شوقِ مطالعہ سے تخیل کی بلند پرواز تک
آپ موئن جو دڑو کے بارے میں کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں اور چشمِ تصور سے اس کے گلی کوچوں کو دیکھ رہے ہیں تو کتنا مزہ آتا ہے
راجر بیکن کا قول ہے کہ جہاں دوست احباب کی غم خواری ناکام رہتی ہے، وہاں کتاب سکونِ دل کا کام دیتی ہے۔ ہم بچپن سے اپنے بڑوں سے یہ سنتے آئے ہیں کہ کتابوں سے دوستی کرو، کتابیں پڑھو تاکہ تمھارےعلم میں، تمھاری معلومات میں اور اردگرد پھیلی دنیا کے بارے میں تمھاری سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو۔
اور یہی وجہ تھی کہ ہمارے گھر میں ہمیشہ سے کتابوں کی خریداری کو سراہا گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ سال کے آخر میں میرے والد صاحب کو ان کی کمپنی سے بونس ملتا تھا اور پھر وہ مجھے کتابوں کی دکان پر لے کر جاتے تھے جہاں مجھے مکمل آزادی ہوتی تھی کہ جوچاہوں، جتنی چاہوں کتابیں خریدوں۔ اسی طرح گرمیوں کی چھٹیوں میں جب ہم پاکستان جاتے تھے تو میری والدہ دیگر تمام خریداریوں کے ساتھ ساتھ میرے لئے خاص طور پر جون جولائی میں شائع ہونے والے، بچوں کے تمام رسالے خریدلیا کرتی تھیں، اور پھر پورے سال یہ کتابیں اور رسالے میرے زیر مطالعہ رہتے تھے۔ اسی طرح ہمارے گھر میں فیروز سنز کا شائع کردہ بچوں کا انسکلوپیڈیا، میری پہلی تصویری اٹلس، آکسفورڈ ڈکشنری، فیروز اللغات و دیگر کتب نہ صرف موجود تھیں بلکہ باقاعدگی سے استعمال بھی ہوتی تھیں۔
یہ تمام یادداشتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ میرے والدین نے مجھے مطالعے کی جو عادت ڈالی، اس نے مجھے کئی طریقوں سے فائدہ پہنچایا اور کتب بینی کے یہ فوائد میں آپ سب کے سامنے بیان کرنا چاہوں گی۔
سب سے پہلے تو کتابیں پڑھنے سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بات پر آپ یقیناً سوچیں گے کہ یہ سب معلومات تو انٹرنیٹ سے بھی ایک کلک پر میسر ہیں تو پھر کتاب ہی کیوں؟ تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ کتاب وہ ذریعہ معلومات ہے جو سال ہا سال آپ کے پاس محفوظ رہتی ہے۔ آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں اسے پڑھ سکتے ہیں۔ نہ انٹرنیٹ کنکشن کا مسئلہ نہ بجلی آنے جانے کا ڈر۔
دوسری بات یہ کہ کتابیں نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ آپ کے تخیل کی پرواز کو بھی بلند تر کرتی ہیں۔ ذرا سوچیے کہ آپ ''موئن جو دڑو'' کے بارے میں کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں؛ اور چشمِ تصور میں آپ اس کے گلی کوچوں کی سیر کررہے ہیں تو کتنا مزہ آتا ہے۔ یقین مانیے کہ گزرے زمانوں کی تہذیبوں٬ ان میں بسنے والے لوگوں کے بارے میں جاننے اور ان کے رہن سہن کے طور طریقوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مطالعے کا شوق جہاں آپ کو دیس دیس کی سیر کرواتا ہے وہاں گفتگو کےلیے آپ کو بےشمار موضوعات بھی فراہم کرتا ہے اور آپ لگے بندھے موضوعات سے ہٹ کر بھی دوسرے موضوعات پر بات کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ جیسے کہ تاریخ، جغرافیہ، سیاست، آثارِ قدیمہ وغیرہ۔ یہ نہیں کہ جیسے آج کل کا رواج بن گیا ہے کہ لوگوں کو بس اتنی ہی معلومات ہیں جو وہ مارے باندھے اسکول کالج میں پڑھ لیتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کسی موضوع پر بات کرو تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔
آخر میں بس یہ ہی کہوں گی کہ برائے مہربانی کنویں کے مینڈک بنے نہ رہیے، اس کنویں سے باہر نکلیے اور دنیا کو ایکسپلور کیجیے۔ اتنی حسین دنیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہی بنائی ہے۔ اس کے بارے میں جانیے اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آج کل کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں تو جس طرح آپ دوسری چیزوں کےلیے بجٹ بناتے ہیں، کتابوں کےلیے بھی بجٹ بنائیے۔ سال میں کم از کم ایک کتاب ضرور خریدیئے اور زیادہ نہیں تو روزانہ صرف ایک صفحہ کسی کتاب کا ضرور پڑھیے۔
یقین جانیے کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب آپ کو کتاب پڑھے بغیر نیند نہیں آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اور یہی وجہ تھی کہ ہمارے گھر میں ہمیشہ سے کتابوں کی خریداری کو سراہا گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ سال کے آخر میں میرے والد صاحب کو ان کی کمپنی سے بونس ملتا تھا اور پھر وہ مجھے کتابوں کی دکان پر لے کر جاتے تھے جہاں مجھے مکمل آزادی ہوتی تھی کہ جوچاہوں، جتنی چاہوں کتابیں خریدوں۔ اسی طرح گرمیوں کی چھٹیوں میں جب ہم پاکستان جاتے تھے تو میری والدہ دیگر تمام خریداریوں کے ساتھ ساتھ میرے لئے خاص طور پر جون جولائی میں شائع ہونے والے، بچوں کے تمام رسالے خریدلیا کرتی تھیں، اور پھر پورے سال یہ کتابیں اور رسالے میرے زیر مطالعہ رہتے تھے۔ اسی طرح ہمارے گھر میں فیروز سنز کا شائع کردہ بچوں کا انسکلوپیڈیا، میری پہلی تصویری اٹلس، آکسفورڈ ڈکشنری، فیروز اللغات و دیگر کتب نہ صرف موجود تھیں بلکہ باقاعدگی سے استعمال بھی ہوتی تھیں۔
یہ تمام یادداشتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ میرے والدین نے مجھے مطالعے کی جو عادت ڈالی، اس نے مجھے کئی طریقوں سے فائدہ پہنچایا اور کتب بینی کے یہ فوائد میں آپ سب کے سامنے بیان کرنا چاہوں گی۔
سب سے پہلے تو کتابیں پڑھنے سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بات پر آپ یقیناً سوچیں گے کہ یہ سب معلومات تو انٹرنیٹ سے بھی ایک کلک پر میسر ہیں تو پھر کتاب ہی کیوں؟ تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ کتاب وہ ذریعہ معلومات ہے جو سال ہا سال آپ کے پاس محفوظ رہتی ہے۔ آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں اسے پڑھ سکتے ہیں۔ نہ انٹرنیٹ کنکشن کا مسئلہ نہ بجلی آنے جانے کا ڈر۔
دوسری بات یہ کہ کتابیں نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ آپ کے تخیل کی پرواز کو بھی بلند تر کرتی ہیں۔ ذرا سوچیے کہ آپ ''موئن جو دڑو'' کے بارے میں کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں؛ اور چشمِ تصور میں آپ اس کے گلی کوچوں کی سیر کررہے ہیں تو کتنا مزہ آتا ہے۔ یقین مانیے کہ گزرے زمانوں کی تہذیبوں٬ ان میں بسنے والے لوگوں کے بارے میں جاننے اور ان کے رہن سہن کے طور طریقوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مطالعے کا شوق جہاں آپ کو دیس دیس کی سیر کرواتا ہے وہاں گفتگو کےلیے آپ کو بےشمار موضوعات بھی فراہم کرتا ہے اور آپ لگے بندھے موضوعات سے ہٹ کر بھی دوسرے موضوعات پر بات کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ جیسے کہ تاریخ، جغرافیہ، سیاست، آثارِ قدیمہ وغیرہ۔ یہ نہیں کہ جیسے آج کل کا رواج بن گیا ہے کہ لوگوں کو بس اتنی ہی معلومات ہیں جو وہ مارے باندھے اسکول کالج میں پڑھ لیتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کسی موضوع پر بات کرو تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔
آخر میں بس یہ ہی کہوں گی کہ برائے مہربانی کنویں کے مینڈک بنے نہ رہیے، اس کنویں سے باہر نکلیے اور دنیا کو ایکسپلور کیجیے۔ اتنی حسین دنیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہی بنائی ہے۔ اس کے بارے میں جانیے اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آج کل کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں تو جس طرح آپ دوسری چیزوں کےلیے بجٹ بناتے ہیں، کتابوں کےلیے بھی بجٹ بنائیے۔ سال میں کم از کم ایک کتاب ضرور خریدیئے اور زیادہ نہیں تو روزانہ صرف ایک صفحہ کسی کتاب کا ضرور پڑھیے۔
یقین جانیے کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب آپ کو کتاب پڑھے بغیر نیند نہیں آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔