سنو غور سے سنو
ایسی تبدیل شدہ دنیا جو کر پشن اور لوٹ مار کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے
ISLAMABAD:
جب تک انسان کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی اس وقت تک وہ زمانے اور خود سے الجھتا رہتا ہے اور اپنے اور زمانے کے لیے نئی نئی الجھنیں پیدا کرتا رہتا ہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود ساختہ پیدا کر دہ الجھنیں اس سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہیں اور پھر ان سے مقابلے کی اس میں طاقت نہیں رہتی ہے۔ اس لیے دور اندیشی، دانش مندی، عقل مندی اور آپ کی اور زمانے کی بھلائی اسی میں ہے کہ وقت کے گزرنے سے پہلے ہی بات کو سمجھ لیں اگر نہیں تو پھر اپنے سے زیادہ طاقتور الجھنوں سے مقابلے کے لیے تیار ہوجائیں، اگر ہمارے سابق نااہل وزیراعظم وقت پر بات کو سمجھ لیتے تو نوبت یہاں تک کبھی نہیں آتی اور وہ آج بھی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوتے اور حسرت بھری نگاہوں سے وزیراعظم کی کرسی کو آج نہ تک رہے ہوتے۔
امریکا کے فلسفی جان ڈیوی نے کہا تھا ''ہم صرف اس وقت سوچتے ہیں جب مشکلات کا سامنا کرتے ہیں'' ڈیوی فطرت پسند چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے بہت متاثر تھا جس کی کتاب ''انواع کی ابتداء'' 1859ء میں شایع ہوئی تھی۔ ڈارون نے انسانوں کو ایسی زندہ مخلوق قرار دیا تھا جو فطرت کی دنیا کا ایک حصہ ہے اور دوسرے حیوانوں کی طرح انسان اپنے بدلتے ہوئے ماحول کے تقاضوں کے مطابق ارتقا حاصل کرتا آیا ہے۔ ڈیوی، ڈارون سے یہ تصور بھی لیتا ہے کہ ہم مجموعی طور پرایک ایسا نظام ہیں جو مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے۔
تبدیلی کا یہ عمل آغاز سے آج تک مسلسل کام کر رہا ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے مضمون ''شاعری کا سماجی منصب'' میں ایک پتے کی بات کہی ہے، وہ کہتا ہے ''ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گر دو پیش کی دنیا بدلتی ہے خود بھی بدلتا رہتا ہے۔ مثلاً اب ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا اور ہندؤں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کئی سو سال قبل ہمارے آباؤ اجداد کا تھا۔ یہ ویسا بھی نہیں ہے جیسا ہمارا اپنے باپ دادا کا تھا بلکہ ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے۔''
اگر آج ایلیٹ زندہ ہوتے اور وہ پاکستان کی سیاست پر گہری نظریں گاڑھے ہوئے ہوتے تو انھیں اپنی کہی گئی بات کی خود ہی تردید کرنا پڑجاتی۔ اس لیے کہ پوری دنیا بدل گئی لوگ بدل گئے اور مسلسل بدل رہے ہیں لیکن ماشاء اللہ الحمد اللہ ہمارے حکمران نہ تو بدلے ہیں اور نہ ہی ان کا بدلنے کاکوئی ارادہ ہے وہ سالوں پہلے بھی ایسے ہی تھے اور سالوں بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ سالوں سے خود سے اور زمانے سے الجھتے ہی آرہے ہیں، انھوں نے کبھی بھی نا سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے عجیب وغریب قسم کی نفسیات رکھنے والے حکمرانوں سے ہمیں پالا پڑا ہوا ہے مزے کی بات یہ ہے وہ سارا وقت اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ساتھ کبھی بھی دوسرے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہ ہوں اور سماج اسی طرح سے مکمل جامد اور منجمد رہے جیسا کہ ہے وہ یہ سوچنا تک گواراہ نہیں کرتے ہیں کہ ہم سب ایک تبدیل شدہ دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔
ایسی تبدیل شدہ دنیا جو کر پشن اور لوٹ مار کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو بد اعمالیوں اور بدعنوانیوں کو کسی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو آج شفافیت، کرپشن سے پاک سماجوں کی عزت کرتی ہے جو سماج میں انصاف برداشت، رواداری اور قانون کی حکمرانی پسند کرتی ہے جو عقل وشعوروفکر اور سوچ کی حاکمیت چاہتی ہے جو مسائل اور الجھنوں سے پاک سماجوں کے لیے دن رات کام کررہی ہے، ایسے سماجوں کے لیے جہاں انسانوں کو دیوتاؤں کا درجہ حاصل ہو۔
یاد رکھیں تبدیلی کو کوئی کسی صورت نہیں روک سکتا ہے میرے حکمرانو تمہارے خوفزدہ خیالات ، کرپٹ تصورات، ناجائز اختیارات اور بدنیتوں کی موت یقینی ہے۔ اس لیے کہ سماج کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں تم لاکھ سماج کے تمام دروازے بند کر دو، لاکھ سوچوں پر پہرے بٹھالو، ذہنوں کو لاکھ تالے لگا دو لیکن تم پھر بھی تازہ ہواؤں، تازہ سوچوں اور فکروں کو آنے سے نہیں روک سکو گے۔ کرپشن و لوٹ مار سے پاک ہمارے سماج کو بننے سے اب کوئی نہیں روک پائے گا یہ بات تم جتنی جلدی سمجھ لو تمہارے حق میں بہتر ہے۔
یاد رکھو یہ ہی بات وقت پر فرعون، ہٹلر، مسولینی، شاہ ایران، صدام حسین نہیں سمجھ پائے تھے، اسی لیے آج یہ سب کے سب عبرت کی بھیانک تصویریں بن چکے ہیں میرے حکمرانو تم تو ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہو۔ یاد رکھو جس ماحول میں مفلسی، محرومیوں، ظلم و انصافیوں، کرپشن و لوٹ مار کا راج ہو وہ ترقی، خوشحالی اور امن کے لیے کبھی سازگار نہیں ہوتا ہے جہاں تعلیم اور آگاہی کی کمی ہو وہاں اناج کھیتوں میں نہیں اگا کرتے ہیں جہاں جبر و تشدد، استحصال،غنڈہ گردی،خوف کا دور دورہ ہو ایسے سماج میں مردے بھی قبروں میں بے چین رہتے ہیں۔ میرے حکمرانو زندہ رہنے کا حق صرف تمہیں ہی حاصل نہیں ہے ہم بھی اسی حق کے اتنے ہی حقدار ہیں جتنے کہ تم ہو اس لیے ہمارے لیے ذلت آمیز سماج اور تمہارے لیے عزت دار سماج کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
تمہیں اب اس بات کا احساس ہو ہی جانا چاہیے کہ تم سنگ دلی کے مجرم ہو تم سما ج میں نئے خیالات کی موت کے ذمے دار ہو تمہاری وجہ سے لاتعداد بے بسوں کے سینوں کا خون توہین انسانی کو غسل دے رہا ہے تمہاری خود غرضی درد انسانی پر ہنس رہی ہے وہ دیکھو جو بے زبان بھوکا ننگا پاکستانی سرنگوں کھڑا ہے جس کے اترے ہوئے چہرے پر صدیوں کے مظالم کی داستان کنندہ ہے جو جیتے جی ہر قسم کے بار کو اٹھائے چلتا ہے اور پشت در پشت اس بار مصائب کو ورثے میں چھوڑ جاتا ہے جو صرف کام کر نے کے لیے زندہ رہتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے مٹھی بھر اناج کے سوا کچھ نہیں چاہتا ہے۔ دیکھو اسے غور سے دیکھو اب وہ اٹھ رہا ہے تمہاری ناانصافیوں، ظلم و زیادیتوں کے خلاف، تمہاری سنگدلی کے خلاف، تمہاری کر پشن، لوٹ مار کے خلاف اب وہ اٹھ رہا ہے۔ سنو اس کی آواز غور سے سنو دھیمی ہی سہی لیکن تمہارے خلاف فضاؤں میں بکھرنی شروع ہوگئی ہے۔
جب تک انسان کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی اس وقت تک وہ زمانے اور خود سے الجھتا رہتا ہے اور اپنے اور زمانے کے لیے نئی نئی الجھنیں پیدا کرتا رہتا ہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود ساختہ پیدا کر دہ الجھنیں اس سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہیں اور پھر ان سے مقابلے کی اس میں طاقت نہیں رہتی ہے۔ اس لیے دور اندیشی، دانش مندی، عقل مندی اور آپ کی اور زمانے کی بھلائی اسی میں ہے کہ وقت کے گزرنے سے پہلے ہی بات کو سمجھ لیں اگر نہیں تو پھر اپنے سے زیادہ طاقتور الجھنوں سے مقابلے کے لیے تیار ہوجائیں، اگر ہمارے سابق نااہل وزیراعظم وقت پر بات کو سمجھ لیتے تو نوبت یہاں تک کبھی نہیں آتی اور وہ آج بھی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوتے اور حسرت بھری نگاہوں سے وزیراعظم کی کرسی کو آج نہ تک رہے ہوتے۔
امریکا کے فلسفی جان ڈیوی نے کہا تھا ''ہم صرف اس وقت سوچتے ہیں جب مشکلات کا سامنا کرتے ہیں'' ڈیوی فطرت پسند چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے بہت متاثر تھا جس کی کتاب ''انواع کی ابتداء'' 1859ء میں شایع ہوئی تھی۔ ڈارون نے انسانوں کو ایسی زندہ مخلوق قرار دیا تھا جو فطرت کی دنیا کا ایک حصہ ہے اور دوسرے حیوانوں کی طرح انسان اپنے بدلتے ہوئے ماحول کے تقاضوں کے مطابق ارتقا حاصل کرتا آیا ہے۔ ڈیوی، ڈارون سے یہ تصور بھی لیتا ہے کہ ہم مجموعی طور پرایک ایسا نظام ہیں جو مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے۔
تبدیلی کا یہ عمل آغاز سے آج تک مسلسل کام کر رہا ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے مضمون ''شاعری کا سماجی منصب'' میں ایک پتے کی بات کہی ہے، وہ کہتا ہے ''ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گر دو پیش کی دنیا بدلتی ہے خود بھی بدلتا رہتا ہے۔ مثلاً اب ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا اور ہندؤں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کئی سو سال قبل ہمارے آباؤ اجداد کا تھا۔ یہ ویسا بھی نہیں ہے جیسا ہمارا اپنے باپ دادا کا تھا بلکہ ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے۔''
اگر آج ایلیٹ زندہ ہوتے اور وہ پاکستان کی سیاست پر گہری نظریں گاڑھے ہوئے ہوتے تو انھیں اپنی کہی گئی بات کی خود ہی تردید کرنا پڑجاتی۔ اس لیے کہ پوری دنیا بدل گئی لوگ بدل گئے اور مسلسل بدل رہے ہیں لیکن ماشاء اللہ الحمد اللہ ہمارے حکمران نہ تو بدلے ہیں اور نہ ہی ان کا بدلنے کاکوئی ارادہ ہے وہ سالوں پہلے بھی ایسے ہی تھے اور سالوں بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ سالوں سے خود سے اور زمانے سے الجھتے ہی آرہے ہیں، انھوں نے کبھی بھی نا سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے عجیب وغریب قسم کی نفسیات رکھنے والے حکمرانوں سے ہمیں پالا پڑا ہوا ہے مزے کی بات یہ ہے وہ سارا وقت اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ساتھ کبھی بھی دوسرے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہ ہوں اور سماج اسی طرح سے مکمل جامد اور منجمد رہے جیسا کہ ہے وہ یہ سوچنا تک گواراہ نہیں کرتے ہیں کہ ہم سب ایک تبدیل شدہ دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔
ایسی تبدیل شدہ دنیا جو کر پشن اور لوٹ مار کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو بد اعمالیوں اور بدعنوانیوں کو کسی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو آج شفافیت، کرپشن سے پاک سماجوں کی عزت کرتی ہے جو سماج میں انصاف برداشت، رواداری اور قانون کی حکمرانی پسند کرتی ہے جو عقل وشعوروفکر اور سوچ کی حاکمیت چاہتی ہے جو مسائل اور الجھنوں سے پاک سماجوں کے لیے دن رات کام کررہی ہے، ایسے سماجوں کے لیے جہاں انسانوں کو دیوتاؤں کا درجہ حاصل ہو۔
یاد رکھیں تبدیلی کو کوئی کسی صورت نہیں روک سکتا ہے میرے حکمرانو تمہارے خوفزدہ خیالات ، کرپٹ تصورات، ناجائز اختیارات اور بدنیتوں کی موت یقینی ہے۔ اس لیے کہ سماج کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں تم لاکھ سماج کے تمام دروازے بند کر دو، لاکھ سوچوں پر پہرے بٹھالو، ذہنوں کو لاکھ تالے لگا دو لیکن تم پھر بھی تازہ ہواؤں، تازہ سوچوں اور فکروں کو آنے سے نہیں روک سکو گے۔ کرپشن و لوٹ مار سے پاک ہمارے سماج کو بننے سے اب کوئی نہیں روک پائے گا یہ بات تم جتنی جلدی سمجھ لو تمہارے حق میں بہتر ہے۔
یاد رکھو یہ ہی بات وقت پر فرعون، ہٹلر، مسولینی، شاہ ایران، صدام حسین نہیں سمجھ پائے تھے، اسی لیے آج یہ سب کے سب عبرت کی بھیانک تصویریں بن چکے ہیں میرے حکمرانو تم تو ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہو۔ یاد رکھو جس ماحول میں مفلسی، محرومیوں، ظلم و انصافیوں، کرپشن و لوٹ مار کا راج ہو وہ ترقی، خوشحالی اور امن کے لیے کبھی سازگار نہیں ہوتا ہے جہاں تعلیم اور آگاہی کی کمی ہو وہاں اناج کھیتوں میں نہیں اگا کرتے ہیں جہاں جبر و تشدد، استحصال،غنڈہ گردی،خوف کا دور دورہ ہو ایسے سماج میں مردے بھی قبروں میں بے چین رہتے ہیں۔ میرے حکمرانو زندہ رہنے کا حق صرف تمہیں ہی حاصل نہیں ہے ہم بھی اسی حق کے اتنے ہی حقدار ہیں جتنے کہ تم ہو اس لیے ہمارے لیے ذلت آمیز سماج اور تمہارے لیے عزت دار سماج کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
تمہیں اب اس بات کا احساس ہو ہی جانا چاہیے کہ تم سنگ دلی کے مجرم ہو تم سما ج میں نئے خیالات کی موت کے ذمے دار ہو تمہاری وجہ سے لاتعداد بے بسوں کے سینوں کا خون توہین انسانی کو غسل دے رہا ہے تمہاری خود غرضی درد انسانی پر ہنس رہی ہے وہ دیکھو جو بے زبان بھوکا ننگا پاکستانی سرنگوں کھڑا ہے جس کے اترے ہوئے چہرے پر صدیوں کے مظالم کی داستان کنندہ ہے جو جیتے جی ہر قسم کے بار کو اٹھائے چلتا ہے اور پشت در پشت اس بار مصائب کو ورثے میں چھوڑ جاتا ہے جو صرف کام کر نے کے لیے زندہ رہتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے مٹھی بھر اناج کے سوا کچھ نہیں چاہتا ہے۔ دیکھو اسے غور سے دیکھو اب وہ اٹھ رہا ہے تمہاری ناانصافیوں، ظلم و زیادیتوں کے خلاف، تمہاری سنگدلی کے خلاف، تمہاری کر پشن، لوٹ مار کے خلاف اب وہ اٹھ رہا ہے۔ سنو اس کی آواز غور سے سنو دھیمی ہی سہی لیکن تمہارے خلاف فضاؤں میں بکھرنی شروع ہوگئی ہے۔