قذافی اسٹیڈیم ناقابل فراموش لمحات کا گواہ

یہ دنیا کا شاید واحد اسٹیڈیم ہوگا جسے کرکٹ کے علاوہ ہاکی اور دیگر کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے


Mian Asghar Saleemi September 12, 2017
آج لاہور کی فضائیں ایک مرتبہ پھر قومی ترانوں اور ملی نغموں کے ساتھ گونجیں گی۔ فوٹو : فائل

صوبائی دارالحکومت کی معروف شاہراہ فیروزپور روڈ پرکلمہ چوک سے سفر کرتے ہوئے نہر کی طرف آئیں تو دائیں جانب آپ کو اونچی اور درمیانی عمارتوں پر محیط بڑا سا علاقہ نظر آئے گا جسے نشترسپورٹس کمپلیکس کہتے ہیں۔ اسی ایریا میں دنیا کا پانچواں بڑا کرکٹ اسٹیڈیم قذافی اسٹیڈیم موجود ہے جسے شرفاء کے کھیل کے علاوہ متعدد دوسرے کھیلوں کے انعقاد کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔

یہی اسٹیڈیم کرکٹ کے متعدد عالمی ریکارڈز، کھلاڑیوں کی کھلم کھلا بغاوتوں، لڑائیوں، پی سی بی حکام کی من مانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کا چشم دید گواہ بھی ہے۔ یہ دنیا کا شاید واحد اسٹیڈیم ہوگا جسے نہ صرف کرکٹ کے علاوہ ہاکی، ریسلنگ، فٹبال اور والی بال کے مقابلوں کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے بلکہ اسے میلوں ٹھیلوں، ریچھ کتوں کی لڑائیوں، سیاسی جلسوں، میوزک کی تقریبات اور اجتماعی شادیوں کی میزبانی کا موقع بھی مل چکا۔ سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے پیٹرپیتھرک نے 9 اکتوبر 1976ء کو پاکستان کے خلاف3 گیندوں پر 3 وکٹیں حاصل کیں۔

6مارچ 1999ء کو وسیم اکرم نے سری لنکا کے خلاف یہ کارنامہ سرانجام دیا، محمد سمیع نے بھی آئی لینڈرز کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جاوید میانداد نے1976ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف آصف اقبال کے ساتھ مل کر پانچویں وکٹ کی شراکت میں 281 رنز بنانے کا منفرد ریکارڈ بنایا، بعد ازاں گرین شرٹس نے 2002ء میں اسی گراؤنڈ میں کیویز کے خلاف ہی324 رنز اور ایک اننگز سے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ دنیا کے 3 بولرز کو اسی اسٹیڈیم میں3 بار ہیٹ ٹرکس کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

تاریخی نوعیت کے اس اسٹیڈیم میں چیئرمین پی سی بی کی پرکشش کرسی کے لیے عہدیداروں میں جاری کشمکش اور وی آئی پی انکلوژر میں مالی بے ضابطگیوں کے راز بھی اس کے سینے میں دفن ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم جھارا اور انوکی کے مقابلہ کا بھی چشم دید گواہ ہے کیونکہ یہی تاریخی دنگل بعد میں اپنے وقت میں طاقت کے پہاڑ زبیر عرف جھارا کی زندگی کے اختتام کی کہانی بھی بن گیا۔

اسٹیڈیم کی کہانی 1951-52ء سے شروع ہوتی ہے جب اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ سردار عبدالرب نشتر نے اس اسٹیڈیم کی بنیاد رکھی، مینار پاکستان کی تعمیر کے خالق نصیرالدین مروت نے اسٹیڈیم کے منصوبے کو ڈیزائن کیا جبکہ اس کی تعمیر میاں عبدالخالق 1959ء میں مکمل کی، ابتدامیں اس اسٹیڈیم کے کئی نام رکھے گئے، اولمپک سٹیڈیم، لاہور اسٹیڈیم کے بعد نام کی تبدیلیوں کا سلسلہ قذافی اسٹیڈیم تک آکر اختتام کو پہنچا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قذافی اسٹیڈیم کا نام دیا۔

اگلے برس اسلامی سربراہی کانفرنس کا میزبان لاہور بنا تو دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کا تاریخی استقبال کیا گیا، اس کانفرنس کے بعد اسٹیڈیم میں جلسے کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں کرنل قذافی مہمان خصوصی تھے، ذوالفقار بھٹو اور کرنل قذافی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم عوام سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس اہم اور خاص موقع پر خصوصی طور پر چاندی کا ماڈل اور نیا نقشہ بنوایا گیا تھا، جس پر عمل ہوتا تو موجودہ اسٹیڈیم سے کہیں زیادہ تماشائیوں کی گنجائش ہوتی، کیوریٹر حاجی بشیر نے یہ نقشہ اور ماڈل گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کو پیش کیا، انہوں نے اس وقت کے سپورٹس بورڈ پنجاب کے سربراہ فضل محمود کے حوالے کیا جہاں سے یہ ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا جنہوں نے یہ ماڈل کرنل قذافی کو پیش کیا۔

ورلڈ کپ 1987ء اور عالمی کپ1996ء میں اس اسٹیڈیم نے میزبانی کی نئی مثالیں قائم کیں۔ 1987ء کے ورلڈ کپ کو کامیاب بنانے میں بورڈ کے سربراہ جنرل صفدر بٹ اور سیکرٹری اعجاز بٹ کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1996ء کے عالمی کپ سے ایک سال پہلے ایک نئے اسٹیڈیم کا منصوبہ بنایا گیا ، ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی، جسٹس نسیم حسن شاہ کے ساتھ شاہد رفیع سیکرٹری تھے۔

اس مجوزہ اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے بہت زیادہ گنجائش رکھی گئی اور ساتھ کلب ہاؤس بھی بنانے کا فیصلہ ہوا لیکن حکومت بدلنے کے ساتھ یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اسی جگہ اب پنجاب اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا، پروجیکٹ شروع نہ ہو سکنے کی وجہ سے 1996 ورلڈکپ کے لیے پرانے قذافی اسٹیڈیم ہی کی نیر علی دادا کی نگرانی میں تزئین و آرائش کی گئی، اس کے گرد 71 دکانیں بنائی گئیں جو لیز پر دے دی گئیں۔

اسٹیڈیم کے اندر انکلوژرز میں کرسیاں لگا دی گئیں جس کی وجہ سے اس میں تماشائیوں کی تعداد مزید کم ہو کر 25 ہزار تک رہ گئی، فلڈ لائٹس لگائی گئیں اور ان کی روشنیوں میں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان مارچ 1996ء میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ فائنل نے خوب سماں باندھ دیا، چند برس قبل کروڑوں روپے کی لاگت سے وی آئی پی انکلوژر مکمل کیا گیا جسے گزشتہ برس پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کے فائنل کے موقع پر میڈیا کے لیے کھولا گیا۔

ورلڈ کپ2003ء میں شرکت کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کو موسیقی کی رنگارنگ تقریب سجا کر الوداع کیا گیا، بعد ازاں اسی اسٹیڈیم نے وہ ناخوشگوار منظر بھی دیکھا جب تماشائیوں نے گورنر پنجاب اور چیئرمین پی سی بی جنرل(ر) توقیر ضیاء کی موجودگی میں اسٹیڈیم کے جنگلے اکھاڑ ڈالے۔ قذافی اسٹیڈیم اب تک 30 سے زائد بورڈ سربراہ دیکھ چکا ہے جبکہ پاکستان اور غیر ملکی کرکٹرز کی کئی لازوال کارکردگی کے ساتھ کھلی بغاوتوں کا چشم دید گواہ بھی ہے۔

مارچ 2009میں لاہور ٹیسٹ کے دوران بعض شدت پسندوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا جس میں کپتان جے وردنے سمیت8 کھلاڑی زخمی ہوئے، اس سانحہ کی وجہ سے قذافی اسٹیڈیم سمیت ملک بھر کے گراؤنڈز سونے پڑ گئے تاہم زمبابوے کرکٹ ٹیم کی لاہور آمد سے عالمی مقابلوں کی یہ رونقیں دوبارہ اس وقت بحال ہوئیں جب 22 مئی 2015 کو 6سال کے طویل عرصہ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا لیکن بھارت، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت دنیا کی بڑی ٹیم پاکستان میں آنے کے لیے تیار نہ ہو سکی۔

غیر ملکی کرکٹرز کے انکار کے بعد پاکستان سپر لیگ کا پہلا ایڈیشن بھی متحدہ عرب امارات میں کروانا پڑا، بعد ازاں پاکستان آرمی کے ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کے بعد دنیا کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا تو پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ اور موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا، لیگ کا یہ ٹائٹل مقابلہ پی سی بی انتظامیہ اور ہمارے حکومتی اداروں کا ایک طرح سے امتحان تھا جس میں سب امیدوں پر پورا اترے، اب ایک بار تین ٹی20 میچوں کی سیریز پر مشتمل آزادی کپ سیریز کا آغاز آج سے ہو رہا ہے، فاف ڈوپلیسی، ہاشم آملہ سمیت دنیا کے سات ممالک کے ممتاز پلیئرز ورلڈ الیون کا حصہ بننے کے بعد لاہور میں موجود ہیں۔

گراؤنڈ کے اندر میزبان اور مہمان ٹیموں کے کھلاڑی جیت کے جذبہ سے سرشار ہیں تو اسٹیڈیم کے باہر تماشائیوں کا جذبہ بھی قابل دید ہے۔ آج لاہور کی فضائیں ایک مرتبہ پھر قومی ترانوں اور ملی نغموں کے ساتھ گونجیں گی، سیریز کے میچز کے دوران شائقین کھلاڑیوں کے فلک بوس چوکوں اور چھکوں کی برسات میں فلک شگاف نعرے لگاتے اور تالیاں بجاتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کریں گے کہ کرکٹ ہمارا جنون ہے اور کوئی بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی ہمارے اس جنوں میں حائل نہیں ہو سکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں