چہرے چھپائے جاتے ہیں
جہاں قبرستانوں میں میتیں لٹ رہی ہوں، مسجد کے اندر نمازی لٹ رہے ہوں وہاں امام ضامن باندھنے سے بھی کیا ہو گا؟
دنیا میں طاقتور اور کمزور اور حق و ناحق کی جنگ انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی وجود میں آ چکی تھی جس کی ابتدا مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ہابیل اور قابیل کے درمیان حق سلب اور جان تلف کرنے کی صورت میں ہوئی۔ قدیم زمانے میں تو جنگ و جدل، قتل و غارت گری، حق تلفی اور لوٹ مار کا سلسلہ انفرادی حیثیت سے لے کر قبیلوں اور سلطنتوں تک وسیع تھا، ان کے لیے نہ کوئی قانون تھا، نہ کوئی ضابطہ اخلاق اور نہ ہی کوئی ایسی طاقت یا اتھارٹی تھی جو انھیں کسی قانون قاعدے کا پابند بنا سکے، لیکن زمانہ جوں جوں ترقی کرتا گیا عوام اور حکمرانوں میں شعور و آگہی بڑھی، وہ قتل و غارت گری، جنگ و جدل اور لوٹ مار کی تباہ کاریوں کے مضمرات سے آگاہ بھی ہوئے اور بیزار بھی ہوئے، جس کے نتیجے میں ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان ضابطہ اخلاق اور قوانین وضع کیے گئے تا کہ ملک کے اندر باشندوں کے درمیان امن و انصاف قائم ہو اور بین الاقوامی سطح پر ملکوں کے درمیان حق تلفی، ظلم و زیادتی اور جنگ و جدل کا سدباب ہو سکے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر ملک اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود اور سماجی انصاف کے قوانین اور قواعد و ضوابط رکھتا ہے، عہد حاضر کی ضروریات کے مطابق ان قوانین کو فعال، موثر اور متحرک بنانے کے لیے قانون سازی بھی کی جاتی ہے اور ان میں ترجیحات بھی طے کی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی طور پر ایسے ادارے اور قوانین وجود میں آ چکے ہیں جو عالمی سطح پر ممالک کے درمیان مساوات، امن، احترام، جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ و احترام اور تنازعات کی صورت میں ان کے حل کے طریقہ کار وضع کرتے ہیں۔ کسی ناانصافی، زیادتی، تنازعہ یا سیاسی و مالی بحران سے نکلنے کے لیے اس کی مدد کرتے ہیں، شہریوں کے حقوق کو غصب کرنے، کسی سیاسی، مذہبی و منفی بنا پر انسان حقوق کی پامالی اور امتیازی سلوک پر قانون سازی کرنے پر عالمی برادری متعلقہ ملک سے اس کی باز پرس کرتی ہے اور اس پر پابندیاں عائد کر کے ایسے اقدامات سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ گو چند بڑے ممالک نے بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھ کر بین الاقوامی اداروں کو بھی عملی طور پر اپنے ذیلی ادارے بنا کر رکھ لیا ہے۔
یہ ادارے قانون سازی کرتے وقت، امداد دیتے وقت، پابندیاں لگاتے وقت، پالیسیاں بناتے وقت ان طاقتور ممالک کے سیاسی، معاشی و معاشرتی مفادات اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہیں اور دیگر ممالک کے اجتماعی مفادات و ضروریات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی نا انصافی اور حق تلفی یہاں تک کہ جنگ و جدل، مسلح جدوجہد، قتل و غارت گری اور ناانصافی کا راج قائم ہو چکا ہے، جس سے نہ صرف ملکوں کا قومی وقار، تشخص اور سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے بلکہ اس سے عام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔
جس طرح بین الاقوامی سطح پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ملکوں اور قوموں کے ساتھ قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا سلسلہ چل رہا ہے بالکل اسی طرح بعض ممالک میں ان کے حکمرانوں کا رویہ بھی اپنے عوام کے ساتھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی ماورائے قانون سلوک، انسانی حقوق کی پامالی کا دور دورہ ہے۔ ایک طرف بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت، ہدایات اور مطالبات ہیں تو دوسری جانب بین الاقوامی اداروں کی مالیاتی پالیسیاں اور مطالبات ہیں جنہوں نے ملک کی معیشت، دفاع، مستقبل اور امن و امان کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، بدقسمتی سے حکمرانوں کی عاقبت نا اندیشی نے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔ ملک میں قوانین ہونے کے باوجود ان پر کسی قسم کا عمل ناپید ہے، حکومتی پالیسیوں اور امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، نہ سرمایہ محفوظ ہے نہ جان اور ایمان، جس کے نتیجے میں ملک سے سرمایہ اور سکت رکھنے والے افراد بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔
خوف و دہشتگردی کے ایسے سنسنی خیز انوکھے اور ناقابل یقین واقعات ہو رہے ہیں جو نا قابل یقین ہیں۔ گزشتہ ہفتے کھارادر کی مسجد میں نماز فجر میں جیسے ہی نمازیوں نے سلام پھیرا پانچ مسلح ملزمان اسلحہ تان کر کھڑے ہو گئے اور نمازیوں کو حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے نکال دے، امام صاحب نے کہا کہ جیسا یہ کہتے ہیں کرو اور سب سے پہلے خود اپنی نقدی نکال کر ان دہشت گرد ڈاکوؤں کو دی اس کے بعد موذن اور تمام نمازیوں نے اپنی اپنی نقدی، موبائل فونز اور دستی گھڑیاں وغیرہ ان ملزمان کے حوالے کر دیں۔ مکینوں کے مطابق ایک درجن سے زائد موٹر سائیکل سوار جدید اسلحے کے ساتھ مسجد کے باہر کھڑے تھے، یہ رات 2 بجے سے علاقے میں گھوم رہے تھے، اگلے دن نماز فجر میں نمازیوں کی تعداد پانچ تھی۔
دوسرا واقعہ حیدر آباد سے واپس آنے والی بارات کے سپر ہائی وے پر لٹنے کا ہے۔ باراتی بتاتے ہیں کہ جب بس حیدر آباد کے ٹول پلازہ سے سپر ہائی وے پر نکلی تو ڈرائیور نے فون پر کسی کو اطلاع دی کہ دس منٹ میں پہنچ رہے ہیں، اس کے ٹھیک دس منٹ بعد ڈرائیور نے بس ہائی وے پر کچے میں اتار دی جہاں موجود 20 سے 25 ملزمان نے تمام باراتیوں کو بس سے اتار کر ایک قطار میں بٹھا دیا، خواتین سے زیورات چھینے، انتہائی اطمینان سے چیک کیے نقلی زیورات وہیں پھینک دیے، گاڑی کی خانہ تلاشی لی گئی، تمام باراتیوں کو ہر چیز سے محروم کر دیا، اس بے خوف واردات کا دورانیہ دو گھنٹے بتایا جاتا ہے، ان دو گھنٹوں میں انھوں نے کیا کیا کیا ہو گا؟ باراتیوں سے ان کا سلوک کیا ہو گا؟ ان باراتیوں پر کیا گزر رہی ہو گی، ان کے ذہنوں میں دہشت گردی کے کون کون سے ممکنہ واقعات گھوم رہے ہوں گے اور وہ بے سروسامانی میں کس طریقے سے اگلے دن کراچی پہنچے ہوں گے، قابل غور ہیں۔
ایک اور واقعے میں ملیر جیل سے قیدی کا فرار ہے، جسے دیگر قیدیوں کے ساتھ جیل کی باؤنڈری وال کے ساتھ کیاریاں درست کرنے کے لیے باہر نکالا گیا تھا جہاں سے وہ فرار ہوا یا کرایا گیا، واقعے کو پولیس کی ملی بھگت قرار دیا جارہا ہے، عام جرم میں قید اس بھارتی مچھیارے کے فرار ہونے کا یہ اقدام تشویشناک اور معنی خیز ہے۔ کراچی گارمنٹ فیکٹری میں سیکڑوں محنت کشوں کی ہلاکت پر درج ایف آئی آر میں سے قتل کی دفعہ ختم کروانے سے بڑی سنسنی خیز خبر یہ ہے کہ حکومت نے پی پی پی لیاری امن کمیٹی یا لیاری گینگ وار کے مطلوب ملزمان کے خلاف قائم مقدمات اور ان کے سروں پر مقرر انعامی رقم کو ختم کر دیا ہے۔
ایسے لاتعداد واقعات ہیں جو حکومت کی جانب سے جرائم کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں پولیس کے اعلیٰ حکام بھی کہہ چکے ہیں کہ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پولیس امن و امان قائم کرنے اور شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے، کراچی میں ایک ہفتے کے دوران 12 تاجروں کے قتل پر تاجروں نے 19 فروری کو سرعام اپنے لائسنس یافتہ اسلحے کی نمائش کا اعلان کر دیا اور آرمی چیف سے اپیل کی کہ اگر انھیں تحفظ کے لیے فوج نہیں دے سکتے تو انھیں فوجی تربیت ہی دے دیں تا کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ بھی زچ ہوکر کہہ چکی ہے کہ شہر میں 22 ہزار سے زائد ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں، حکومت تحفظ نہیں دے سکتی تو شہریوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے امام ضامن باندھ کر گھروں سے باہر نکلیں۔ سوال یہ ہے کہ جہاں قبرستانوں میں میتیں لٹ رہی ہوں، مسجد کے اندر نمازی لٹ رہے ہوں وہاں امام ضامن باندھنے سے بھی کیا ہو گا؟ کراچی کے حالیہ واقعات پر معروف شاعر سلیم عکاس کی ایک نظم یاد آ جاتی ہے جو موجودہ منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے:
گناہ گاروں کے چہرے چھپائے جاتے ہیں
غریب اپنے گھروں سے اٹھائے جاتے ہیں
ہر ایک جرم چھپا مصلحت کے دامن میں
صلیب و دار پہ یاں سر جھکائے جاتے ہیں
جرائم پلتے رہے ہیں سیاسی مندر میں
نمازی جرم عبادت اٹھائے جاتے ہیں
ڈکیتی، بھتہ و اسلحہ ہی شان خدمت ہے
سیاسی بھینٹ میں اب سر چڑھائے جاتے ہیں
وہاں عوام کو حفظ و اماں ملے کیسے
جہاں محافظ ملت ہی مارے جاتے ہیں
وطن پرست فکر اور فلسفہ عکاس
ہمارے دیس میں پھانسی چڑھائے جاتے ہیں