آئین کی خیر ہو

مت بھولیے کہ 56ء کے آئین کی منسوخی کے بعد 73ء تک ہم مسلسل 17 سال ’’سر زمین و قومِ ِ بے آئین‘‘ رہے تھے

ابھی پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مستقبل میں وزیراعظم بننے کے خواب دیکھنے والے ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان کے درمیان (جو اس کیس کے بڑے مدعی بھی تھے) بیانات اور جلسے جلوسوں کی شکل میں جاری جنگ کی شدت کم نہیں ہوئی تھی کہ 1973ء سے نافذ العمل ملک کے پہلے متفقہ طور پر منظور کردہ آئین کو جوں کا توں برقرار رکھنے، اس کے آرٹیکلز62 و63 میں ترمیم کرنے یا نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے اسے یکسر منسوخ کر کے نیا آئین بنانے کی بحث چھڑ گئی ہے۔

وہ بھی اس شدت سے کہ اس نے عدالتی فیصلے پر بھی چوہدری شجاعت کے الفاظ میں ''مٹی پاؤ''۔ یہ نئی بحث شروع کرنے کا سہرا بھی میاں صاحب ہی کے سر ہے جنہوں نے اپنی جی ٹی روڈ ریلی کے لاہور پہنچنے پر حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ووٹ کی حرمت کے لیے آئین بدلنا ہوگا، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی پارلیمان، حکومت، عدلیہ اور فوج کے مابین ''گرینڈ ڈائیلاگ'' سے اتفاق کرتے ہوئے ملک کو تماشہ بنانے والوں کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا اورکہا کہ سسٹم میں وائرس ہے، اسے ٹھیک کرنا ہوگا۔

یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف عوام کی عدالت میں جانے سے پہلے ہی میاں صاحب، ان کی پارٹی اور حکومت نے آئین کے مسئلے پر ذہن بنا لیا تھا تبھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی حلف برداری کے فوراً بعد آئین میں ترمیم کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے تمام پارلیمانی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کی بات کی تھی۔

یومِ آزادی پر میاں صاحب نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے پھرکہا کہ ووٹ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی ملک ٹوٹا تھا، اگر عوام کے دیے ہوئے مینڈیٹ کی بے توقیری نہ کی جاتی تو آج بھی ملک متحد ہوتا۔ مگر میاں صاحب کے اس طرح بجائے ہوئے طبلِ جنگ پر صدر ممنون حسین کا جو ردِ عمل سامنے آیا ہے وہ اْن کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

کنونشن سینٹر اسلام آباد میں یومِ آزادی کے موقعے پر پرچم کشائی کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے قومی قیادت پر زور دیا کہ وہ اختلافات ختم کرکے قومی مفاد میں پاکستان کے آئین پر متحد ہوجائے۔ صدر نے نوجوانوں میں پائی جانے والی بے چینی پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا تحفظ اور اس کی مکمل پاسداری ہی ملک کے امن، ترقی اور خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے۔

اْدھر قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی آئین میں ترمیم یا اس کی منسوخی کے مسئلے پر حکومت اور میاں صاحب پر صاف لفظوں میں واضح کردیا ہے کہ ان کی پارٹی سے کسی بھی قسم کے تعاون کی امید نہ رکھی جائے۔ سکھر پہنچنے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم تو اٹھارویں ترمیم کے وقت ہی آرٹیکل62 اور63 کو ختم کرنا چاہتے تھے مگر میاں صاحب کی مخالفت آڑے آگئی، اب ان میں ترمیم کا فیصلہ اگلی اسمبلی ہی کرے گی۔

شاہ صاحب نے الزام لگایا کہ نواز شریف ان آرٹیکلز کو آصف زرداری کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے، اب چیخنے چلانے کی بجائے وہ یوسف رضا گیلانی کے متعلق کہا ہوا اپنا جملہ یاد کریں، انھوں نے سوال کیا کہ جب کسی سیاسی جماعت نے میاں صاحب کے خلاف سازش نہیں کی تو وہ ریلی کس کے خلاف نکال رہے تھے۔


چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی سابق وزیر اعظم کو عدم تعاون کی جھنڈی دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ آئین میں ترمیم کے لیے ن لیگ کا ساتھ نہیں دیں گے جس کا نواز شریف فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دریں اثناء نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعے گھر بھجوانے کا دعویٰ کرنے والے ان کے سب سے بڑے حریف اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ آرٹیکل 62 اور63 کو آئین سے نکالنے کی سازش ہورہی ہے جسے وہ کسی قیمت پر بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

آرمی چیف کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہیں، عمران خان نے کہا کہ سب کو جی ٹی روڈ سے سپریم کورٹ کے خلاف سازش ہوتی ہوئی نظر آگئی اور وہ نواز شریف کی ریلی میں شریک ہونے والوں سے دس گنا زیادہ لوگ عدلیہ، جے آئی ٹی اور فوج کی حمایت میں سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔

انھوں نے الزام لگایا کہ سارا ڈراما دراصل سپریم کورٹ اور نیب کو دباؤ میں لانے کے لیے کیا جا رہا ہے، مگر قوم سپریم کورٹ اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ کسی کو آئین سے صادق اور امین کی شرائط نہیں نکالنے دے گی۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے شیخ رشید کو اپنا سیاسی گرو قرار دیا اور اعتراف کیا کہ طاقتور کے سامنے کلمہ حق کہنا انھوں نے شیخ رشید ہی سے سیکھا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی مافیا کے خلاف جہاد کر رہے ہیں (ان برسوں میں یقیناً وہ عرصہ شامل نہیں ہوگا جب شیخ صاحب نواز شریف کے جاں نثار سپاہی کے طور پر ان کی مخالف قوتوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے)

دوسری طرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی آئین میں ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 62 اور63 کو ختم کرنے کا خیال دل سے نکال کر انھیں ججوں، جرنیلوں اور سرکاری افسران پر بھی لاگو کیا جائے، لیکن اس موضوع پر سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا موقف سامنے آنے کے بعد ''گل ای مْک گئی'' ہے جنہوں نے نواز شریف کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری لیڈر نہیں، مہرے ہیں۔

اپنے شہر ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں نے دونوں کو سمجھایا تھا کہ احمقانہ حرکتیں کرکے نواز شریف کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہ دو، وہ چار سال بعد ویسے ہی چلا جائے گا لیکن یہ نہ مانے، نتیجتاً نواز شریف آج پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوچکا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے حالیہ بیانات پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ دہلی میں نہر والی کوٹھی کے نام سے مشہور اس کا گھر شہر کے مخصوص بازار میں واقع ہے لیکن اب وہ خود کو سید کہتا ہے، وہ پہلے بھی برا آدمی تھا اور آج بھی برا آدمی ہی ہے۔

جاوید ہاشمی المعروف باغی نے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیا کہ آج کل سڑکوں پر دکھایا جانے والا ڈرامہ دراصل ''اْن چند لوگوں'' کا رچایا ہوا ہے جو نواز شریف کو پسند نہیں کرتے اور وہ عمران خان و طاہر القادری کو بطور مہرے استعمال کر رہے ہیں۔ ''میں نے نماز جمعہ کے بعد مسجد میں ن لیگ کے درجن بھر سرکردہ افراد بشمول شاہد خاقان عباسی، رانا تنویر، عابد شیر علی، سرتاج عزیز، احسن اقبال، سعید مہدی اور خواجہ آصف وغیرہ کو متنبہ کیا تھا کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے، لیکن انھوں نے اقتدارکے نشے میں میری بات نہیں سنی، آج ان کا لیڈر سڑکوں پر مارا مارا پھرتا ہے، اس سے مسلم لیگ ن کا نہیں ملکی ترقی کا نقصان ہوا ہے جس کا مجھے بے حد دکھ ہے۔''

ان سے پہلے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ چکے تھے کہ نواز شریف کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں، میثاق جمہوریت کو بھول جانے والے آج کس منہ سے تعاون مانگتے ہیں، ان سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ انھوں نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ ''پاناما لیکس کیس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں نہ ہی جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے، 2018ء میں پھر آصف زرداری کی حکومت ہوگی۔''

مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت کون بنائے گا اور کون جیل کی ہوا کھائے گا، فکر ہے تو ملک کے آئین کی جو اگر خدا نخواستہ منسوخ ہوا تو پھرکبھی نہ بن پائے گا، مت بھولیے کہ 56ء کے آئین کی منسوخی کے بعد 73ء تک ہم مسلسل 17 سال ''سر زمین و قومِ ِ بے آئین'' رہے تھے، اسی لیے میں اللہ سے 73ء کے متفقہ آئین کی خیر مانگتا ہوں۔
Load Next Story