ترکی نے روس سے طیارہ شکن میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کر لیا
ترکی نے روس سے 2.5 ارب ڈالر مالیت کا ایس 400 اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا ہے
ترکی نے اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روس سے اربوں ڈالر مالیت کا طیارہ شکن میزائل سسٹم کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے۔
ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ ترکی نے روس کے ساتھ ایس 400 اینٹی ایئرکرافٹ میزائل کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے اور کچھ رقم پیشگی ادا بھی کی جا چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی مالیت 2.5 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے۔
ترکی اور روس کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر امریکا اور خاص طور پر یورپی ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آنے کا امکان ہے کیوں کہ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ہے اور نیٹو ممالک کے روس سے تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں آنے والی کشیدگی کے بعد سے ترکی نے روس سے روابط بڑھانے شروع کر دیے ہیں۔
تاہم اس معاہدے کے حوالے سے ترکی اور روس دونوں نے بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کر دیا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ جمہوریہ ترکی کی آزادی کے اصولوں پر بات کرے اور اس کے دفاعی فیصلوں پر تنقید کرے۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ ہم مکمل آزادی کے ساتھ اپنے فیصلے کرتے ہیں، ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے ہر طرح کے اقدامات کریں۔ دوسری جانب روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ملٹری ایڈوائزر ولادی میر کوزہن نے کہا کہ ترکی کے ساتھ ایس 400 میزائلز کی فروخت کا معاہدہ روس کے اسٹریٹیجک مفادات سے مطابقت رکھتا ہے تاہم اس معاہدے پر مغربی ممالک کے ممکنہ رد عمل کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے جو ترکی پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
روس کے مطابق اس کا ایس 400 میزائل دفاعی نظام زمین سے فضاء میں 400 کلو میٹر تک بیک وقت 80 اہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے کیوں کہ وہ ہر ہدف پر دو میزائل داغتا ہے۔
واضح رہے کہ روس نے دسمبر 2015 میں ترکی کی جانب سے طیارہ گرائے جانے کے بعد شام کے شہر لاذقیہ میں واقع روسی فوجی اڈے میں ایس 400 نصب کر دیا تھا۔
ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ ترکی نے روس کے ساتھ ایس 400 اینٹی ایئرکرافٹ میزائل کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے اور کچھ رقم پیشگی ادا بھی کی جا چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی مالیت 2.5 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے۔
ترکی اور روس کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر امریکا اور خاص طور پر یورپی ممالک کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آنے کا امکان ہے کیوں کہ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ہے اور نیٹو ممالک کے روس سے تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں آنے والی کشیدگی کے بعد سے ترکی نے روس سے روابط بڑھانے شروع کر دیے ہیں۔
تاہم اس معاہدے کے حوالے سے ترکی اور روس دونوں نے بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کر دیا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ جمہوریہ ترکی کی آزادی کے اصولوں پر بات کرے اور اس کے دفاعی فیصلوں پر تنقید کرے۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ ہم مکمل آزادی کے ساتھ اپنے فیصلے کرتے ہیں، ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے ہر طرح کے اقدامات کریں۔ دوسری جانب روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ملٹری ایڈوائزر ولادی میر کوزہن نے کہا کہ ترکی کے ساتھ ایس 400 میزائلز کی فروخت کا معاہدہ روس کے اسٹریٹیجک مفادات سے مطابقت رکھتا ہے تاہم اس معاہدے پر مغربی ممالک کے ممکنہ رد عمل کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے جو ترکی پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
روس کے مطابق اس کا ایس 400 میزائل دفاعی نظام زمین سے فضاء میں 400 کلو میٹر تک بیک وقت 80 اہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے کیوں کہ وہ ہر ہدف پر دو میزائل داغتا ہے۔
واضح رہے کہ روس نے دسمبر 2015 میں ترکی کی جانب سے طیارہ گرائے جانے کے بعد شام کے شہر لاذقیہ میں واقع روسی فوجی اڈے میں ایس 400 نصب کر دیا تھا۔