میں اپنے لیڈرز کی تعریف کیوں کروں
ہمارا لیڈر لکھی لکھائی تقریروں پر اکتفاء کر تا نظر آتا ہے۔
لاہور:
میں نے اپنے پچھلے کالم ''برکس اعلامیہ، ہم کہیں تو غلط ہیں؟'' میں لکھا تھا ''نریندر مودی اپنے ایک مخصوص ''ایجنڈے'' میں اس قدر کامیاب ہو رہا ہے کہ اُس نے اپنی قوم کو گرویدہ بنا لیا ہے جب کہ ہماری قیادت نہ جانے کن اندرونی مسائل میں اُلجھی ہوئی ہے کہ اُسے دنیا کی خبر ہی نہیں۔
وزیراعظم مودی کی قیادت میں ہندوستان نے بین الاقوامی قیادت کے ساتھ مضبوط رشتے قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔اور وہ عالمی سیاست میں اپنے حصہ کا رول ادا کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ میں اپنے سیاسی قائدین کو شرم دلانے کے لیے مودی کی مثال ہی دے سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یہ لکھنا ہی تھا کہ میرے چند دوستوں نے مجھ پر تنقید کے تیر چلا دیے،کیا غضب کر دیا! کہ آپ نے مودی بلکہ موذی کے حق میں لکھ دیا۔
میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ شاید میں نے غلط لکھ دیا، پھر اتفاق سے DDنیوز (دوردرشن نیوز) لگایا تو مودی جی برما میں ایک کنونشن سے خطاب کر رہے تھے، جس کا مجمع کم و بیش 30ہزار افراد پر مشتمل تھا ۔ وہ اپنی قومی زبان ہندی میں بات کر رہے تھے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اُس کے ہاتھ میں کوئی لکھی ہوئی تحریر نہیں تھی، میں نے تقریر شروع سے آخر تک سنی اور سوچا کہ شاید انسانیت کی خاطر برمی مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر بھی کہیں کر دیں مگر ایک لفظ بھی انھوں نے برمی مسلمانوں کے لیے نہیں کہا۔ اُن کی تقریر کا شروع سے آخر تک موضوع برما اور بھارت کے تعلقات پر منحصر تھا،تقریر کا جذباتی انداز ایسا تھا کہ حال میں موجود برمی بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ مجھے قطعاََ حیرت نہ ہوئی کہ مودی نے بعد میں یہ کہہ کر برمی مسلمانوں کا ذکر ٹال دیا کہ برما جو کر رہا ہے وہ اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔
چونکہ میں نے اُمید بھی نہیں رکھی تھی کہ مودی مسلمانوں کے لیے کوئی ہمدردی کے الفاظ کہے گا اس لیے مجھے دکھ بھی نہیں ہوا، کیوں کہ دکھ آپ کو اُسی وقت ہوتا ہے جب آپ کسی سے اُمید لگا لیتے ہیں۔ اور نریندر مودی کی یہ ''جاب'' ہے کہ اُس نے عالم اسلام خصوصاََ پاکستان کے خلاف کام کر نا ہے تو اس کام میں اس نے اپنے آپ کو غرق کیا ہوا ہے، وہ ہر پل اپنے قوم کو جواب دہ ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ وہ بھارت کا پہلا سیاستدان ہے جس نے کم عرصے میں زیادہ بین الاقوامی دورے کرکے اپنی معیشت کو مضبوط کیا ہے۔ اور آج انڈیا امریکا، چین، جاپان ، جرمنی ، یوکے اور فرانس کے بعد دنیا کی ساتویں مضبوط اکانومی بن چکا ہے ، جب کہ مودی کے حکومت سنبھالنے سے پہلے اس ملک کا 15واں نمبر تھا۔ جب کہ اس کی سالانہ معیشت کا حجم 2ٹریلین ڈالر یعنی 2000ارب ڈالر ہے۔
میرے دوست کبھی غور نہیں کرتے کہ مودی چین جاتا ہے تو چین پاکستان کے خلاف بات شروع کر دیتا ہے، نریندر مودی امریکا جا تا ہے، امریکا پاکستان کے خلاف پالیسی بنا دیتا ہے۔ مودی یورپ جاتا ہے وہاں کی کمپنیاں جو پاکستان سے مال خریدتی ہیں انھیں ورغلا کر بھارت میں مختلف مراعات دیتا ہے اور وہ کمپنیاں پاکستان سے منہ موڑ لیتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور افسوس در افسوس یہ ہے کہ ہماری قیادت آنکھیں بندکیے ہوئے ہے۔
میں نہ تو مودی کا سپوکس پرسن ہوںاور نہ ہی میرے وطن کے حکمرانوں کی طرح بھارت کے ساتھ ذاتی و تجارتی تعلقات ہیں لیکن صحافت زمینی حقائق کا نچوڑ ہوا کرتی ہے۔ صحافت اور جذبات کادور کا تعلق نہیں ہے۔ اگر آج مودی بھارت میں کامیاب ہے، پیوٹن روس میں کامیاب ہے ، انجیلا مرکل جرمنی میں کامیاب ہے، طیب اردگان ترکی میں کامیاب ہے، جسٹن ٹروڈو کینیڈا میں کامیاب ہے، ژی چنگ پنگ چین میں کامیاب ہے، شنزو ابے جاپان میں کامیاب ہیںاورمائیکل ٹیمر برازیل میں کامیاب ہے تو اس میں کوئی وجہ تو ہوگی۔ جب کہ ہمارے ہاں مسائل کی طویل فہرست ہے ۔کسی نے ملک سنوارا ہے اور نہ ہی کوشش کی ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمارا لیڈر لکھی لکھائی تقریروں پر اکتفاء کر تا نظر آتا ہے۔ حتیٰ کہ ہماری لیڈر شپ کا حال یہ ہے کہ اُس نے اپنی پارٹی کے جلسے سے بھی خطاب کر نا ہوتو سامنے پرچے پر لکھے جملے دہرا رہا ہوتا ہے۔ اپنے من پسند کے لوگوں کو بلا کر تقریریں کر رہا ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کے چند صحافیوں کو جو پہلے ہی اپنے قلم سے شان میں قصیدے لکھ رہے ہوتے ہیں اُن سے میٹینگ کرتے نظر آتے ہیں، ملک 100 ارب ڈالر کے قرضوں تلے دب چکا ہے۔ ان قرضوں میں حکومت نے 39 ارب ڈالر کے تازہ معاہدے کر رکھے ہیں جس سے پاکستان کا آیندہ تین برس میں قرضہ 115.6 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے۔تو ایسے میں میں اپنے وزیر اعظم یا لیڈر کی تعریف کیسے کروں؟
سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ
Domestic Policy can only Defeat, Foreign Policy kill us
حقیقت تو یہ ہے کہ آزادی کی باتیں سنتے لکھتے اور کہتے تو ہمیں 70سال ہو چکے مگر ہم حقیقت سے نظریں چرا کر بہت دور نکل چکے ہیں۔ ہمارے قائدین کو بحران سے نکلنے کے لیے ہوگو شاویز جیسے لیڈروں کی پالیسیوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، جس نے لاطینی امریکا کے ایک غریب ملک وینزویلا کو امریکا کے سامنے لا کر کھڑا کیا، اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔
آپ فیڈل کاسترو اور اس کے چھوٹے بھائی راول کاسترو کو اسٹڈی کر لیں، فیڈل کاسترو نے انقلابی لڑائی کے دوران کیوبن عوام سے وعدہ کیا تھا کہ کاسترو خاندان کی 2لاکھ ایکڑ زمین غریب عوام میں تقسیم کر دوں گا۔ اور انقلاب برپا کرنے کے بعداُس نے عملی طور پر ایسا کر کے بھی دکھایا۔ مہاتیر محمد کو پڑھ لیں جو 1981ء میں ملایشیا ء کے صدر بنے اور 25سال جمہوری حکومت کے فرائض سرانجام دینے کے بعد از خود اپنی مرضی سے اقتدار سے علیحدہ ہو گئے۔ مہاتیر محمد نے جب اقتدار سنبھالا تو ملایشیاء کی فی کس سالانہ آمدنی 300ڈالر تھی۔ جب انھوں نے اقتدار چھوڑا تو اس وقت فی کس سالانہ آمدنی دس ہزار ڈالر تھی۔
مہاتیر محمد نے سب سے پہلے چینی کمیونٹی جو امیر بھی تھی اور اقلیت میں بھی تھی۔ ان کو Convinceکیا کہ پچاس لاکھ Ringgetسے اُوپر کسی بھی فر د کے پاس رقم موجودپائی گئی تو اُسے حکومتی خزانہ میں جمع کر دیا جائے گا۔
مہاتیر محمد کی اس پالیسی نے ملایشیاء کوویلفئر اسٹیٹ بنا دیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ملایشیا غریب تر ہوگیا لیکن مہاتیر محمد نے صاف لفظوں میں کہا کہ ہم ایک قوم ہونے کے ناتے اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو کر دکھائیں گے۔ اور انھوں نے ایسا کر کے بھی دکھایا۔ مشرف کے دور حکومت میں مہاتیر محمد عمران خان کی دعوت پر پاکستان آئے تو ایک صحافی نے اُن سے سوال کیا کہ پاکستان میں بہتری کیسے آسکتی ہے۔ جس پر مہاتیر محمد نے کہا
Right Man at a Right Place
لیکن میرا س کے ساتھ ساتھ یہ ماننا ہے کہ
Right Policy at Right Time
آپ خود اندازہ لگائیں تو دیکھیں کہ حکمران خاندان نے جب سیاست میں قدم رکھا تو وہ کیا تھا اور آج کیا ہے۔یہی حال زرداری خاندان اور دیگر حکمران خاندانوں کا ہے تو پھر میں کیسے اپنے حکمرانوں کی تعریف کروں ، بہر کیف اگر ہم دوسروں کو برا کہتے رہیں گے اور خود کچھ نہ کریں گے اور اوپر سے یہ بھی چاہیں کہ لوگ آپ کی تعریف بھی کریں تو یہ زیادتی ہوگی ، کیوں کہ قوم ہمیشہ جذبے اور کچھ کرنے سے بنتی ہے، ایک اچھی پالیسی ایک نسل کو سنوار دیتی ہے، اس لیے اس وقت ہمیں خوش فہمیوں اور تعریفوں سے نکل کر زمینی حقائق کے مطابق کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔