سنسرز

ہر مسلک اور مذہب کے قواعد الگ ہوسکتے ہیں مگر تعلیمات میں اشتراک ہے

نظام قدرت بہت مربوط، منظم، ہماری نظر میں پیچیدہ مگر قدرت کے نصاب میں منضبط اور طے شدہ ہے۔ ایک چیونٹی کو دیکھیے حالانکہ اب تحقیق کے رو سے ایسے جراثیم بھی آچکے ہیں جو انسانی آنکھ براہ راست دیکھنے سے قاصر ہے۔

اگر آپ جائزہ لیں کیونکہ جو انسانی آنکھ کے جائزے میں کم سے کم آئے گا انسان اس پر ہی اعتبار کرے گا تو آپ دیکھیںگے کہ اس مخلوق میں سب کچھ ''امر'' کردیاگیا ہے زمین پر تو آپ کو یہ چلتی ہوئی نظر نہیں آئے گی اگر بیٹھ کر نہ دیکھا جائے۔اس کے سارے کام چند ایک کو چھوڑ کر وہی ہیں جو ہم کرتے ہیں مگر مقاصد اور اہداف الگ ہیں۔ ہم سے ان کی لڑائیاں ہماری جنگوں سے مختلف ہیں اور ان کے مقاصد میں قدرت کی کوئی حکمت ضرور نظر آتی ہے۔

ہم اسے نہیں جانتے شاید اب نیشنل جیوگرافک نے کچھ حد تک واضح کردیا ہے اور یہ بھی حتمی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ آپ چیونٹی کا ذہن نہیں پڑھ سکتے وہ صرف قدرت کا کام ہے اور بے شک اس سے بہتر جاننے والا کوئی نہیں۔

اب کام کو دیکھیں تو پہلے سماجی درجہ بندی اس میں ہے۔ کارکن سے لے کر ملکہ تک مگر انتشار نہیں ہے اتحاد ہے وہاں عدالت بھی ہوگی اور فیصلے بھی صادر ہوتے اور عمل در آمد ہوتا ہوگا مگر مجرم بچ نکلنے کے داؤ پیچ استعمال نہیں کرسکتا یہ خلاف قانون ہے۔

ان کا مال غذا ہے انسان کے مال ابھی انجام غذا ہی ہے اب وہ آنکھوں سے لے کر پیٹ تک کی غذا ہوسکتی ہے۔ جمع کرنے کی فطرت چیونٹی کو ودیعت کردی گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں غذا کی تقسیم کا نظام ہے اور جمع کرنے میں ہر ایک کا کردار ہے کیونکہ وہ جمع سب کے لیے ہے تاکہ سب میں ایک نظام کے تحت تقسیم کیا جاسکے اور ایسے حالات میں جب یہ کام موسم کی وجہ سے نہ ہوسکے تو ذخیرہ سب کو زندہ رکھنے کے کام آئے کتنا اور کیوں جمع کرنا ہے یہ اس سوال کا جواب ہے۔ہماری ذخیرہ اندوزی کا میں کیا کہوں! پڑوس میں لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہوں کوئی پوچھتا نہیں اگایا جاسکتا کہ نوٹ زمین میں بود و کل فصل اگ آئے گی۔ اس کا ایک طریقہ ہے اور منصفانہ ہے مگر اس دیمک زدہ معاشرے میں لفظ منصفانہ محض ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔

کوشش تو نفس مضمون کو ہی واضح کرنے کی ہوتی ہے مگر ارد گرد کے حالات قلم کو مائل بہ احتجاج کردیتے ہیں۔ ایک بہت تازہ وارد چیونٹی کیونکہ بچپن تو چیونٹی کا ہوتا نہیں اسے تو فوراً پیدا ہوتے ہی کام پر لگ جانا ہوتا ہے اپنے منصب کے مطابق تو اس کے قریب اگر آپ کوئی بھی گرم چیز لے جائیں وہ فوراً اپنے آپ کو اس سے دور کرلے گی۔پانی ڈال دیں وہ رک جائے گی۔ پانی کا زور اور اس کی جسامت کے کم ہونے کا انتظار کرے گی اور پھر اپنے رستے پر جس کام کو کرنا ہے اس کے لیے روانہ ہوجائے گی۔ انسان کے بچے کے ساتھ یہ کام آپ کریں تو وہ ہاتھ جلالے گا یہاں نظام دوسرا ہے، یہاں ایک دوسرے پر انحصار کا نظام ہے بچے تو اس سے بچانے کا ذمے دار نگراں ہے چاہے کوئی ہو ماں باپ یا اتالیق یا نوکر۔

تو اس ایک قدرت کی مخلوق سے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں اور جو اشرف المخلوقات نہیں ہے ۔ اشرف المخلوقات کو بہت سبق مل سکتے ہیں جو وہ نہیں سیکھے گا کم از کم پاکستان میں تو نہیں سیکھے گا۔ اور ٹرمپ اور مودی کی صورت دنیا میں عذاب ہیں ان کے یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ انسان تو انسان ہے مذہب بعد میں اس کی شناخت ہے۔یہ سب یا ہے۔ یہ ہے قدرت کا نظام جو اس نے اپنی مخلوقات کے لیے مقرر کیا ہے۔ جانوروں میں سے ہی جانور ایک دوسرے کو کھاجاتے ہیں وہ غذا میں ان کی جو ان کو کھاجاتے ہیں اور ان کے لیے گھاس اور دوسری چیزیں ہیں وہ گوشت خور نہیں ہیں جنگل میں صفائی کے لیے ''گدھ'' پیدا کیے ہیں حالانکہ وہ صرف جنگل کے لیے تھے مگر انسانوں نے خود اپنے اندر پیدا کرلیے یہ ایک جملہ معترضہ سمجھئے گا۔


اس سب میں جسے انگریز نے ''ایکو سسٹم'' کا نام دیا ہے اور اس سے پہلے ہمارے راہ نماؤں نے دنیا میں توازن کا نظام قرار دیا ہے جنگل میں بھی توازن ضروری ہے شیر یا کوئی اور صرف کھان کے لیے شکار کرے گا جمع کرنے کو نہیں کیونکہ وہ چیونٹی نہیں ہے۔چیونٹی صرف اپنے لیے غذا کا بندوبست نہیں کرے گی کیونکہ وہ شیر نہیں ہے یہ ایک منظم طریقہ کار ہے دیکھتے چلے جایئے اور حیران ہوتے جایئے کیونکہ اس نے تو کہہ دیا ہے کہ جاؤ تلاش کرو، تحقیق کرو اور یہ حکم جاری حکم ہے قیامت تک کا حکم۔

انسان کو عقل دے کر اپنے لیے بہتر فیصلہ کرنے کا اختیار اور عمل کی قوت عطا فرمائی ہے ہم صرف انسان کی بات کررہے ہیں مذہب زیر بحث نہیں ہے تو انسان کو اﷲ تعالیٰ نے عقل دے کر یا Godنے عقل دے کر یا دیوتا نے عقل دے کر جو جس طرح ذات مکمل مانتا ہے اس طرح سوچ لیں کہ انسان کو عقل دے کر اختیار دے کر ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس کی قوت فیصلہ کا امتحان ہے۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ ہم دفن ہوجائیں، جلادیے جائیں، پانی میں بہا دیے جائیں، چیل کوؤں کی خوراک بنادیے جائیں، تابوت میں ہوں سوٹ کے ساتھ یا کفن میں ہوں چند گز کپڑے کے ساتھ ہمارا کوئی نہ کوئی انجام طے ہے۔ اب رسم و رواج اور اپنی اپنی شریعت اور طریقہ کار کے مطابق یہ سب کچھ ہے۔

ہر مسلک اور مذہب کے قواعد الگ ہوسکتے ہیں مگر تعلیمات میں اشتراک ہے کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی حد تک دو اصول تو ہر جگہ ہیں، خیر و شر اور عمل یعنی سب نے بتایا ہے کہ اچھا کیا ہے برا کیا ہے اور نتیجہ عمل کا قراردیا ہے کوئی بھی اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ طے شدہ ہے۔

اس کے لیے قدرت نے انسانوں میں سینسر لگاتے ہیں دوسرے مخلوقات کو ''امر'' کردیا ہے یہ سنسر ہر لمحہ انسان کو خبردار کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ڈائرکشن کو درست کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس کے راستے کو واضح اور صاف دکھاتے رہتے ہیں۔

مگر ہوس اور لالچ جب تک انسان تابوت میں یا کفن میں ''قبر'' تک تک نہ پہنچ جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ ان سنسرز کو ناکام کرکے اپنی امن مانی کرتا ہے اور آخر کار اپنی ہی قبر کے سرہانے کھڑا گزرے وقت اور اپنے عمل کا ماتم کرتا رہتا ہے۔یہ میں بھی سوچ رہا ہوں، ججی چاہے تو آپ بھی سوچیے کہ اپنے عمل سے دنیا کو جنت بناسکنے والا انسان ایک چیونٹی جتنا بھی کام نہ کرپایا اور دنیا کو محض ایک 2 خانہ سمجھ کر اپنے آپ پر نازاں رہا۔

جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریںگے جام و پیمانہ مجھے
Load Next Story