کرپشن مجبوری یا ضرورت

بعض محکموں کی قطاروں میں رشوت دے کر سہولت تو نہیں ملتی مگر جاننے والے متعلقہ عملے کی وجہ سے سہولت مل جاتی ہے

آج معاشرے میں ہم جس مقام پر ہیں وہاں کرپشن کو عوام کی اکثریت برا نہیں سمجھتی بلکہ وہ لوگ کم ہی ہیں جو کرپشن کو برا بلکہ گناہ سمجھتے ہیں جب کہ ملازمت پیشہ افراد تو کرپشن کو مجبوری قرار دیتے ہیں اور کرپٹ لوگ کرپشن کے ذریعے اپنی ضروریات خواہ وہ ناجائز ہی ہوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ چاہیں تو اپنی غیر ضروری اشیا کم کرکے کرپشن سے بچ سکتے ہیں اور اب اگر وہ ایسا کرنا چاہیں تو کر نہیں سکتے اور کر لیں تو انھیں حاجی ثنا اللہ بن جانے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور ان کی تعریف کی بجائے ان پر تنقید کی جاتی ہے۔

کرپشن کا سب سے اہم گڑھ ہمارے تمام سرکاری ادارے ہیں جن میں پہلے محکمہ تعلیم اور ڈاکخانوں کو کرپشن سے مبرا سمجھا جاتا تھا اور آج کے دور میں محکمہ پولیس کو سب سے کرپٹ سرکاری ادارہ قرار دیا جاتا ہے جب کہ متعدد سرکاری ادارے اپنی کرپشن میں پولیس کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں جب کہ نچلی سطح پر انصاف دینے والی عدلیہ میں کرپشن کا اعتراف تو اعلیٰ سطح کی عدلیہ کی طرف سے مسلسل کیا جا رہا ہے مگر سدباب ہوتا کہیں نظر نہیں آتا۔

اب محکمہ تعلیم، صحت، بلدیات، مالیات، ریونیو، آبپاشی، مواصلات، قانون، داخلہ کے بعض صوبائی محکموں کے بعد وفاقی محکمے ایسے بھی ہیں جن سے عوام کا تعلق قریبی ہے ویسے تو ہر شریف شخص ہر سرکاری محکمے سے دور ہی رہنا چاہتا ہے مگر کاموں کے سلسلے میں ایسا ممکن نہیں رہا اور نادرا جیسے اداروں میں آکر خوار ہونا اب عام آدمی کی بھی مجبوری بنادیا گیا ہے۔ بینک پہلے لوگوں کی خوشامد کرکے اکاؤنٹ کھلواتے تھے لیکن اب بینکوں میں جاکر نیا اکاؤنٹ کھولنا آسان رہا ہے نہ بینکوں کے باہر لگی قطاروں سے محفوظ رہنا ممکن رہا ہے۔

جب سے یوٹیلیٹی بل جمع کرانے کی غیر سرکاری سہولت میسر آئی ہے بینکوں کے باہر رش کم ہوا ہے مگر بعض سرکاری معاملات میں بینکوں سے ہی رجوع کرنا پڑتا ہے جہاں قطار میں لگنے سے بچنے والے وہاں موجود ایجنٹوں کو رشوت دے کر چالان جلد جمع کرا لیتے ہیں۔ پاسپورٹ بنوانے کے لیے رشوت دے کر وقت بچا لیا جاتا ہے مگر بعض محکموں کی قطاروں میں رشوت دے کر سہولت تو نہیں ملتی مگر جاننے والے متعلقہ عملے کی وجہ سے سہولت مل جاتی ہے مگر رشوت کے لیے دیگر طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن پر عمل سے وقت کی بچت کی جاسکتی ہے۔ حکومت کا ہر محکمہ رشوت وصول کرنے کے طریقے ایجاد کرلیتا ہے اور اب کسی بھی سرکاری محکموں میں رشوت کے بغیر کوئی جائز کام جلد نہیں ہوتا اور غیر قانونی کام مطلوبہ رشوت دے کر فوری طور پر کرا لیے جاتے ہیں۔

رشوت ہماری رگوں میں اتنی سرائیت کرچکی ہے کہ کسی بھی جائز کام کے ہو جانے پر حیرت ہوتی ہے کہ بغیر رشوت یہ کام کیسے ہوگیا اور ایسے ہی جائز کام کے لیے رشوت نہ دینے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور اکثر سرکاری محکموں میں ناجائز آمدنی کو اب رشوت نہیں بلکہ مٹھائی کہا جاتا ہے اور کام ہوجانے پر نوٹوں کی مٹھائی اپنا حق بتائی جاتی ہے۔

بڑے شہروں میں مکانوں کی تعمیر جائز طور پر کرانے والوں کو چھت بھرائی کے موقعے پر علاقہ پولیس کی مختلف پارٹیوں کو مکان بنوانے کی خوشی میں مٹھائی دینا مجبوری ہے کیونکہ چھت بھرنے والی مشین، روڑی، بجری سڑکوں اور راستوں پر ہی چند گھنٹوں کے لیے رکھی جاتی ہے مگر مٹھائی نہ ملنے پر راستہ بند کرنے کے جرم میں مزدور اٹھا لیے جاتے ہیں۔ریتی بجری کا اسٹاک گھروں میں نہیں کیا جاسکتا اور تعلق نہ ہونے کے باوجود پولیس گھر بنانے والوں سے جبری مٹھائی وصول کرلیتی ہے۔


شناختی کارڈ گم ہوجائے یا سرکاری کاغذات بلکہ اب تو مکان کرائے پر دینے کی انٹری بھی پولیس کی کمائی کا ذریعہ بنادی گئی ہے اور کوئی ایسا راستہ نہیں چھوڑا گیا جہاں رشوت کے بغیر جائز کام بھی ممکن ہوسکے۔ اب سرکاری ملازمتیں میرٹ اور صلاحیت سے نہیں بلکہ اعلیٰ ترین سفارش یا لاکھوں روپے رشوت دے کر ہی حاصل کی جاسکتی ہیں اور سرکاری تنخواہ میں دی گئی رشوت وصول تو عمر بھر میں بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے سرکاری ملازمت ملتے ہی رشوت وصولی کے ذرایع تلاش کرنا بھی مجبوری ہے کیونکہ ادھار رقم لے کر لی گئی سرکاری ملازمت سے قرضہ بھی واپس کرنا پڑتا ہے۔

سرکاری ملازمت میں جو کمائی اور سہولتیں ہیں وہ اور کسی بھی کاروبار میں ممکن نہیں۔ اسی لیے ملک میں نجی ملازمتوں کے حصول پر توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ وہاں صلاحیت دیکھی جاتی ہے اور سرکاری محکموں میں سفارش اور رشوت کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں قابلیت ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ سرکاری اداروں میں لوگوں کی دی گئی درخواستوں کے ساتھ نوٹوں کے پہیے نہ لگائے جائیں تو وہ آگے نہیں بڑھتی جس کی وجہ سے ہر سرکاری ادارے میں رشوت عروج پر پہنچ چکی ہے اور سرکاری ملازمین رشوت لینے کا جواز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اپنی کم تنخواہ کو قرار دیتے ہیں جو ایک حد تک درست بھی ہے۔

حکومت سال میں ملازمین کی تنخواہ میں اگر دس فیصد اضافہ کرتی ہے تو سال میں پچیس فیصد اضافہ بھی کردیتی ہے تو ایسی تنخواہ میں اضافہ بے کار ہوجاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کو مہنگائی کی اہم وجہ کہا جاتا ہے جب کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کو اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے دنیا میں قیمتیں کم بھی ہوں تو پاکستان میں کم نہیں ہوتیں۔

کرپشن کہیں مجبوری ہے تو کرپشن کو ضرورت بھی بنالیا گیا ہے اور خاص طور پر سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں کی بجائے مہنگے نجی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں اور بچوں کی اچھی تعلیم دلانے کو رشوت کا حصول اپنی ضرورت قرار دیتے ہیں۔

اصل میں رشوت جتنی زیادہ ملتی ہے اس کو خرچ کرنے کے لیے اپنی ناجائز ضروریات بڑھا لی جاتی ہیں جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا رہتا ہے اور پھر اپنی ناجائز ضروریات کو مجبوری قرار دیا جاتا ہے۔ اب یہ بات درست نہیں رہی کہ اوپر رشوت نہ ہو تو نیچے بھی نہیں ہوتی ۔ اعلیٰ سرکاری افسران کو مراعات بھی بے حد حاصل ہیں جب کہ نیچے یہ مراعات محدود ہیں اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے رشوت کا حصول اپنا حق سمجھتے ہیں۔

کرپشن نجی شعبے اور کاروبار میں بھی بے انتہا ہے۔ ملاوٹ سنگین صورت حال اختیار کرچکی ہے۔ تاجر ناجائز قیمتیں بڑھاتے رہتے ہیں انھیں کوئی روکتا نہیں۔ غیر ملکی تو کیا ملکی اشیا پر قیمتیں درج نہیں ہوتیں جو منہ مانگے دام فروخت ہوتی ہیں۔ لوگ ٹیکس بچانے کے لیے خود رشوت دیتے ہیں۔ ناجائز کاموں میں منہ مانگی رشوت ملتی ہے اور کرپشن اب مجبوری یا ضرورت سے زیادہ فیشن بن چکی ہے جس کی ذمے دار حکومت ہی نہیں ہم سب ہیں۔
Load Next Story