواقعے ملے اور وہ آگے بڑھتے تھے، سیاست کو بھی انھوں نے صاف ستھرے انداز میں نبھایا۔ وہاں بھی سماجی خدمات ہی ان کے پیش نظر رہیں۔ آخر میں بس ایک فقرہ اور لکھوں گا، کئی نامور کھلاڑیوں کے ناموں کی سڑکیں منسوب کرنے والے کے نام پر کوئی بڑی اور اہم شاہراہ شہر کراچی میں ہونی چاہیے۔ ورنہ فراق گورکھپوری کا شعر ہی ہمارے لیے کافی ہے:
بھولیں اگر تمہیں تو کدھر جائیں، کیا کریں
ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
ڈاکٹر کو بلایا، ایکسرے کروایا تو پتہ چلا کہ کولہے کے اندر گھومنے والی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اس حادثے کی اطلاع بھائی حبیب جالبؔ کو دی گئی۔ اسی روز وہ بذریعہ ہوائی جہاز لاہور سے کراچی آ گئے اور اماں کو ڈاکٹر طارق سہیل صاحب کے اسپتال میڈی کیئر سینٹر لے گئے۔ یہ اسپتال ان دنوں شہید ملت روڈ پر ہوا کرتا تھا جو اب جناح میڈیکل کالج بن چکا ہے۔ اس زمانے میں میڈی کیئر شہر کا بڑا پرائیویٹ اسپتال سمجھا جاتا تھا۔ ملک کے بڑے اور معروف اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اس اسپتال میں بیٹھتے تھے۔ بچوں کے خاص معالج ڈاکٹر غفار بلو، دل کے معالج ڈاکٹر حشمت، آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر محمد علی شاہ و دیگر۔ ڈاکٹر طارق سہیل، جالبؔ صاحب کے بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اماں کو اپنے اسپتال میں داخل کر لیا اور کیس ڈاکٹر محمد علی شاہ کے سپرد کر دیا۔
ڈاکٹر محمد علی شاہ نے اماں کا معائنہ کیا اور بتایا کہ ان کے کولہے کے حصے کا آپریشن کر کے مصنوعی کولہے کا جوائنٹ لگایا جائے گا۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ صاحب نے میڈی کیئر اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں اماں کے کولہے کا جوائنٹ لگایا اور چند دن اسپتال میں رکھ کر فارغ کر دیا۔ اسی دوران ڈاکٹر شاہ نے ہم گھر والوں کو یہ بتایا کہ آپریشن اسی معیار کا ہوا ہے جیسا کہ لندن یا امریکا کے کسی بڑے اسپتال میں ہوتا ہے۔
اسپتال سے فارغ ہوتے وقت ڈاکٹر محمد علی شاہ نے اپنی ڈیزائن کردہ لوہے کے پائپ کی بنی ہوئی واکر (Walker) دی جس کے سہارے اماں چلتی تھیں۔ اس تمام Treatment کا ہم سے ایک پیسہ نہیں لیا گیا۔ ڈاکٹر طارق سہیل صاحب نے اسپتال فری کیا، ڈاکٹر محمد علی شاہ صاحب نے آپریشن فری کیا، ان کے ساتھ دیگر ڈاکٹرز سب نے ہم سے کچھ نہیں لیا۔
ڈاکٹر محمد علی شاہ کا اے او کلینک اس وقت تک قائم نہیں ہوا تھا، مگر ڈاکٹر صاحب کا نام مشہور ہو چکا تھا۔ ہماری اماں اس کے بعد تقریباً پانچ سال زندہ رہیں اور اپنی عمر کے یہ آخری سال انھوں نے چلتے پھرتے گزارے، اماں کو اﷲ نے اپاہج ہونے سے بچا لیا اور وہ کسی کے سہارے کی محتاج نہ ہوئیں۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ یوں ہمارے محسن ہیں کہ انھوں نے بلا معاوضہ ہماری اماں کا آپریشن کیا تھا۔ ایک بار کراچی آرٹس کونسل میں ڈاکٹر صاحب کی بیگم سے میری ملاقات ہوئی، تو میں نے اماں کے آپریشن کا واقعہ ان کو سنایا۔ واقعہ سن کر وہ بولیں ''جالبؔ صاحب کی والدہ کے لیے ڈاکٹر صاحب کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔''
ڈاکٹر محمد علی شاہ فقیرانہ مزاج رکھتے تھے اور اﷲ نے بھی انھیں اپنے فضل و کرم سے بے پناہ نواز رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں ایسے ایسے معجزانہ آپریشن کیے ہیں کہ جن کی تفصیلات سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور بس اﷲ ہی یاد آ جاتا ہے، اﷲ نے ان کے ہاتھوں میں بڑی شفا رکھی تھی، اور وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتے تھے، اس وقت ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے، ایک شخص کا ایکسیڈنٹ میں ہاتھ بری طرح کچلا گیا اور انگلیاں کٹ کے الگ ہو گئیں، مریض کو ڈاکٹر محمد علی شاہ صاحب کے اے او کلینک لایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اﷲ کا نام لے کر آپریشن شروع کر دیا۔ دوران آپریشن پتا چلا کہ مریض کی کٹی ہوئی انگلیاں جائے حادثہ پر ہی پڑی رہ گئی ہیں، لوگ جائے حادثہ کی طرف دوڑے اور انگلیاں لے کر اسپتال پہنچے، ڈاکٹر صاحب نے کٹی ہوئی انگلیاں اچھی طرح دھوئیں اور پھر انگلیاں ہاتھ کے ساتھ جوڑ دیں، اﷲ کے فضل و کرم سے انگلیاں صحیح جڑ گئیں اور ہاتھ کے ساتھ کام کرنے لگیں، بتائیے! یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسے ہی معجزانہ آپریشنز سے ڈاکٹر محمد علی شاہ کی زندگی بھری پڑی تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں ہزاروں آپریشن کیے اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام درج ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے 67 سال عمر پائی، مگر وہ کام کام اور بس کام کرتے رہے۔ کامیاب اور بڑے انسانوں کی طرح انھوں نے اپنا رستہ کبھی نہیں بدلا۔ اور جس رستے پر اﷲ نے انھیں ڈال دیا تھا وہ دائیں بائیں دیکھے بغیر اسی راستے پر آخری سانس تک چلتے رہے۔ ہائے! کیا اﷲ کا نظام ہے کہ ایسے پیارے لوگ بھی اتنی جلدی دنیا چھوڑ جاتے ہیں، اور میں اگلا جملہ لکھتے لکھتے رک گیا ہوں اور بس یہی لکھوں گا کہ یہ اﷲ کے فیصلے ہیں، اﷲ کی رضا اﷲ ہی جانے۔
ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی شغل بھی ضرور ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کا بھی ایک شغل تھا ''کرکٹ''۔ ڈاکٹر صاحب دل بہلانے کے لیے کرکٹ کھیلتے بھی تھے اور کھلاتے بہت تھے۔ کرکٹ کے میدان میں بھی انھوں نے اپنی انفرادیت قائم رکھی۔ اپنے والد کے نام سے کرکٹ کا اسٹیڈیم قائم کیا۔ اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں ٹورنامنٹ ہوئے، یوں ہونہار کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کے مواقعے ملے اور وہ آگے بڑھتے تھے، سیاست کو بھی انھوں نے صاف ستھرے انداز میں نبھایا۔ وہاں بھی سماجی خدمات ہی ان کے پیش نظر رہیں۔ آخر میں بس ایک فقرہ اور لکھوں گا، کئی نامور کھلاڑیوں کے ناموں کی سڑکیں منسوب کرنے والے کے نام پر کوئی بڑی اور اہم شاہراہ شہر کراچی میں ہونی چاہیے۔ ورنہ فراق گورکھپوری کا شعر ہی ہمارے لیے کافی ہے:
بھولیں اگر تمہیں تو کدھر جائیں، کیا کریں
ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے